محافظِ جائے دخول

اسلام مرزا

کتنے دوستوں کو علم ہوگا کہ محافظ جائے دخول کس بلا کا نام ہے؟۔ فکر نہ کریں بڑے بڑے دانشوروں کو بھی علم نہیں ہے۔ تو ہوا یوں کہ پاکستان کے وجود میں آتے ہی چند لوگوں بشمول قائد اعظم کے یہ طے پایا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی۔ جس سے مختلف زبانیں بولنے والوں کی آپس میں ٹھن گئی۔ پاکستان کی اشرافیہ بھی اس مسئلے پر دھڑوں میں تقسیم ہوگئی۔

مگر حالت یہ تھی کہ اردو کے نفاذ و ترویج کا فیصلہ کرنے والے پاکستان کا آئین تک اردو میں نہ لکھ سکے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قومی زبان تو اردو مگر سرکاری زبان انگریزی قرار پائی اور پاکستان ایک ایسی عجوبہ ریاست بن گیا جہاں عوام کی بات سرکار کو سمجھ نہیں آتی اور نہ سرکار کی بات کو عوام سمجھتے ہیں۔ تاہم کوششیں جاری رہیں اور حکومت نے اردو کے نفاذ کے لئے مقتدرہ قومی زبان کے نام سے ایک ادارہ قائم کردیا۔ جس کا کام انگریزی سائنسی و دیگر علوم میں مستعمل الفاظ اور اصطلاحات کا اردو ترجمہ تھا۔

مقتدرہ قومی زبان کی مقتدر ہستیاں اس بات کو بھول گئیں کہ اردو ایک لشکری زبان ہے جس کا اپنا نام تک ترکی زبان میں ہے۔ چنانچہ انہوں نے ہر لفظ اور اصطلاح کا اردو ترجمہ کرنے کی ٹھان لی اور اردو میں نئے الفاظ کا داخلہ تقریباً ممنوع قرار دے دیا۔ دنیا بھر میں لوگ جب کسی دوسری زبان سے کوئی لفظ اپنی زبان میں داخل کرتے ہیں تو اس کا ترجمہ نہیں کرتے مگر اسے اپنی زبان کے لہجے میں ضرور ڈھالتے ہیں۔

یہی کام پاکستان بننے سے پہلے اردو میں بھی ہوتا رہا ہے جیسا کہ سکول سے اسکول یا پھر سٹیشن سے اسٹیشن۔ البتہ جن الفاظ کو اردو میں نہیں ڈھالا جا سکتا تھا انہیں من وعن اسی طرح اردو میں شامل کرلیا جاتا تھا۔ جیسے لفظ پین کے لئے اردو میں متبادل لفظ قلم کی صورت میں موجود تھا مگر پینسل کے لئے اردو میں کوئی متبادل نہیں تھا اس صورت میں لفظ پینسل کو بطور اردو لفظ کے اپنا لیا گیا۔ ایسے ہی کئی دوسرے الفاظ ہیں جو من و عن یا لہجے کی تبدیلی کے ساتھ اردو میں داخل ہوتے گئے۔

اب چونکہ ہم نے اپنے درسی نظام کو اردو میں تبدیل کرنا تھا تو اردو میں پہلے سے مستعمل انگریزی الفاظ ہماری آنکھوں میں کھٹکنے لگے اور ان کا ترجمہ بھی لازم ٹھہرا۔ اور ترجمہ کرتے ہوئے یہ بھی خیال رکھا جانے لگا کہ ترجمہ عربی یا فارسی کے کتنا قریب ہے۔ عربی میں ٹیلی وژن کا نہ تو ترجمہ تھا اور نہ ہی متبادل۔ چنانچہ انہوں نے اسے اپنی سہولت کے مطابق تلفزيون کرلیا۔ مگر ہمارے ہاں اسے آلہ دوربینی کہنے کا شوق تھا۔

اسی طرح درسی کتابوں میں پہلے سے رائج الفاظ کو بھی تختہ مشق بنایا گیا ۔ ایٹم کو ذرّہ اور تھرمومیٹر کو آلہ مقیاس الحرارت بنا دیا گیا۔ یوں طلبا کو ایک نئی مصیبت میں ڈال دیا گیا۔ ایسا کوئی بھی لفظ مقبول عام نہ ہوسکا۔ چنانچہ بڑے سے بڑا اردو دان ڈاکٹر بھی ایک عام ان پڑھ دیہاتی کے سامنے بھی فشار خون کی بجائے بلڈ پریشر کہنے پر مجبور ہے کیونکہ اسے بلڈ پریشر کی تو سمجھ آتی ہے مگر فشار خون کی نہیں۔

کوئی بھی ایجاد یا دریافت اس کے موجد یا دریافت کرنے والے کا بچہ ہوتی ہے ۔ اب بچے کا نام والدین ہی رکھیں گے نہ کہ محلے والے۔ مگر اردو نافذ کرنے والے شائد اس حقیقت کو نہیں مانتے۔ کھیلوں کو اپناتے ہوئے بھی ہمارے ساتھ یہی مسئلہ ہوا کہ ہم نے ہاکی یا فٹ بال کے الفاظ تو اپنا لئے مگر ان الفاظ کے ساتھ جڑے الفاظ کا ترجمہ کرنے بیٹھ گئے اور عجیب حماقتیں کیں۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ جاتے جاتے ایک تاریخی فیصلہ دے گئے اور وہ اردو زبان کے بطور قومی زبان نفاذ کا فیصلہ تھا۔ جسٹس صاحب کی الوداعی تقریب میں ایک اخبار نویس نے جج صاحب سے پوچھا کہ توہیں عدالت نہ سمجھی جائے تو کیا وہ جج صاحب سے پوچھ سکتا ہے کہ محافظ جائے دخول کسے کہتے ہیں؟۔ جج صاحب نے جھینپتے ہوئے مسکرا کر جواب دیا کہ نہیں۔ اس پر اخبار نویس نے جج صاحب کو بتایا کہ اردو میں گول کیپر کو محافظ جائے دخول کہتے ہیں۔

3 Comments