مسٹر عزیز یہ رقم انتہاپسندی کے خلاف استعمال کریں

_92823073_036709621-1

بھارت کے شہر امرتسر میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں بھارت کے وزیر اعظم مودی اور افغانستان کے صدر اشرف غنی نے پاکستان کو دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔وزیراعظم مودی نے کانفرنس کاافتتاح کرتےہوئے کہا کہ دہشت گردی اس خطے کے امن میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔

دہشت گردی پاکستان کے لیے اب ایک طعنہ بن چکا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہے اور اگر پاکستان کسی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کر لے تو اسے دہشت گردوں کی حمایت کا طعنہ ملتا ہے۔ جس کا مظاہرہ امرتسر میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں ہوا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان واقعی دہشت گردی کو ختم میں سنجیدہ ہے کہ نہیں۔

ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے دوران افغان صدر نے کہا ہے کہ پاکستان نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے پانچ سو ملین ڈالر کی امداد کا وعدہ کر رکھا ہے لیکن بہتر ہو گا کہ یہ رقم پاکستان میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف استعمال ہو۔

، ’’ہمیں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے مدد کی ضرورت ہے۔‘‘ افغان صدر کا پاکستانی مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمیں سرحد پار دہشت گردی کو شناخت کرنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک فنڈ کی ضرورت ہے۔پاکستان نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے پانچ سو ملین ڈالر کا وعدہ کیا ہے۔ مسٹر عزیز، یہ رقم انتہاپسندی کی روک تھام کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے‘‘۔

اشرف غنی نے کہا کہ افغانستان کا سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی ہے جہاں تقریباً تیس دہشت گرد تنظیمیں سرگرم ہیں اور ان تنظیموں کے کارکن پاکستان میں پناہ لیتے ہیں۔غنی کا مزید کہنا تھا، ’’گزشتہ برس افغانستان میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ یہ ناقابل قبول ہے، اب بھی کچھ ریاستیں دہشت گردوں کومحفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتی ہیں۔ ایک طالبان شخصیت نے حال ہی میں کہا ہے کہ اگر انہیں پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں نہ ملیں تو وہ ایک مہینہ بھی نہیں بچ سکتے‘‘۔

غنی کا مزید کہنا تھا، ’’میں الزام تراشی کا کھیل نہیں چاہتا لیکن وضاحت چاہتا ہوں کہ دہشت گردی کی برآمد کو روکنے کے لیے کیا کیا جا رہا ہے۔‘‘۔

دریں اثناء پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے اتوار کے روز بھارت میں افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کیہے، جس میں افغانستان کے امن اور استحکام کے لیے بات چیت کی گئی ہے۔ یہ ملاقات بھارتی شہر امرتسر میں جاری ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقع پر ہوئی ۔ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب افغانستان میں امن عمل انتہائی سست ہو چکا ہے۔

اس ملاقات کے حوالے سے ایک پاکستانی ذریعے نے بھارتی نیوز ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو بتایا ہے، ’’ ملاقات  کے دوران افغانستان میں استحکام، امن اور ترقی کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ انڈین میڈیا نے لشکرِ طیبہ،جیشِ محمد اور حقانی نیٹ ورک کے بارے میں بات کر کے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تاہم اگر کانفرنس کے اعلامیے کو دیکھا جائے تو اس میں ٹی ٹی پی، جماعت الاحرار اور پاکستان کے لیے خطرہ بننے والی دیگر دہشت گرد تنظیموں سمیت خطے میں موجود دیگر دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں بھی بات کی گئی۔

سرتاج عزیز نے بین السطور اس بات کو تسلیم کیا کہ پاکستان میں موجود دہشت گرد تنظیمیں خطے میں بدامنی پھیلانے کی ذمہ دار ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’افغان صدر اشرف غنی کا بیان افسوسناک ہے لیکن قابلِ فہم بھی ہے کیونکہ افغانسان میں شورش بڑھی ہے، ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے، پاکستان کی نسبت دھماکوں میں اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان میں مایوسی کی کیفیت ہے اور جب مایوسی اور گذشتہ برسوں میں اس رجحان کو دیکھیں کہ ہر حملے کا الزام پاکستان پر لگتا ہے تو پھر اس کی سمجھ بھی آتی ہے کہ اس طرح کا بیان کیوں آتا ہے‘۔

لیکن اس کے باوجود پاکستان کی سویلین حکومت دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کاروائی کرنے میں بے بس ہے۔

ہارٹ آف ایشیا اور استنبول پراسس کا آغاز 2011 میں کیا گیا تھا، جس میں پاکستان، افغانستان، آذربائیجان، چین، بھارت، ایران، قزاقستان، کرغستان، روس، سعودی عرب، تاجکستان، ترکی، ترکمانستان اور متحدہ عرب امارات کو شامل کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد افغانستان اور اس کے ہمسایہ ممالک کے مابین ، سلامتی، اقتصادی اور سیاسی تعاون کو فروغ دینا ہے۔

DW/BBC

Comments are closed.