مجھے کوئی خوف نہیں

12491863_939910766100245_4230327276596795234_o-247x300عظمیٰ ناصر


مجھے کوئی خوف نہیں ۔مجھے اس بدترین آمر سے بھی کوئی خوف نہیں ۔جس نے میرے ستر بھائیوں کی جان لی۔میری بھی جان لے لو مجھے کوئی خوف نہیں۔تاریخ کا فیصلہ میرے حق میں آئے گا۔

جیل میں یہ کاسترو کے الفا ظ تھے ۔فیدل کاسترو نے دوسال تک فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف لڑائی لڑی بالاخرفتح کاسترو کے حصے میں آئی ۔ان کی شخصیت میں وہ تمام اجزائے ترکیبی پائے جاتے تھے ،جو کسی بھی شخص کو تیسری دنیا کا ہیرو بنانے کے لئے کافی ہیں ۔

فیدل کاسترو کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی جو ایک فاتح انقلابی کے چہرے پر ہوسکتی ہے ۔یہ وہ واحد شخص تھا جس نے پانچ دہائیوں تک امریکہ کو تگنی کا ناچ نچائے رکھا،اس پر لاتعداد حملے ہوئے مگر ہر دفعہ کاسترو بچ نکلا ۔امریکہ کے دروازے پر اس نے کمیونسٹ انقلاب کی بنیا د رکھی ۔امریکہ کے گیا رہ صدر اس دورا ن آئے پر ایک نے کاسترو سے جان چھڑوانے کی کوشش کی مگر فیدل کاسترو وہیں کا وہیں رہا اور بالآخر نوے سال کی عمر میں اپنی طبی مو ت مرا۔

کیوبا براعظم جنوبی امریکہ کا سب سے صحت مند اور تعلیم یافتہ ملک ہونے کے باوجودایک بھی بین الاقوامی دوا ساز کمپنی وہا ں قدم نہ جما سکی ۔سب دوائیں مقامی طور پر بنتی ہیں ۔ یا اچھے دنوں میں سابق سوویت یونین اور مشرقی یو رپ کے سوشلسٹ ممالک سے آتی ہیں ۔ٹراپیکل میڈیسنز پر سب سے زیادہ ریسرچ کیوبا میں ہی ہوئی تھی۔جن ہسپانوی نژاد اور سیا ہ فام امریکیوں کے پاس اپنے ملک میں مہنگی سائنسی تعلیم حاصل کرنے کے وسائل نہیں تھے ۔انہیں کیوبا اپنے ہاں مفت تعلیم مکمل کرنے کے لئے مدعو کرتا رہتا تھا۔

مگر یہ سب کچھ فیدل کاسترو کے دور میں مکمل ہو ا اس سے پہلے کیوبا امریکہ کی تفریحی چرا گاہ تھا اس کے دارلحکومت ہوانا میں یا تو چکلے تھے یا پھر جوا خانہ تھے ان سب کو جرائم پیشہ امریکی مافیا کنٹرول کرتی تھیں۔صرف ایک فصل پیدا ہوتی تھی ۔گنا اس سے بننے والی ساری شکر امریکی تجارتی کمپنیوں کے کنڑول میں تھی یہاں کی آبادی کا اسی فیصد حصہ غربت کے نیچے زندگی گزار رہی تھی ۔1948میں ہوانا یونیورسٹی میں قانون پڑھنے کے لئے ایک خوشحال جاگیردارانہ پس منظر کے نوجوان طالب علم فیدل کاسترو کا خیال تھا کہ سیاسی جمہوری جدوجہد کے ذریعے ملک کی قسمت بدلی جا سکتی ہے ۔

اس دوران ایک جنرل بتیستانے اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔فیدل کاسترو کو اس پر شدید غصہ آیا اس نے اپنے جیسے جوشیلے نوجوان اکٹھے کر کے فوجی پارک پر حملہ کر دیامگر پکڑے گئے۔ اس میں فیدل کاسترو کا بھائی راہول بھی شامل تھا ۔خصوصی عدالت میں مقدمہ چلا جج نے فیدل کاسترو سے پوچھا کہ اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے فیدل نے کہا تم مجھے بری کرو یا نہ کرو مجھے کوئی پرواہ نہیں ۔مجھے یقین ہے تاریخ ایک دن مجھے ضرور بری کرے گی جج نے دونو ں بھائیو ں کو 15سال کی سزا سنا دی ۔

دو سال بعد بتیستانے کانگریس کے لئے انتخابات کا اعلان کر دیا اور سیاسی قیدیوں کو عام معافی دے دی گئی ۔اسی دوران فیدل بھی جیل سے باہر آگئے۔مگر ان دو سالوں میں ان کا دل روایتی سیاسی جدوجہد سے آنے والی کسی ممکنہ تبدیلی سے اچاٹ ہو چکا تھا ۔چنانچہ میکسیکو چلے گئے وہاں ان کی ملا قات ایک اور جلا وطن انقلابی چی گویرا سے ہوگئی۔ پیسہ پیسہ جوڑ کر ایک پرانی کشتی خریدی گئی اور اس کے ذریعے دنیا بدل دینے کے خواب دیکھنے لگے اس سفر میں ان کے ساتھ چی گویرا سمیت کوئی 80انقلابی تھے۔ انہوں نے بتیستا کے دستوں پر حملے شروع ہوئے ۔

تین برس میں کھوکھلی حکومت ہلکان ہو گئی اور یکم جنوری انیس سو انسٹھ کو بتیستا اپنے ذاتی طیارے میں امریکہ بھاگ گیا ۔تینتیس سالہ کاسترو اور اس کا مسلح دستہ چھپتے ہوئے ٹینکوں اور ٹرکوں میں سوار ہوتا ہوا جب ہوانا میں داخل ہو ا تو امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک ملین لوگ سڑکوں پر تھے ۔کاسترو نے جب عوام سے خطاب کیا تو خطاب کے دوران ایک فاختہ کاسترو کے کندھے پر بیٹھ گئی اور خطاب ختم ہونے تک بیٹھی رہی۔

مقامی روایت کے مطابق فاختہ کسی نجات دھندہ کے کندھے پر ہی بیٹھتی ہے ۔کاسترو کی تقریر میں توپوں کا رخ بتیستا کی طرف نہیں بلکہ امریکہ کی طرف تھا کاسترو نے کیوبا پر دھڑلے سے 39 برس حکومت کی اس دوران امریکہ نے کیوبا کا مکمل طور پر معاشی بائیکاٹ کر دیا ۔آئزن ہاور سے لے کر بل کلنٹن تک کاسترو کو امریکی سی آئی اے نے قتل کروانے کے لئے چھ سو اڑتیس چھوٹی بڑی کوششیں کیں۔

آخری بڑی کوشش سن دو ہزار میں ہوئی جب کاسترو کو پانامہ میں ایک اجتماع سے خطاب کرنا تھا ۔سٹیج کے نیچے نوے کلو گرام دھماکہ خیز مواد چھپانے کا منصوبہ بنا لیا گیا لیکن یہ منصوبہ بھی ناکام ہوگیا ۔فیدل کاسترو کا کارنامہ یہ تھا کہ اس نے ایک چھوٹے سے جزیرے کو پوری دنیا میں انقلابی ریاست میں تبدیل کیا ۔

Comments are closed.