انسانی حقوق کا عالمی دِن اور پاکستان کا کردار

asif-javaid4-252x300

آصف جاوید

دس دسمبر کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منا یا جاتا ہے۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کی تباہ کاریوں نے دنیا کو برباد کرکے رکھ دیا تھا۔ چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد اقوامِ عالم کے نمائندہ دماغ ، اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی میں سر جوڑ کر بیٹھے اور دنیا میں شروع ہونے والی جنگوں کے اسباب اور ان کے سدِّ باب پر غور و خوص شروع کردیا۔

اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی میں موجود اقوامِ عالم کے اعلی دماغ دانشور طویل غور و خوص، اور گرما گرم مباحث کے بعد ، بالآخر اِس نتیجے پر پہنچے کہ ذی روح انسانوں کے بنیادی انسانی حقوق سے لا پرواہی اور اِن کی بے حرمتی سے اکثر ایسے وحشیانہ افعال ظہور پذیر ہو ئے ہیں کہ جِس سے انسانی ضمیر کو سخت ترین صدمات پہنچے ہیں۔ عام انسانوں کی بلند ترین آرزو یہی ہوتی ہے کہ وہ ایسی دنیا میں ر ہیں ، جس میں تمام انسانوں کو اپنی بات کہنے اور اپنے عقیدے پر قائم رہنے کی آزادی حاصل ہو۔ اور عام انسان تمام تر ڈر و خوف سے محفوظ ہوں۔

لہذا یہ ضروری ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے طے کردیا جائے، اور ان تمام بنیادی انسانی حقوق کو ایک عالمی قانون کی عملداری کے ذریعے محفوظ کردیا جائے۔ چنانچہ اقوامِ متّحدہ کی جانب سے 10 دسمبر ، سنہ 1948ء کو 30 شِقوں والے بنیادی انسانی حقوق کے عالمی چارٹرڈ کا اعلان کیا گیا۔ جِس میں طے پایا کہ ہر انسان کی ذاتی عزّت اور حرمت اور انسانوں کے مساوی اور ناقابلِ انتقال حقوق کو تسلیم کرنا ہی دنیا میں آزادی، انصاف اور امن کی بنیاد ہے۔

لہذا اقوامِ متّحدہ کی تمام ممبر اقوام ،انسانی حقوق کے عالمی چارٹرڈ میں بنیادی انسانی حقوق ، انسانی حرمت و قدر، مردوں اور عورتوں کے مساوی حقوق کے بارے میں درج منشور کو صدقِ دلِ سے تسلیم کرتی ہیں۔ تصدیق کی جاتی ہے کہ انسانی حقوق کا یہ عالمی چارٹرڈ اقوامِ عالم کے واسطے حصول مقصد کا مشترکہ معیار ہوگا ، تاکہ دنیا کا ہر فرد اور معاشرے کا ہر ادارہ ، اس منشور کی ترویج و اشاعت، تعلیم و تبلیغ کے ذریعے بنیادی انسانی حقوق اور تمام تر آزادیوں کا احترام پیدا کرے، اور اِس منشور کو قومی و بین الاقوامی کارروائیوں کے ذریعے ممبر ممالک کی زیرِ نگیں اقوامِ میں اصولی طور پر منوایا جائے۔ اقوامِ متّحدہ کی متّفقہ قراداد نمبر 423 کے تحت ، آج مورخہ 10 دسمبر، سنہ 1950ء کو اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی یہ اعلان کرتی ہے کہ اس دن کو ہر آنے والے سال میں انسانی حقوق کے عالمی دن کے طور پر منایا جائے گا ۔

قارئینِ اکرام، انسانی حقوق کا بنیادی عقیدہ نہایت ہی سادہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ دنیا میں ہر شخص عزّت اور وقار کے ساتھ زندگی گزارے۔ انسانی حقوق کی پامالی، لاپروائی اور بے حرمتی کو مہذّب دنیا وحشیانہ فعل قرار دیتی ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کے نتیجے میں معاشرہ میں نا انصافی، گھٹن، بے چینی اور انتشار پیدا ہوتا ہے، حقوق سے محرومی سے معاشرے میں غم و غصّہ اور نفرت و عداوت پیدا ہو تی ہے نفرت کی آگ بڑھ جائے تو اور اس کے نتیجے میں بغاوت جنم لیتی ہے۔

دنیا میں ہونے والی تمام خانہ جنگیوں ، اور ممالک کے درمیان ہونے والی جنگوں کے بنیادی اسباب یہی رہے ہیں۔ دنیا کی تما م مہذّب اقوام اور ترقّی یافتہ ممالک نے انصاف کی فراہمی اور انسانی حقوق کی بحالی کے بعد ہی فلاح پائی ہے۔ اور جن ممالک نے اس بنیادی عقیدے سے انحراف کیا ہے، وہ تباہی کے دہانے پر کھڑے ہوگئے ہیں، جس کی ایک مثال میرا پیارا وطن پاکستان ہے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ بنگالیوں کی حق تلفی، سقوطِ ڈھاکہ ، سندھ کے شہری علاقوں میں پچھلے 44 سال سے نافذ ٖ غیر منصفانہ کوٹہ سسٹم، قیامِ پاکستان کے وقت انڈیا کے مختلف شہروں سے ہجرت کرکے آئے ہوئے مہاجرین کی اولادوں کے ساتھ ریاست کا امتیازی سلوک، بلوچوں کے ساتھ ناانصافیاںاور ریاستی دہشت گردی، بلوچستان میں علیحدگی کی تحریکیں، اور سسکتا اور خاک و خون سے آلود ہ شہر کراچی۔

سیاسی عوامل خواہ کچھ بھی ہوں بنیادی عوامل، ریاست کی جانب سے انسانی حقوق کی بدترین پامالی اور ریاستی دہشت گردی ہی رہے ہیں۔

پاکستان اقوامِ متّحدہ کا ممبر ملک ہونے کی حیثیت سے انسانی حقوق کے عالمی منشور کا پاسدار ہے۔ اور پاکستان کاآئین ،ریاست پاکستان کو پاکستان کے تمام شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کا ذمّہ دار قرار دیتا ہے ۔ 1973 کے آئین کے آرٹیکل 8 تا 28 شہریوں کے لیے ان تمام بنیادی انسانی حقوق کی فہرست پر مشتمل ہیں جو ریاست کی ذمّہ داری قرار دیے گئے ہیں۔ انسانی حقوق کی پاسداری اور بنیادی آزادیوں کے احترام کو یقینی بنانے کے لیے پاکستانی آئین اپنے شہریوں کو ایک ایسی ضمانت فراہم کرتا ہے جہاں مقننہ کو ان حقوق کی فراہمی کے لیے مناسب قانون سازی کا ذمہ دار جبکہ اعلیٰ عدلیہ کوان کا محافظ قرار دیا گیا ہے۔ مگر ان سب ضمانتوں اور یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال مایوس کن ہے۔

ایک آئینی وجمہوری سیاسی نظام کی موجودگی اور انسانی حقوق کے تمام اہم عالمی معاہدوں کا رکن ہونے کے باوجودانٹرنیشنل ہیومن رائٹس انڈیکس کے مطابق پاکستان انسانی حقوق کی صورت حال کے اعتبار سے 187ممالک میں 146 ویں نمبر کی بدترین سطح پر ہے۔ جو یقیناًتشویش ناک بات ہے۔

ویسے تو بہت سارے ہی پہلو تشویش ناک ہیں ، لیکن سب سے زیادہ فکرمندی کی بات یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ (عسکری اشرافیہ) اور حکومت ، انسانی حقوق کی بدترین پامالی سے متعلق بہت سارے حقائق کو سِرے سے تسلیم ہی نہیں کر تے ہیں۔ جن میں سرِ فہرست ریاستی ایجنسیوں کی جانب سے نوجوانوں کا اغوا، اُن کی جبری گمشدگیاں، زیرِ حراست انسانیت سوز تشدّد، ماورائے عدالت قتل، ویرانوں سے ملنے والی مسخ شدہ لاشیں ہیں۔ کاروبارِ حکومت کٹھ پتلیوں (منتخِب عوامی حکومت) کے ہاتھوں میں ہے ، جب کہ ریاستی ڈھانچے میں فوج، رینجرز اور خفیہ اداروں کو کلیدی اور فیصلہ کُن حیثیت حاصل ہے۔

عسکری اداروں کی جانب سے حقوق کے لئے اٹھنے والی آوازوں، سیاسی جماعتوں اور مسلح علیحدگی پسندوں کے خلاف کارروائیوں کے دوران کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تناظر میں سیاسی حکومت اور عدلیہ کا کردار انتہائی مایوس کن رہا ہے۔ ایک جانب ریاست کے عسکری ادارے ، بے گناہ شہریوں کے اغواء ، زیرِ حراست تشدّد، ماورائے عدالت قتل ، اور جبری گمشدگیوں جیسے ہتھکنڈے مہاجر ، بلوچ اور دیگر قوم پرست تحریکوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں تو دوسری طرف دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ایسے قوانین تشکیل دیے گئے ہیں جو انسانی حقوق کی مزید پامالیوں کا باعث بن گئے ہیں۔

صرف ریاست ہی نہیں ، اب تو پاکستان میں ریاست کے پالے ہوئے تزویراتی اثاثے بھی انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوّث ہیں ۔ ( یہ تذویراتی اثاثے معاشرے میں مذہبی شدّت پسند، گروہوں کی شکل میں سرگرم ہیں، اور ایک تسلسل کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف پامالیوں کے مرتکب ہورہے ہیں )۔ قوم پرست اور نظریاتی تنظیموں کی جانب سے بھی انسانی حقوق کی پامالی کی اطلاعات ملتی رہتی ہیں ۔ اگلے مضمون میں قارئین اکرام سے پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی سے متعلّق قوانین کے بارے میں گفتگو کی جائے گی۔

Comments are closed.