جو پیا من بھائے ، وہی سہاگن

آصف جاوید

ماضی کے نامور پاپ سنگر اور حال کے مایہ ناز نعت خواں اور دینی مبلّغ جناب جنید جمشید مرحوم کی نماز جنازہ مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ نور خان ائر بیس چکلالہ میں ادا کی گئی۔ افواجِ پاکستان کی69 سالہ تاریخ میں جنید جمشید وہ دوسرے سِویلین ہیں جنہیں کسی بھی قسم کی فوجی خدمات انجام دئے بغیر مکمّل فوجی اعزاز کے ساتھ آخری رسومات کی ادائیگی سے نوازاگیا ۔

اِس سے پہلے کسی غیر فوجی کو کسی بھی قسم کی فوجی خدمات انجام دئے بغیر مکمّل فوجی اعزاز کے ساتھ د فنانے کا اعزاز ممتاز سماجی کارکن جناب عبدالستّار ایدھی کو حاصل ہوا تھا، جن کو قومی پرچم میں لپیٹ کر فوجی اعزاز کے علاوہ اضافی طور پر 21 توپوں کی سلامی بھی دی گئی تھی۔ یوں پاکستان کی فوجی تاریخ میں جنید جمشید وہ دوسرے مقبولِ بارگاہ سویلین قرار پائے، جو مرنے کے بعد بھی بارگاہِ ایزدی کے علاوہ ، بارگاہِ عسکری میں بھی اعزازات اور لطف و عنایت کے حقدار ٹھہرے۔

تفصیلات کے مطابق بُدھ کو دینی مبلّغ جناب جنید جمشید کے قومی پرچم میں لپٹے ہوئے جسدِ خاکی کی نماز جنازہ ، مکمّل فوجی اعزاز کے ساتھ ِراولپنڈی کے نُور خان ائر بیس پر ادا کی گئی، جِس کے بعد پاک فضائیہ کے ایک چاق و چوبند دستے نے جنید جمشید کی میّت کو گارڈ آف آنر پیش کیا۔ نمازِ جنازہ میں ائر چیف مارشل سہیل اَمان نے بھی شرکت کی۔ بعد ازاں میت کی تدفین کراچی میں ہوئی۔

جناب جنید جمشید کی موت پچھلے ہفتے پی آئی اے کے طیّارے کے حادثے کے نتیجے میں ہوئی تھی۔ حادثے میں جنید جمشید سمیت 48 افراد لقمہ اجل بنے تھے، تمام لاشیں جل کر کوئلہ ہوگئی تھیں، میّتوں کی شناخت ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے کی گئی تھیں ۔

اللہّ نے جنید جمشید کو بہت عزّت سے نوازا، زندگی میں بھی اور بعد از موت بھی۔ زندگی میں جنید جمشید کو مولویوں کے ایک فرقے کی جانب سے توہینِ مذہب کے الزام میں گردن زنی سے بھی مولویوں کے دوسرے فرقے نے ایسے بچایا تھا جیسے مکّھن میں سے بال نکالا جاتا ہے۔ جنید جمشید ، مشہور دینی مبلّغ جناب طارق جمیل کے پیروکار تھے۔ان کے مرنے کے بعد ، مولانا طارق جمیل صاحب نے بھی گزشتہ دنوں ایک ٹی وی انٹرویو میں جنید جمشید کے جنّت میں جانے کی تصدیق کردی ہے۔

ٹی وی انٹرویو کے مطابق انگلینڈ میں مقیم جناب طارق جمیل کے ایک دوست کو رسولِ کریم جناب حضرت محمّد صلعم نے خواب میں بشارت بھی دے دی، اور کہا کہ طارق جمیل کو خبر کردو، کہ تمہارا دوست ہمارے پاس پہنچ گیا اور جنتّ الفردوس میں داخل کردیا گیا ہے۔ اللہّ جنّت الفردوس میں جنید جمشید کے درجات بلند فرمائے۔

ہمارا بوٹ پرست میڈیا عوامی جذبات اور احساسات کی نہ تو ترجمانی کرتا ہے اور نہ ہی عسکری مفادات اور خواہشات سے ہٹ کر عوامی رائے کو کوئی اہمیت دیتا ہے۔ مگر یہ سوشل میڈیا بڑا باغی میڈیا ہے، فوراً عوامی جذبات و احساس کو ایک آئینے کی طرح دکھا دیتا ہے۔ جنید جمشید کی فوجی اعزاز کے ساتھ نمازِ جنازہ پر فوراردِّ عمل کا ایک سیلاب آگیا۔

ہر کوئی یہ سوال کررہا ہے کہ فوج اور ملّاوں کے دہرے معیارات کیوں ہیں؟ اور فوج اور ملّاوں میں ایسا کیا گٹھ جوڑ ہے کہ یہ دونوں اتھارٹیز (مقتدرہ) اپنی مرضی سے اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں سے انحراف کرجاتی ہیں؟۔ بھلا بتائیے یہ سوال پوچھنے والے کم بخت بھی کیسے کیسے سوال کرتے ہیں؟

ایک صاحب نے سوشل میڈیا پر پوچھا کہ جنید جمشید نے ایسی کون سی فوجی خدمات سر انجام دی تھیں جن کی بناء پر اُن کی آخری رسومات پاک فضائیہ نے پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ادا کیں؟ جبکہ اس ہی فضائیہ نے اپنے ہی ہیرو کو سچ بولنے پر زیرو کردیا تھا۔ جنگِ ستمبر کے ہیرو فائٹر پائلٹ ایم ایم عالم کو تو ان کی زندگی میں صرف اختلافِ رائے کے جُرم میں سماجی مقاطعہ اور جبری نظر بندی جیسے ذلّت آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑا تھا اور مرنے کے بعد بھی کوئی قابلِ ذکر فوجی اعزاز نہیں دیا گیا تھا۔

یہ وہی عظیم اسکواڈران لیڈر ایم ایم عالم تھے جنہوں نے ستمبر 1965 کی جنگ میں ایک فضائی جھڑپ کے دوران ایک منٹ سے بھی کم وقفے میں ایک ڈاگ فائِٹ میں انڈیا کے پانچ جنگی ہنٹر طیّارے ایک ساتھ تباہ کرکے ، عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔ سوشل میڈیا پر دوسرے صاحب نے سوال کیا کہ توہینِ مذہب کے الزام میں سزائے موت پانے والی آسیہ بی بی نے معافی مانگی تو مقتدِر مولویوں نے اُس کی معافی قبول نہیں کی، اور نعرہ لگادیا کہ گستاخِ رسول کی سزا، سر تن سے جدااور جب جنید جمشید کی باری آئی تو اُن ہی مولویوں نے توہینِ مذہب کے الزام میں جنید جمشید کی معافی ، غیر مشروط طور پر قبول کرکے، جنید جمشید کی گردن تن سے جدا ہونے سے بچالی۔

سوشل میڈیا پر سوال کرنے والے احمقوں کو شاید یہ بات نہیں معلوم کہ جس کی لاٹھی اسکی بھینس ہوتی ہے۔ اِن احمقوں کو پتا ہی نہیں کہ پاکستان میں مقتدرہ در اصل مُلا ملٹری الائنس کا نام ہے۔ احمقوں نے شاید سُنا ہی نہیں کہ شیر جنگل کا مالک ہوتا ہے، اُس کی مرضی انڈہ دے ، یا بچّہ دے۔

جب ہمارے والد نے آخری عمر میں دوسری شادی کی ، اور زیادہ تر وقت اپنی نئی نویلی دلہن یعنی ہماری نئی ماں کے ساتھ گذارنے لگے تو ہم نے اکثر دیکھا ، کہ ہماری والدہ ، خاموشی سے روتی رہتی تھیں اور زیرِ لب بڑبڑاتی تھیں، جو پیا من بھائے ، وہی سہاگن۔

اللہّ جنید جمشید کی مغفرت فرمائے، اور ساتھ میں ہماری والدہ کی بھی۔ ابّا نے اُنہیں بہت دُکھ دئے۔

One Comment