محبتوں ، نفرتوں اور خساروں سے بھر پور پاک افغان تعلقات

asaf-jilani-268x300

آصف جیلانی

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات نے پھر ایک بار زبردست پلٹا کھایا ہے۔افغانستان کے صدر اشرف غنی ، گذشتہ ہفتہ امرتسر میں ہارٹ آف ایشیاء کی وزارتی کانفرنس کا ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ مشترکہ طور پر افتتاح کرتے ہوئے ، پاکستان پر برس پڑے ۔ کہنے لگے کہ ہمیں سرحد پار پاکستان سے ہونے والی دہشت گردی سے نمٹنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان نے ، افغانستان کی ترقی کے لئے ۵۰ کڑوڑ ڈالر کی امداد کا جو وعدہ کیا ہے اسے چاہئے کہ یہ رقم وہ پاکستان میں دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے خرچ کرے۔

صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ کچھ عناصر اب بھی دہشت گردوں کو پناہ دے رہے ہیں ، طالبان نے حال میں کہا تھا کہ اگر انہیں پاکستان میں محفوظ پنا گاہ نہ ملتی تو وہ ایک مہنیے بھی نہیں چل پاتے۔انہوں نے پاکستان پر الزام لگایا کہ وہ افغانستان کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ کر رہا ہے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایک ایشیائی یا بین الاقوامی تنظیم ،ان دہشت گرد کاروائیوں پر کڑی نگاہ رکھے جو پاکستان کی شہہ پر کی جاتی ہیں۔

ایسے موقع پر جب پاکستان ، لائین آف کنٹرول پر ہندوستان کی طرف سے فوجی کشیدگی کا سامنا کر رہا ہے ، اور اس کی آڑ میں پاکستان کو دہشت گردوں کا گڑھ ثابت کرنے کے جتن کر رہا ہے ، بین الاقوامی کانفرنس میں ، اشرف غنی کا پاکستان پر، افغانستان میں دہشت گردی کا الزام عائد کرناعمداً پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کے ستونوں کو مسمار کرنے کے مترادف ہے۔

بلاشبہ امرتسر میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں زبردست پلٹا کھایا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ۔ جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے اس کے پڑوسی افغانستان کے ساتھ تعلقات ایک عجیب و غریب نشیب و فراز سے دوچار رہے ہیں ، جس کی نظیر عصری تاریخ میں مشکل سے ملتی ہے۔ گو اب یہ بات تاریخ کے اوراق میں دب گئی ہے لیکن یہ حقیقت ، دونوں ملکوں کے تعلقات کی منفی بنیاد بنی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جب ستمبر 1947میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی قرار داد پیش ہوئی ، تو جنرل اسمبلی میں افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

سنہ1948میں دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات تو قائم ہو گئے لیکن ایک سال بعد ہی افغانستان کے سرحدی دیہات پر پاکستانی فضائیہ کی بمباری نے تعلقات کو کشیدگی کی کھائی میں دھکیل دیا۔ اس وقت افغان شوری سے خطاب کرتے ہوئے ظاہر شاہ نے اعلان کیا کہ افغانستان ڈیورنڈ لائین کو تسلیم نہیں کرتا ۔ڈیورنڈ لائین 1893میں برطانوی راج کے کرنل مورٹیمر ڈیورنڈ اور افغانستان کے امیر عبد الرحمان کے درمیان ،برطانوی ہند اور افغانستان کے درمیان سرحد کے طور پر کھینچی گئی تھی۔

پاکستان کو 47 میں آزادی کے بعدڈیورنڈ لائین کا سمجھوتہ ورثہ میں ملا تھا لیکن دونوں ملکوں کے درمیان اس سمجھوتہ کی باقاعدہ توثیق نہیں ہوئی ، اوراسی وجہ سے افغانستان نے ڈیورنڈ لائین کو باقاعدہ ، بین الاقوامی سرحد کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا۔ اور درحقیقت یہی بنیادی مسئلہ ہے جو بار بار دونوں ملکوں کے رشتوں میں زہر گھولتا رہاہے۔

سنہ1955 میں جب وزیر اعظم سردار داود نے پختونستان کا نعرہ بلند کیا اور دونوں طرف سے ایک دوسرے کی فضائی حدود کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ شروع ہوا تو سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے۔ ان کشیدہ حالات میں سرحد بند ہونے سے افغان معیشت پر سخت زک پڑی اور نتیجہ یہ کہ 1963میں سردار داود کو مستعفی ہونا پڑا۔ شاہ ایران کی مصالحت کے بعد دونوں ملکوں میں کشیدگی حتم ہوئی اور تعلقات بحال ہوئے۔ اس دوران سردار داود دوبارہ وزارت اعظمی پر فایز ہوئے، اور مغربی ملکوں کی شہہ پر انہوں نے اپنے برادر نسبتی ظاہر شاہ کا تخت الٹ دیا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے اس زمانے میں سردار داود کو پاکستان مدعو کیا۔ اسلام آباد میں سردار داود کی بات چیت سے سوویت یونین اور افغان کمیونسٹوں کو اس قدر تشویش ہوئی کہ انہوں نے سردار داؤد کی واپسی پر ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور انہیں شاہی محل میں قتل کردیا۔ اس کے بعد جب سوویت یونین نے افغانستان کے راستہ پاکستان کی سرحدوں اور بلوچستان کے ساحل تک پہنچنے کے لئے افغانستان پر پر فوج کشی کی تو افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہوا جس کے دوران، پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف جنگ میں مجاہدین کی بھر پور حمایت اور مدد کی ۔

بلا شبہ اس جنگ میں سعودی عرب اور مغربی طاقتوں نے مجاہدین کی مالی اور فوجی اعانت کی، جس کے نتیجہ میں سوویت فوج کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔وہ دور پاکستان کا افغانستان سے قریب ترین تعلقات کا دور تھا۔ سوویت فوج کی پسپائی کے بعد بدقسمتی سے مجاہدین کی تنظیموں میں باہمی معرکہ آرائی شروع ہو گئی اور پاکستان ان تنظیموں کے درمیان کشمکش میں بری طرح سے الجھ گیا۔

گو اس دوران طالبان نے پاکستان کی مدد سے کابل اور ملک کے ایک حصہ پر اپنی حکومت قائم کر لی لیکن ہندوستان ،جو کمیونسٹ نواز افغان حکومت کو تسلیم کرنے والا دنیا کا واحد ملک تھا افغانستان میں راندہ درگاہ ہوگیا تھا، ہندوستان نے اس دوران طالبان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے شمالی اتحاد سے گٹھ جوڑ شروع کر دیا اور اس کی بھر پور مالی اعانت شروع کر دی ۔

اور پھر جب 2001میں ،امریکی قیادت میں مغربی قوتوں نے افغانستان پر حملہ کیا اور طالبان کو معزول کر دیا تب ہندوستان کو کھلا میدان مل گیا اور اس نے منظم طریقہ سے افغانستان میں اپنا سیاسی اور فوجی اثر پھیلانا شرو ع کر دیا ۔ ہندوستان نے افغانستان میں، پاکستان کی سرحد کے قریب ہوائی اڈوں ، سڑکوں ، بجلی کے کارخانوں اور ہسپتالوں کی تعمیر کے لئے 750 ملین ڈالر کی امداد دی جو اب دو ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ 

یہ پاکستان کو حصار میں لینے کی حکمت عملی ہے جس کے نتیجہ میں عملی طور پر افغانستان سے پاکستان کے اثر و رسوخ کی پسپائی شروع ہوئی۔ اس زمانے میں ملک کے فوجی حکمران پرویز مشرف نے امریکا کی ایک دھمکی پر آنکھ بند کر کے افغانستان کی جنگ میں پاکستان کو دھکیلنے کا مہلک فیصلہ کیا جس کے نتیجہ میں پاکستان کے 39 ہزار شہری اور 22ہزار فوجی جاں بحق ہوئے۔ اس کے مقابلہ میں ہندوستان کا ایک شہری بھی ہلاک نہیں ہوا لیکن ہندوستان نے نہ صرف افغانستان میں سیاسی اور فوجی طورپر تسلط جما لیا ہے بلکہ امریکا سے بھر پور فایدہ اٹھایا ہے جس میں جوہری سمجھوتہ بھی شامل ہے۔

Comments are closed.