جنسی شناخت کا ایک اور پہلو۔1

saeed

سعید اختر ابراہیم

ہم جنس پسندی اور اس کا المیہ
ہماری بندھی ہوئی نفسیات کا المیہ ہے کہ وہ ہمیں معمول سے ہٹ کر سوچنے کی اجازت نہیں دیتی۔ ہم سٹیریو ٹائپس کے کھونٹے سے بندھے ہیں اور انہیں دنیا کا سب سے بڑا سچ اور نارمل مظہر سمجھے بیٹھے ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم صرف اپنی اور اپنے جیسے دوسروں کی فطرت کو ہی نارمل کا درجہ دیتے ہیں۔ اور اگر کسی کی فطرت ہم سے مختلف ہو تو ہم اسے نیچرل اور نارمل ماننے سے نہ صرف انکار کردیتے ہیں بلکہ اٰیسے افراد کو اپنی فطرت کے اظہار کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ جب ہم ان معاملات کو اپنی محدود اور ناقص مذہبی آنکھ سے دیکھتے ہیں تو ہماری سوچ میں سختی اور تشدد کا عنصر بھی در آتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جب ہم دلیل سے محروم ہوکر تجزئیے کی صلاحیت کھوبیٹھتے ہیں۔ 
دنیا کا کوئی بھی معاشرہ ایسا نہیں جہاں ہوموسیکسوئل(مرد) لزبئین (عورتیں) اور تیسری جنس کے حامل خواجہ سرا نہ پائے جاتے ہوں۔ سوائے جنسیت کے اختلاف کے ان گروہوں سے وابستہ افراد بالکل ویسے ہی اچھے یا برے، اعلیٰ و ادنیٰ، تخلیقی یاغیرتخلیقی ہوتے ہیں جیسے کہ ہم ،جو اپنی جنسیت کی وجہ سے خود کو امتیازی طور پر ’نارمل‘ کا درجہ دئیے بیٹھے ہیں اور محض اپنی اکثریت کی دھونس سے انہیں خوفزدہ کئے ہوئے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ یہ جو ہم اپنی جنسی شناخت کے نارمل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اس میں ہمارا کیا کمال ہے؟ یہ تو سراسر ایک فطری معاملہ ہے جس میں ہماری کسی خواہش یا فیصلے کا ذرا بھی عمل دخل نہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم سے مختلف جنسی شناخت رکھنے والے لوگ فطرت کی تخلیق نہیں ہیں؟ آپ کا کیا خیال ہے کہ ان گروہوں سے وابستہ افراد نے قدرت سے بغاوت کرتے ہوئے خود اپنی سیکسوئیلٹی کو ہم سے مختلف شکل میں ڈھال لیا ہے اور اب ہمارا یہ فرض ہے کہ ان کو اس بغاوت کی سزا دی جائے۔

اگر ہماری سوچ یہی ہے تو یقین جانئے ہم سخت غلطی پر ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اس مسئلے کا تعصب کی عینک اتار کر جائزہ لیا جائے؟
پہلی بات تو یہ عام جنسی شناخت سے ہٹی ہوئی شناخت کے حامل افراد جو مرد اور عورت کے معمول کے رشتے سے ہٹ کر اپنی جنسی تشفی پر خود کو مجبور پاتے ہیں، وہ خود سے ایسے نہیں بنتے بلکہ یہ وصف ان کی فطرت میں موجود ہوتا ہے۔ خواجہ سرا بنتے نہیں بلکہ پیداہوتے ہیں۔ ممکن ہے کچھ افراد کے حوالے سے یہ معاملہ مختلف ہو اور وہ سماجی وجوہات کی بنا پر خواجہ سرا بننے کی جانب مائل ہوجاتے ہوں۔

اگر ایسا ہے بھی تو ہم پھر بھی اس بات پر اصرار کریں گے کہ سماجی اثرات بھلے کتنے ہی شدیدکیوں نہ ہوں، فرد کی سرشت میں ایسا بننے کا رجحان لازماً موجود ہوتا ہوگا۔ ہاں البتہ سماجی روئیے اس رجحان کو انگیخت کرکے واضح شکل دینے کا کام ضرور کرتے ہیں۔ فرض کیجئے اگر یہ انگیخت موجود نہ بھی ہو تو ہم ایسے فرد کی مختلف جنسی شناخت سے کیونکر انکار کرسکتے ہیں۔ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اس صورت میں بھی وہ فرد مسلسل ایک خاص طرح کی بے چینی، کرب اور ذہنی تناؤ کا شکار رہتا ہوگا۔میں ایسے کئی افراد کو جانتا ہوں جو ادھیڑ عمری تک گناہ کے تصور کے تحت اپنی جنسیت سے انکار کے عذاب میں مبتلا رہے۔ یہ نام نہاد نارمل جنسیت کے حامل افراد کے سماج کی ظالمانہ بے حسی ہے جو انسان کو انسان سمجھنے سے عاری ہے۔

مختلف جنسی شناخت ایب نارمیلٹی کیوں؟
ایک اور سوال بھی اٹھایا جانا ضروری ہے کہ ہم جو خود کو نارمل سمجھتے ہیں، آخر کن بنیادوں پر اپنے سے مختلف سیکسوئیلٹی کے حامل افراد کو ایب نارمل کہتے ہیں؟ صرف اس بنیاد پر کہ ان کی جنسی جبلت ہم سے ذرا مختلف انداز میں تسکین پاتی ہے۔ اگر آپ کو عورت کشش کرتی ہے تو اس میں آپ کا کیا کمال ہے؟ اور اگر ایک گے کو عورت کشش نہیں کرتی تو اس میں اس کا کیا قصور؟؟ اگر یہ قصور ہے تو پھر اس کی ذمہ داری سیدھی سیدھی قدرت پر عائد ہوتی ہے کہ اس نے ہوموسیکسوئل کی سرشت میں ٹیڑھ رکھ دی۔ یہی الزام کہیں زیادہ تیقن کے ساتھ خواجہ سراؤں کے حوالے سے عائد کیا جاسکتا ہے کہ قدرت جسے آپ اور ہم خدا کہتے ہیں، ان کے جنسی اعضا مکمل کرنے میں ناکام رہا۔ جبکہ وہ خود کو بڑے فخر کے ساتھ احسن الخالقین کہتا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ یہ مسئلہ الزام تراشی سے حل نہیں کیا جاسکتا، ہاں البتہ اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ ہمارے درمیان بہت سے ایسے افراد موجود ہیں جن کی جنسی شناخت روٹین سے ہٹی ہوئی ہے۔ تو کیا اس سے اس بات کا جواز حاصل کیا جا سکتا ہے کہ ان افراد کو اجتماعی جبر کے ساتھ مجرموں کی طرح چھپنے پر مجبور کردیا جائے۔ آخر ہم کس دلیل کے ساتھ ان سے نفرت اور تضحیک کا رویہ رکھ سکتے ہیں۔ کیا ان میں اورآپ میں جنسی شناخت کے علاوہ کوئی اور فرق بھی ہے؟ کیا وہ تخلیقی ذہن کے مالک نہیں؟ کیا وہ روٹین کے کام سرانجام دینے سے معذور ہیں۔ کیا وہ عبادت گزار نہیں ہیں؟۔

اگر ان میں کچھ لوگ اچھے کردار کے حامل نہیں تو نام نہاد نارمل جنسیت کے حامل افراد میں بدکردار افراد کی تعداد ان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ آخر وہ آپ سے جنسیت کے علاوہ اور کس معاملے میں مختلف یا عجیب ہیں۔ اگر ہم مرد اور عورت کی جنسی شناخت کو بلا اکرہ تسلیم کرتے ہیں تو ان کی شناخت کو کیوں تسلیم نہیں کرتے؟ سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ اس فطری اختلافی صورت کو تسلیم کرنے کی وجوہات اپنی اصل میں فطری ہیں یا سماجی؟

کیا آپ کوئی ایسی ڈش خوشی سے اور پیٹ بھر کے کھاسکتے ہیں جسے دیکھتے ہی نہ صرف آپ کی بھوک مرجائے بلکہ اُلٹا متلی ہونے لگے؟ جبکہ پاس ہی آپ کی کوئی پسند کی ڈش بھی موجود ہو۔ اور اگر کوئی آپ کو حکماً ایسا کرنے پر مجبور کرے تو آپ اس کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ کیا آپ اس سے اس کی دھونس کی دلیل طلب نہیں کریں گے؟ کیا آ پ اس سے یہ نہیں کہیں گے کہ وہ آپ کو وہ ڈش کھانے پر کیوں مجبور کررہا ہے جسے ہضم کرنا تو دور کی بات آپ زبان پر بھی نہیں رکھ سکتے۔ اگر آپ حکم دینے والے سے خوف زدہ ہیں اور مزید یہ کہ اس کی پشت پر اکثریت کی دھونس بھی کھڑی ہے تو پھر ایک ہی صورت بچتی ہے، اور وہ یہ کہ آپ بھوک سے تڑپ تڑپ کر جان دے دیں۔

غور کیجئے کیا ہم نام نہاد نارمیلٹی کے دعوے دار اپنے سے مختلف سیکسوئیلٹی رکھنے والے انسانوں کے ساتھ ایسا ہی نہیں کررہے۔ مجھے ایک ہم جنس پسند نے بتایا کہ عورتیں اسے ایک پرسینٹ بھی کشش نہیں کرتیں۔ ان کا جسم اسے بالکل بے جان ربر جیسا لگتا ہے جسے چھو کر اس کی جنسی حس ذرا سا بھی ارتعاش محسوس نہیں کرتی۔ جبکہ ان کے آرگیزم کے وقت ایسی متلی انگیز بدبو آتی ہے کہ کچھ دیر کے لیے باقاعدہ سانس روکنا پڑتا ہے اور پھر فراغت پاتے ہی باتھ روم کی جانب بھاگنا پڑتا ہے۔

یہ ایک شادی شدہ شخص کی کہانی ہے جسے اس کے گھر والوں نے زبردستی شادی کے بندھن میں باندھ دیا تھا۔ بیوی کے ساتھ سیکس کرنا کسی عذاب جیسا تھا جو زبردستی اس پر مسلط کردیا گیا تھا۔ وہ توشکر ہوا کہ سات برس بعد طلاق ہوئی تو ان صاحب کی اپنی فطرت کے خلاف اس رشتے سے جان چھوٹی۔ یہی معاملہ لیزبئین عورتوں کا ہے کہ جنہیں دوسری عورتوں کے برعکس مردوں میں بالکل کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ ان کے دل کا انتخاب ان کی ہم جنس ہی ہوتی ہیں۔

پیٹ کی بھوک ہو یا سیکس کی، یہ ہر حال میں اپنی تسکین چاہتی ہے، ہمیں نہ تو یہ حق حاصل ہے اور نہ ہمارے پاس کوئی ایسی دلیل کہ ہم کسی کی جبلت کی تسکین کے خلاف کوئی حکم صادر کرسکیں۔ ہاں البتہ اس تسکین کے لیے اختیار کئے گئے راستوں پر ضرور بحث ہو سکتی ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ایک سوال اٹھاتے چلیں اور وہ یہ کہ آخر مرد اور عورت آپس میں تعلق کیوں بناتے ہیں؟ کیا صرف اولاد کے لیے؟ یا اس کا محرک کوئی اور جذبہ ہے، جیسے کہ جنسی کشش۔ کیا آدم اور حوا نے پہلا جنسی تعلق اپنی نسل آگے بڑھانے کے لیے بنایا تھا یا اس کا محرک ان میں ظاہر ہوجانے والا جنسی جذبہ تھا؟

میرے خیال میں اگر معاملہ جنسی نہ ہوتا تو کھایا ہوا سیب یا گندم کا دانہ کبھی آدم اور حوا کے اولین سنجوگ کی علامت کا روپ نہ دھارتے۔ جدید سائنس نے تو ویسے ہی سیکس ریلیشن اور اولاد کی پیدائش کے دائروں کو بالکل الگ کردیا ہے۔ سو اب سیکس نسل بڑھانے سے کہیں زیادہ صرف لطف لینے کا معاملہ ہے۔ یہ لطف ایک خاص وقت میں دو افراد کا سراسر ایک نجی معاملہ ہے جس میں کسی تیسرے کو مداخلت یا فتویٰ بازی کا حق نہیں دیا جاسکتا۔ ہاں البتہ کسی فرد کا کسی دوسرے کو زبردستی اپنے لطف کے لیے استعمال کرنا (بھلے وہ اس کی منکوحہ ہی کیوں نہ ہو) ایک سنگین سماجی جرم ہے۔

کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ کتنے ایسے شوہر ہوں گے جو اپنی بیویوں سے ان کی مرضی کے خلاف نہ صرف سیکس کرتے ہوں گے بلکہ اس دوران ایسے طریقے اختیار کرتے ہوں گے جو ان کی بیویوں کے لیے ذہنی اور جسمانی طور پر تکلیف دہ ہوتے ہوں گے، مگر وہ عورتیں سماجی دباؤ کی وجہ سے خاموش رہنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ اگر آپ نے پورن فلمیں دیکھ رکھی ہیں تو پھر مجھے اپنی بات سمجھانے کے لیے تفصیل میں جانے کی زحمت نہیں کرنی پڑے گی۔ تو کیا ہم نے کبھی سوسائٹی کے اس ناجائز اور قابلِ نفرت دباؤ کو ختم یا کم کرنے کے بارے میں سوچا جس نے ممکن ہے خود ہماری اپنی ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہو۔ بلکہ عملی صورت حال یہ ہے کہ اگر کوئی عورت آواز اٹھاتی بھی ہے تو سوسائٹی کی ساری مردانگی اس کے مقابل اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔

یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ نارمل سیکسوئیلٹی کے دعویداروں کے ہاں ان سے مختلف جنسیت کے حامل افراد کے لیے نفرت کی حد تک ناپسندیدگی پائی جاتی ہے، اور یہ معاملہ ہماری سوسائٹی میں کچھ زیادہ ہی شدید ہے۔ مگر ان شریف لوگوں نے جواباً کبھی ایسا رویہ نہیں اپنایا کیونکہ وہ اکثریت کی جابرانہ دھونس سے ڈرے ہوئے لوگ ہیں۔ سماج کی اجتماعی پرچلت سوچ اور اخلاقی معیار اکثر اپنے ہی اراکین کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں کیونکہ وہ ان کی حقیقی ضروریات کی مخالف سمت میں کھڑے ہوتے ہیں۔ اکثریت سے ہٹ کر مختلف سیکسوئیلٹی کے حامل افراد کے لیے تو یہ صورتحال بہت خطرناک ثابت ہوتی ہے۔

عوام ہی نہیں خواص کی سطح پر بھی فرد کی جنسی شناخت کا معاملہ سخت غلط فہمی کا شکار ہے۔ ہم نے روٹین سے ہٹی ہوئی جنسی شناخت کو خوامخواہ گناہ سے جوڑ دیا ہے جبکہ اس کے لیے ہمارے پاس کوئی علمی اور عقلی دلیل بھی موجود نہیں ہے۔ مذہبی افراد بنا کسی سنجیدہ تحقیق کہ اس موقف پر کھڑے ہیں کہ ہم جنسیت سماجی کج روی کا معاملہ ہے اور اس کی ابتدا حضرت لوط کی قوم سے ہوئی تھی جبکہ سائنسی ریسرچ یہ بتاتی ہے نہ صرف انسانوں میں یہ خلقی معاملہ ہے بلکہ جانوروں کی 1500 کے قریب انواع ایسی ہیں جن میں ہم جنسیت کا واضح میلان پایا جاتا ہے جن میں پینگوئن، چمپینزی اور ڈالفن شامل ہیں۔

گویا یہ معاملہ کسی سماجی کج روی کا نہیں بلکہ جانوروں اور انسانوں کی فطرت کا ناگزیر حصہ ہے۔ سگمنڈ فرائڈ جسے جدید نفسیات کا باوا آدم مانا جاتا ہے، اس کے مطابق ہر فرد دونوں طرح کے جنسی رجحان لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اور اگر اسے آزادانہ انتخاب کا موقع فراہم کیا جائے تو پھر وہ خود سے طے کرسکتا ہے کہ اسے کس صنف کے ساتھ تعلق بنانا زیادہ تسکین دہ لگتا ہے۔ لیکن سماجی دباؤ اکثر ہم جنس پسندوں کو اپنی سیکسوئیلٹی کے اظہار کی اجازت نہیں دیتا۔ مذہبی ذہن کے مقابل فرائڈ کی بات اس لیے زیادہ وزنی ہے کہ وہ اس کے برعکس ریسرچ کی بنیاد پر بات کرتا ہے جسے محض مذہبی اساطیر کے ذریعے غلط ثابت کرنا ممکن نہیں۔

سنہ1973 ء سے پہلے تک ہم جنسیت کو ایک بیماری تصور کیا جاتا تھا اور خیال تھا کہ علاج کے ذریعے فرد کو ’نارمل‘ جنسی روئیے کی جانب لایا جاسکتا ہے مگر جب علاج سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی تو اس رجحان کو بیماریوں کی فہرست سے نکال کر فطری تسلیم کرلیا گیا۔ بہت سے سائنسدان اس رائے کے حامل ہیں کہ ہم جنسی رویہ خلقی اور پیدائشی ہے ناکہ سماجی۔

بہت سے افراد ایسے ہیں جو اگرچہ مخلوط جنسی ہیں مگر ان میں عورت بن کر جینے کی خواہش حاوی ہوتی ہے۔ وہ اپنی غیر واضح مخلوط جنسی شناخت کے ساتھ بے چینی کا شکار رہتے ہیں۔ انہیں یوں لگتا ہے جیسے ان کے مردانہ بدن میں کوئی عورت قید ہو جس کی آزادی کے بعد ہی وہ نارمل زندگی جی پائیں گے۔ یہ یقیناًایک اذیت ناک زندگی ہے جو انہیں قدرت کی غلطی کے نتیجے میں ملتی ہے۔ اگرچہ جدید سائنس نے ان کے لیے تبدیلیِ جنس کے آپریشن کے ذریعے واضح جنسی شناخت کا انتخاب ممکن بنادیا ہے مگر اس عمل کو سماجی قبولیت پانے میں شدید دشواری کا سامنا ہے۔

ایک چوبیس سالہ ایرانی نوجوان علی عسکر جو آپریشن کے بعد نگار کے نام سے لڑکی بن کر اپنی فطری شناخت حاصل کرچکا ہے، اپنے باپ کے روئیے سے شدید پریشان ہے۔ نگار کے باپ نے اسے دھمکی دی کہ اگر اس نے آپریشن کروایا تو وہ اسے قتل کردے گا۔ نگار کے بقول وہ اسے چائے میں چوہے مار گولیاں ملا کر مارنے کی کوشش کرچکا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر آپریشن ناگزیر نہ ہوتا تو وہ خدا کے کام میں دخل کیوں دیتی۔ مگر وہ کیا کرے کہ علی عسکر کے نام سے اس کی کوئی شناخت نہیں تھی۔ وہ مردوں میں کام نہیں کرسکتی تھی کیونکہ وہ اسے ہراساں کرتے تھے۔ اور عورتوں کے ساتھ کام کرنے میں یہ رکاوٹ تھی کہ وہ قانونی طور پر عورت نہیں تھی۔

پوری اسلامی دنیا میں ایران واحد ملک ہے جہاں آیت اللہ خمینی کے فتوے کے ذریعے ایسے آپریشن کی قانونی اجازت دی گئی ہے۔ دنیا میں تھائی لینڈ کے بعد ایران ایسا ملک ہے جہاں تبدیلیِ جنس کے سب سے زیادہ آپریشن ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مخلوط النسل افراد کے جنسی تبدیلی کے آپریشن کے نصف اخراجات ایرانی حکومت ادا کرتی ہے۔ مگر اس معاملے کا ایک دردناک پہلو بھی ہے کہ ایران میں ہم جنس پسند ہونے کی سزا موت ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر فرد اپنی جنس بدلنے کا خواہاں ہو لیکن المیہ یہ ہے کہ اپنی سیکسوئیلٹی کے اظہار کی قیمت انہیں سزائے موت کی صورت میں ادا کرنا ہوگی۔ ایسے بہت سے افراد ہیں جنہیں اس سماجی اور حکومتی جبر سے نجات کے لیے وطن سے فرار ہونا پڑا۔

پاکستان میں ایسے افراد کے لیے تبدیلی جنس کا کوئی قانون موجود ہی نہیں جو اپنے ظاہری مردانہ جسم میں عورت بننے کی خواہش لیے پھرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے پاس اپنی اس عین فطری خواہش کو پورا کرنے کا صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ وہ اپنا مردانہ عضو قطع کروا کے خواجہ سراؤں کی کسی ٹولی میں شامل ہو جائیں۔ ایسے فرد کو نربان کہا جاتا ہے اور خواجہ سرا اسے بہت عزت دیتے ہیں۔ نربان بننے کا عمل بڑے دل گردے کا تقاضہ کرتا ہے۔ یہ ایک خطرناک جراحی ہے جو کسی سرجن کی مدد کے بغیر سرانجام دی جاتی ہے۔ اس میں متعلقہ فرد کی جان بھی جا سکتی ہے۔ چنانچہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ خواہش کتنی منہ زور ہوگی جس کے لئے کوئی فرد ایک ایسے عضو کی قربانی پر بخوشی راضی ہوجاتا ہے جس کے لیے کوئی مرد کروڑوں کے عوض بھی حامی نہ بھرے۔

یہ کوئی ایسی بات نہیں جس پر نفرت بھری ہونہہ کہہ کر منہ پھیر لیا جائے۔ یہ کسی کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اس کے اندر قید عورت کے راستے میں اس کا مردانہ بدن کسی ولن کی طرح کھڑا ہے جس کی اسے کوئی خواہش نہیں ہے کہ وہ اس کی حقیقی جنسی شناخت کا دشمن ہے۔ یہ جسم جیل کی کال کوٹھڑی جیسا ہے جس میں بند ایک عورت کا دم گھٹ رہا ہے۔ سماج اس عورت کو باہر آنے کی اجازت دینے پر راضی نہیں کیونکہ وہ خود گناہ اور ثواب کے تصور کا قیدی ہے۔ اگرچہ اس کے پاس اپنے ان تصورات کی کوئی مدلل توضیح بھی نہیں ہے۔ سماج کے پاس ایسے مظلوم انسان پر سوائے استہزاء کرنے اور اس کے فطری لطف پر پابندی کا حکم جاری کرنے کے نہ تو کوئی علاج ہے اور نہ ہی کوئی جواب۔ سماج ایسے فرد کی اذیت محسوس کرنے سے یکسر عاری ہے۔ ایک ایسا فرد جو اپنی حقیقی جنسی شناخت کی یافت چاہتا ہے، سوسائٹی بے دلیل دھونس کے ساتھ اس پر اپنا جبر نافذ کردیتی ہے۔

میں ایسی کئی لڑکیوں کے بارے میں اخبارات پڑھ چکا ہوں اور چند ایک کو ذاتی طور پر بھی جانتا ہوں جو اپنی محبوبہ کی مستقل رفاقت کی خاطر جنس کی تبدیلی کا آپریشن کروانے کو تیار ہیں۔ ظاہر ہے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ ایک لڑکی کے اپنی حقیقی شناخت کو پانے کی تڑپ کا معاملہ ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اس تبدیلی کے بغیراس کی روح قرار نہیں پاسکے گی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کیا سماج کے نارمیلیٹی کے دعوے دار وں کوکسی دوسرے کی جنسیت کو طے کرنے کا حق دیا جاسکتا ہے؟ آخر سماج کے پاس اس تحکم کے لیے کیا دلیل ہے؟؟ ممکن ہیں وہ یہ کہیں کہ یہ جنسی بے راہروی کا معاملہ ہے۔ مگر یہ ایک بہت بودی بات ہے۔ جنسی بے راہروی کی اگر تعریف متعین کی جائے تو وہ سوائے اس کے کچھ نہیں ہوسکتی کہ کسی بھی فرد کی کسی دوسرے کی جنسی زندگی میں مداخلت ہی اصل میں جنسی بے راہروی ہے نہ کہ دو آزاد افراد کا باہمی مرضی سے تعلق۔

جہاں تک حقیقی معنوں میں جنسی بے راہروی کا تعلق ہے، اس سے تو ہمارا سماج لتھڑا پڑا ہے۔ کوئی دن نہیں جاتا جب معصوم بچوں ، لڑکیوں اور شادی شدہ عورتوں کے ساتھ زیادتی کی خبریں میڈیا میں نہ آتی ہوں۔ ابھی حال ہی میں قصور کے ایک سرحدی گاؤں میں سامنے آنے والا سیکنڈل اس کی بدترین مثال ہے۔ اس سے پہلے جاوید نامی ایک جنونی کا معاملہ بھی سامنے آیا تھا جس نے سو کے قریب بچوں کے ساتھ زیادتی کے بعد انہیں قتل کرکے ان کے اجسام کو تیزاب میں گلا ڈالنے کے بھیانک جرم کا اعتراف کیا تھا۔ 
یہ تو خیر سیدھے سیدے غیر قانونی اور غیر اخلاقی معاملات کی بات ہے مگر ہمارے ہاں تو اخلاق مذہب اور قانون کے نام پر بھی جنسی جرائم عام ہیں لیکن انہیں جرم نہیں سمجھا جاتا بلکہ الٹا شادیانے بجائے جاتے ہیں۔

میرا اشارہ ان شادیوں کی طرف ہے جن میں دولہا دولہن کی بالکل مرضی شامل نہیں ہوتی۔ کئی معاملات میں تو دونوں ہی کہیں اور شادی کے خواہشمند ہوتے ہیں مگر انہیں شادی کے مقدس بندھن کے نام پر جبراً ایک دوسرے کے ساتھ رہنے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ کئی شادیاں تو اتنی انمل بے جوڑ ہوتی ہیں کہ کم عمر بچیوں کو باپ سے بڑی عمر کے شخص سے بیاہ دیا جاتا ہے۔ عمومی طور یہ وہ عمر ہوتی ہے جب بچیوں کو معلوم تک نہیں ہوتا کہ شادی کس چڑیا کا نام ہے۔ وہ بے چاریاں تو بس نئے کپڑوں کے چاؤ میں ماری جاتی ہیں۔ اگر ہم ریپ کی تعریف کے تعین کی بات کریں تو یہ ایسا عمل ہے جس میں کوئی فرد اپنی مخالف جنس کے فرد کے ساتھ زبردستی جنسی تعلق بنائے۔ اس تعریف کے مطابق دیکھیں تو ہمارے ہاں ہونے والی اکثر شادیاں ریب کے زمرے میں ہی آتی ہیں۔

خواجہ سرا
ہمارے سماج کی ایک بدنصیب کمیونٹی جن کے لیے ہم نام نہاد نارمل اور مہذب لوگوں کے پاس ایک استہزا اور بھیک کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہم انہیں ایک ایسی خامی کی سزا دینے پر تُلے ہیں جن میں ان بے چاروں کا ایک فیصد بھی قصور نہیں۔ اور سزا بھی یہ کہ ہم انہیں انسان کے طور پر قبول کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ ہم نے ان کی جنسیت کو زبردستی ان کے کردار کے ساتھ نتھی کردیا ہے اور کردار بھی ایسا کہ جس پر اٹھتے بیٹھے اخ تھوہ کرکے ہم اپنے کردار کا بھرم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ اس کمیونٹی کے حوالے سے بدچلنی اور بے راہ روی کے ہزاروں الزام دہرائیں مگر سچ تو ہے کہ ان کے ساتھ ہمارا رویہ ظالمانہ حد تک غیر انسانی ہے بلکہ یہ رویہ ہمیں اخلاقی حوالے سے بے حد کمزور، گھٹیا اور معذور ثابت کرتا ہے۔

ہمیں کیونکر یہ حق حاصل ہے کہ ہم انہیں محض جنسیت کی بنیاد پر ایک کریہہ بلکہ مضحکہ خیز زندگی جینے پہ مجبور کریں۔ اگر ہم خواجہ سراؤں پر بے راہ روی کا الزام دھرتے ہیں تو یہ کیوں نہیں سوچتے کہ انہیں اس راہ پر دھکیلنے میں ہمارا کتنا ہاتھ ہے۔ وہ کون ہیں جو خوبصورت مخنثوں پر عاشق ہوتے ہیں، ان کے ساتھ تعلق بنانے کے لیے مرے جاتے ہیں۔ وہ کون ہیں جو گاڑیوں میں ان مقامات کا طواف کرتے ہیں جہاں یہ مخنث رات ڈھلے اپنی ’روزی‘ کمانے کی آس میں کھڑے ہوتے ہیں۔ اور وہ کون معززین ہوتے ہیں جو انہیں گاڑیوں میں بٹھا کر یا قریبی جھاڑیوں میں لے جاکر چند روپوؤں عوض گھٹیا لذت کا گھناؤنا کھیل کھیلتے ہیں۔ اور پھر دن کی روشنی میں اپنے جیسے دوسرے ’معززین‘ کے ساتھ مل کر ان کے کردار پر طعنے کستے ہیں۔

سچ پوچھئے تو یہ خواجہ سرا اپنی ذات میں ہماری بدکردار سوسائٹی کے حقیقی عکس کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ یہ ہم ہیں جنہوں نے انہیں یہ کردار ادا کرنے پر مجبور کررکھاہے۔ یہ کوئی جرم نہیں کہ انہیں عورتوں کی طرح بننا سنورنا اور رقص کرنا اچھا لگتا ہے۔ مگر یہ بناؤ سنگھار اور رقص کو ہم کس بنیاد پر غیر اخلاقی حرکت گردان سکتے ہیں۔ یہ تو سراسر کسی فرد کا وہ ذاتی فعل ہے جو کسی دوسرے کا کوئی نقصان نہیں کرتا۔ اگر ان کا لباس دیکھ کر کسی کے اندر کا وحشی جانور بھڑک اٹھتا ہے تو وہ اپنا علاج کروائے نہ کہ خواجہ سراؤں کے اندازِ زیست کو بدلنے کا مطالبہ کرے۔

اگر آپ کو ان کا کرداربدلنے کی اتنی ہی خواہش ہے تو انہیں ایک انسان کے طور پر قبول کیجئے۔ ان کے لیے تعلیم، تربیت اور روزگار کے وہ تمام دروازے کھول دیجئے جو آپ نے اپنے اور اپنی اولاد کے لیے روا سمجھ رکھے ہیں۔

Comments are closed.