بلتستان کی محرومیاں

ali-ahmad-jan-1علی احمد جان

سکردو میں سردی کا مزہ جس نے چکھا اس کو جوش ملیح آبادی کا جاڑوں کی شان میں لکھا قصیدہ ایسے ہی غلط لگتا ہے جیسے راجھستان اور تھر میں گاۓ جانے والے برکھا رت کے گیت ساون کے موسم میں اسلام آباد کے رہنے والوں کو لگتے ہیں۔ گرمیاں سدپارہ سے آتی ٹھنڈی اور وادی کی گرم ہواؤں سے بننے والی آندھی اور اس سے اٹھنے والے گرد و غبار میں اٹے رہنے کے بعد سکردو میں اب سنہری زردی چھائی ہوئی ہے جو سردیوں کی آمد کا ڈنکا بجا رہی ہے۔

دریاۓ سندھ کا مٹیالا پانی اب شفاف ہو گیا ہے پھرکچھ دنوں میں جم جائیگا۔ سردیوں کی آمد آمد ہے جس کا نام سنتے ہیں یہاں کے مکینوں کو کپکپی طاری ہو جایا کرتی ہے،بند ناک رواں ہو جاتی ہے اور جسم اکڑ نے لگتاہے۔

جو کھڑکیا ںاور دروازے گرمیوں میں دوپہر کے بعد گرد وغبار کی وجہ سے بند ہوجایا کرتے تھےاب سردیوں میں نہ صرف مستقل بند ہونگے بلکہ ان پر تہہ دار پلاسٹک کی چادر چڑھ جائیگی۔ پانی جم جائیگا تو بجلی غائب ہوجائیگی اور اس شہر پر اندھیروں کا راج ہوگا۔ بجلی چند نصیب والوں کو نصیب ہوگی جو پیدا ہی سرکاری کورٹروں میں ہوتے ہیں اور ان ہی کورٹروں میں اس کے آئندہ کے مکینوں کو بھی جنم دیتے ہیں۔

باقی عوام صرف بجلی دو کے مطالبے پر ہی گزارہ کرنے والی ہے۔ وہ تو شکر ہے کہ یورپ میں بھی سردی ہوتی ہے جس کی اترن جو عرف عام میں لنڈا کہلاتی ہے یہاں جان بچانے والی دوا کے طور پر بکتی ہے۔ گرم جیکٹ، بوٹ ، بنیان ،سویٹر جگہ جگہ بکتی ہیں۔ دنیا کی سب سے اونچی چوٹی پر چڑھنے والے پاکستانی ہیرو حسن سدپارہ کا بھی یہاں اسی اترن کا کاروبار ہے۔

سخت سردیوں میں یہاں لکڑی سونے کے بھاؤ بکتی ہے۔ سب سے نایاب لکڑی شگر سے آنے والی خوبانی کے درختوں کی ہوتی ہے جو ساری ساری رات انگیٹھی میں جلتی رہتی ہے ۔ شگر کے باغات کے پھلوں کا چرچہ آج بھی سری نگر میں ہے جب یہاں سے براہ راست پھلوں کی تجارت ہوا کرتی تھی۔ یہ لکڑی بھی صرف سرکاری کوارٹروں میں جلتی ہے جہاں کے مکینوں کو روزانہ بیس سیر گیلی اور دس سیر سوکھی ہینزم سوختنی از خزانہ سرکار ملتی ہے۔

شکر ہے لکڑی کی مقدار مقرر ہوئی اگر رقم مقرر ہوتی تو جناب صاحب (تحصیلدار کا اعزازی نام ) کے گھوڑے کو ملنے والے ماہانہ وظیفے اور جیل کے قیدیوں کے روزانہ کے راشن کی طرح ہوا میں تحلیل ہو جاتی۔ جن کے باغات سے خوبانی کے درختوں کی لکڑی آتی ہے ان کے چولہوں میں پلاسٹک کےپھٹے پرانے جوتے اور استعمال شدہ موبلائل جلتا ہے جو انسانی صحت اور فضائی آلودگی کے لئے مثل زہر ہے۔

سکردو کی سائبیریائی سردی میں ہر شے جم جاتی ہے ۔ آب رسانی کی نالیاں جم جاتی ہیں تو پانی بمشکل اتنا دستیاب ہوتا ہے کہ شرعی وضو ہو سکے وگرنہ تیمم کا عذر روا ہو جاتا ہے۔ جمی ہوئی گاڑی سٹارٹ کرنے کے لئے صبح جو تگ و دو کرنی پڑتی ہے وہ کبھی کبھار رایئگاں جاتی ہے اور بندہ پیدل ہو جاتا ہے۔ ایک دفعہ بند ہوجانے کے بعد گاڑی نوروز(اکیس مارچ) کے بعد ہی دوبارہ سٹارٹ ہوگی اس لئے صبح شام اورہر رات سونے سے پہلے بھی ایک دفعہ گاڑی کا انجن سٹارٹ کرنا لازمی ہے۔

جو صاحب حیثیت ہیں وہ تو سردیوں میں بقول یہاں کے لوگوں کے نیچے چلے جاتے ہیں (نیچے یہاں کے لوگ پنڈی اسلام آباد اور کراچی وغیرہ کو کہتےہیں) ۔ عام لوگوں نے بھی اپنا ایک اجتماعی بندوبست کیا ہوا ہے جس کے تحت بلتستان کے تقریباً ہر گاؤں کا راولپنڈی کے مختلف محلوں میں ایک ایک مشترکہ ملکیتی گھر بطور مسافر خانہ موجود ہے جہاں بیشتر گاؤں والے سردیاں گزارتے ہیں۔

ان مشترکہ گھروں میں طلبہ، بزرگ، بیماروں اور سیر سپاٹے پر آنے والے سب کے لئے انتہائی معمولی نرخوں پر رہائش فراہم کی جاتی ہے۔ ان لوگوں نے آپس میں چندہ کرکے یہ گھر خرید رکھے ہیں جن کا انتظام اجتماعی طور پر کیا جاتا ہےایسا باہم اتفاق بھی پاکستان کے کسی اور حصے میں ناپید ہے یا کم از کم میرے علم میں نہیں۔

سکردو اور بلتستان سی پیک نام کے فیض عام سے تا حال دور ہیں ما سواۓ ایک تاریخی برفانی راستے کے کھولنے کے ازسر نو جائزے کی سفارش کے جو سینٹ کی ایک کمیٹی نے دی ہے۔ معلوم نہیں کہ حزب اختلاف کی اکثریت والے سینٹ کی سفارشات کی تختِ لاہور کی نگاہ میں حیثیت کیا ہوگی۔ پر ایک بات معلوم ضرور ہے کہ بلتستان یارقند مابین تجارتی اور ثقافتی رشتہ پاکستان اور چین کے ہمالیہ سے اونچی، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی دوستی سے بہت پرانا ہے۔

سکردو کو پاکستان سے ملانے والی سڑک موت کا کنواں کہلاتی ہے۔ بعض کا تو کہنا یہ ہے کہ دنیا کے سب سے اونچے محاذ جنگ میں جاری جنگ اور اس پورے علاقے میں دشمن کی گولی سے اتنے فوجی نہیں مرے جتنے اس سڑک پر حادثات میں داعی اجل ہوئے۔ اس سڑک کی کشادگی کا معاملہ مہدی شاہ کی پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کے دور سے التوا در التوا کا شکار چلا آرہا ہے۔ اب شنید ہے کہ اصلی تے وڈے مالکان کی کمپنی ایف ڈبلیو او جس کو گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بغیر ٹینڈر کے کام دیکر پالا جاتا ہے کو اس روڈ کا ٹھیکہ بھی دیا گیا ہے۔ہماری کیا مجال کہ اس بارے میں کچھ کہہ سکیں بس دعا اور التجا ہی ہے کہ وہ گلگت شندور روڈ، چلاس بابوسر ناران روڈ کی طرح اس کو بیچوں بیچ یتیم اور لاوارث نہ چھوڑ دے۔

میں پچھلی بار یہاں ایک پن بجلی کے منصوبے کےمقامی آبادی پر سماجی اثرات کے جائزے اور منفی اثرات کے تدارک کی حکمت عملی کی تیاری کے سلسلے میں آیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت خوبصورت وادی کچورا کے پانی سے شغر تھنگ کے مقام پر چھبیس میگا واٹ کی بجلی کو پیدا کرنا تھا۔ اس منصوبے کے لئے ایشیائی ترقیاتی بنک نے قرضہ فراہم کرنا تھا۔

لیکن بعد میں سننے میں آیا کہ یہ منصوبہ وزارت کشمیر اور گلگت بلتستان کی سرد مہری کا شکار ہوکر پیدا ہونے سے پہلے ہی انتقال کر گیا۔ اس منصوبے کے دیگر فوائد کے علاوہ یہاں بجلی کی تقسیم اور موصولات کی وصولی کا ایک نظام وضع کرکے بجلی کے ضیاع کو کم کرنا مقصود تھا۔ مگر حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گئے۔

اچھے وقتوں میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اعتماد کی بحالی کے لئے عوامی سطح پر رابطوں پر زور دیا گیا تھا تاکہ بچھڑے خاندان دوبارہ مل سکیں اور ان ممالک کے آپس کے تنازعات کی وجہ سے کٹے رشتے بحال ہوں۔ ان مجوزہ بحال ہونے والے راستوں میں سے ایک سکردو کارگل کے درمیان رابطے کا بھی ہے جس کا وعدہ ایفا نہ ہوسکا۔ کنٹرول لائن کے اس پار سے ہجرت کرکے سکردو شہر آبسنے والے آج بھی اپنے گھروں کو واپسی کے لئے کسی معجزے کے منتظر ہیں۔

ہم جن علاقوں میں اپنی گرمیاں بہلانے جاتے ہیں اگروہاں کے مکینوں کی سردیوں پر غور کریں تو ہمیں احساس ہو گا کہ ہمیں مسکرا مسکرا کر ملنے والے یہاں کیسی مشکل میں زندگی گزارتے ہیں۔ قمری، اولڈنگ اور دیگر علاقے برف باری کے بعد دنیا سے کٹ جاتے ہیں جن کا دوبارہ مئی کے مہینے کے بعدہی رابطہ بحال ہو جاتا ہے۔ بیماری کی صورت میں بغیر علاج موت واقع ہو جاتی ہے اور موت کی صورت میں ایک ایک قبر کھودنے کے لئے کئی کئی ٹن لکڑی جلا کر برف پگھلائی جاتی ہے۔ مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہاں موت بھی زندگی سے مشکل ہے۔

Comments are closed.