ایرانی پولیس کا مخلوط پارٹیوں پر دھاوا

نظریاتی ریاستوں کی بنیاد جبر پر ہوتی ہے۔ ایک طرف سعودی عرب میں ایک خاتون کو سر ننگا رکھنے پر کوڑوں کی سزادی جاتی ہے تو دوسری طرف ایران کی حکومت بھی حجاب کی پابندی کرانے میں اسی طرح جبر سے کام لیتی ہے۔سعودی عرب میں مجرم کا سر قلم کیا جاتا ہے تو ایران میں کرین سے لٹکا کر پھانسی دی جاتی ہے۔

ایرانی دارالحکومت میں پولیس نے ایک بڑی مخلوط تفریحی پارٹی پر دھاوا بول کر ایک سو سے زائد عورتوں اور مردوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ دوسری جانب ایران میں ٹیٹو بنوانے کے خلاف حکومتی مہم بھی شدت پیدا کر دی گئی ہے۔

ایرانی پولیس کے مطابق دارالحکومت تہران میں منعقدہ ایک مخلوط  پارٹی پر پولیس نے اچانک چھاپا مار کر کم از کم 120 افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ ان میں جدید مغربی لباس میں ملبوس خواتین بھی شامل ہیں۔ اس کارروائی میں پولیس نے شراب کی پندرہ بوتلیں بھی اپنے قبضے میں لے لی ہیں۔

 گرفتار ہونے والے افراد کی تعداد کے اندازے سے یہ ایک بڑی ’پارٹی‘ قرار دی گئی ہے۔ تہران کے دفتر استغاثہ کے سربراہ عباس جعفری دولت آبادی نے یہ بھی بتایا کہ اِس پارٹی میں دو ایسی گلوکاراؤں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے، جن کے پاس نغمہ گری کا سرکاری اجازت نامہ موجود نہیں تھا۔ گرفتار ہونے والوں میں پندرہ افراد نے شراب پی رکھی تھی۔

یہ امر اہم ہے کہ ایران میں صرف غیر مسلم شراب پینے کے مجاز ہیں۔

دولت آبادی کے مطابق اِس ’پارٹی‘ سے گرفتار ہونے والی خواتین ایران کے تجویز کردہ ڈریس قوانین کے منافی لباس زیب تن کیے ہوئے

تھیں۔ انہیں ممنوعہ پارٹی میں شریک ہونے کے جرم کے ساتھ ساتھ اِس خلاف ورزی کی سزا کا بھی سامنا ہو گا۔ ایران میں ایسی پارٹیوں کے شرکا کے لیے کوڑے کی سزا ہے۔

رواں برس کے دوران ایرانی حکام نے مخلوط پارٹیوں پر خاص طور پر نگاہ رکھی ہوئی ہے اور خفیہ اطلاع ملنے پر کارروائی کی جاتی ہے۔ تقریباً پانچ ماہ قبل جون میں تہران کے ایک ریسٹورانٹ پر منعقد کی جانے والی ’پارٹی‘ کے 132 شرکاء کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان میں خوبرو خواتین بھی شامل تھیں۔ ایران میں ایسی پارٹیوں کا اہتمام خفیہ انداز میں کیا جاتا ہے۔

دوسری جانب ایران میں حکومتی کریک ڈاؤن کے علاوہ ٹیٹو بنوانے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں تہران میں خاص طور پر انتہائی خفیہ انداز میں ٹیٹو بنانے کے اسٹوڈیوز بھی قائم ہیں۔ ان میں خاص طور پر مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات بڑے شوق و ذوق سے ٹیٹو بنواتے ہیں۔ ایران کا محکمہٴ صحت اِس عمل کے خلاف اپنی مہم جاری رکھے ہوئے اور عام ٹیٹو بنوانے کو خلاف مذہب اور اخلاقی روایات کے منافی قرار دیا جاتا ہے۔

DW

Comments are closed.