پاکستانی ریاست اور عوامی بیانیے

ایمل خٹک 

ریاستی بیانیے عموماً ریاست کے اندر بالا دست طبقات یا مفادی حلقوں کی مفادات کی ترجمانی کرتی ہے۔ پاکستان جیسے سیکورٹی اسٹیٹ میں عوامی اور ریاستی بیانیوں میں وزن کا پلڑا آخر الذکر کے حق میں رہتا ہے۔ مگر فلاحی ریاستوں میں ریاستی بیانیےعوامی آرزوں اور جذبات کی ترجمانی بھی کرتے ہے ۔ اور فلاحی ریاست عوامی اور ریاستی بیانیوں میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔

پسماندہ معاشروں میں بیانیوں پر طاقتور حکمران طبقات کا کنٹرول ہوتا ہے اور عوام کی رائے، مسائل ، مشکلات اور مطالبات کو دبایا جاتا ہے۔ فاٹا کا بہت عرصے تک اور بلوچستان کا ابھی تک میڈیا بلیک آوٹ ہے اور عوامی مسائل اور شکایات کو مین سٹریم میڈیا میں کوریج سے روکا جاتا ہے۔ اور شورش زدہ علاقوں میں اہم واقعات کی خبریں اور رپورٹنگ کنٹرول کی جاتی ہے اور صرف ریاستی اداروں کے نکتہ نظر کو سامنے لایا جاتا ہے۔ میڈیا کو صرف سرکاری ھینڈآوٹس اور پریس ریلیز شائع کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔

جبکہ مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں میں نہ صرف یہ کہ عوامی بیانیے بھر پور طریقے سے سامنے لائے جاتے ہیں اور ریاستی بیانیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں بلکہ اس کو چیلنج بھی کرتے ہیں۔ 

 پاکستان میں ریاستی بیانیوں کو تقدس کا لبادہ پہنانے کی کوششیں بھی عام ہیں۔ جس کی وجہ سے بعض اوقات  وہ بیانیے آسمانی احکامات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور اس کی مخالفت یا اختلاف نظر کو بری طرح کچلا جاتا ہے اور برا سمجھا جاتا ہے۔

اختلاف نظر کے بارے میں مثبت رویہ مہذب اور ترقی یافتہ معاشرے کو پسماندہ اور زوال پذیر معاشرے سے ممتاز کرتی ہے ۔ کیونکہ کسی بھی معاشرے کی ترقی اور ارتقاء کیلئے اختلاف نظر بہت ضروری ہوتا ہے ۔ اسلئے مہذب معاشروں میں اختلاف نظر کا احترام اور لحاظ کیا جاتا ہے۔ مگر پسماندہ اور زوال پذیر معاشروں میں اختلاف نظر کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور دوسروں کی رائے کا احترام تو دور کی بات اسے برا سمجھا جاتا ہے۔ اختلاف نظر رکھنے والے فرد کو دشمن سمجھا جاتا ہے۔ 

عوامی بیانیے ضروری نہیں کہ ریاستی بیانیوں کی توثیق کرتے ہوں بلکہ مفاد عامہ میں اس کی افادیت اور جواز کو چیلنج بھی کرسکتے ہیں اس کو مسترد بھی کرسکتے ہیں۔ 

پاکستان جیسے معاشروں میں بعض طاقتور ریاستی اداروں کی دوسرے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں مداخلت  اور پالیسیوں پر کنٹرول کرنے کی خواہش اور کوشش کی وجہ سے ریاست صرف ان بیانیوں کو فروغ دیتی ہے جو ان کی شخصی یا ادارہ جاتی  مفاد کا تحفظ کرتی ہو اس کو تقویت بخشتی ہو۔ ریاستی مفادات اور اور عوامی بیانیے بعض اوقات ایک دوسرے کی متضاد بلکہ متصادم ہوتی ہے۔

سول اورملٹری تعلقات میں عدم توازن کی وجہ سے بعض اوقات ریاستی بیانیے بھی باہم متصادم یا متضاد ہوتے ہیں ۔ مثلا سابق آرمی چیف کی دوران ملازمت فوج اور سول شخصیات میں بڑے بڑے قومی منصوبوں یا اقدامات کا کریڈٹ لینے کے چکر میں ریاست کی جانب سے کئی بار مختلف اور بعض اوقات متضاد قسم کے بیانیے سامنے آتے رہے۔

باشعور اور صاحب الرائے شہری اور سول سوسائٹی کے ادارے اپنے خواہشات ، رائے یا مطالبات کا اظہار عوامی بیانیوں کی شکل میں کرتے ہیں ۔ ان معاشروں میں جہاں بعض ریاستی ادارے اپنے آپ کو آئین سے ماوراء سمجھتے ہیں یا اپنے آئینی مینڈیٹ سے بالا تر کوئی کردار ادا کرتے ہیں وہاں عوامی بیانیوں کو دبایا جانا ایک قدرتی امر ہے۔

 اور دوسری طرف ریاستی بیانیوں کو فروغ دینے والے اداروں ، دانشوروں اور  لکھاریوں کے جتھے موجود ہوتے ہیں جس کو مختلف ریاستی ادارے ریاستی بیانیوں کے فروغ اور دفاع کیلئے بروئے کار لاتے ہیں۔ لیکن جس طرح ہر شعبہ زوال کا شکار ہے اس طرح ریاست کے پروردہ اداروں اور دانشوروں میں بھی اس کے اثرات دیکھے جا سکتے ہے ۔ دلیل کا جواب دلیل سے دینے کی بجائے گالی گلوچ ، کردار کشی اور بیرونی قوتوں کے آلہ کار کے الزامات اور غداری  کے تمغے بانٹنے اور کفر کے فتوی لگانے کا عمل ذہنی بانجھ پن کی علامت ہے ۔ اور یہی ہو رہا ہے۔  

جو بھی آزاد اور سوچ اور فکر کا حامل شہری ہے وہ غدار ہے ۔ عوامی بیانیے بنانے اور فروغ دینے کا ہر عمل ملک دشمنی اور بیرونی سازش ہے۔ ملک کی شہریت اور حب الوطنی پر اجارہ داری اور اسے اپنا جاگیر سمجھنے کی ذہنیت کا یہی حال ہے کہ ہر روز کسی نہ کسی دانشور یا لکھاری کو بیرونی ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔ 

اگر آپ کا تعلق بالادست حکمرانوں کی نسل ، عقیدہ یا مذہب سے نہیں یا آپ ریاستی بیانیوں کو فروغ دینے والے نہیں تو پھر آپ لاکھ ملک و قوم  کی نیک نامی کو چار چاند لگائیں  اور عالمی شہرت کا باعث بنیں آپ کی شخصیات کو متنازعہ بنایا جاتا ہے۔  ڈاکٹر عبدالسلام سے لیکر ملالہ یوسفزئی تک ہم نے دیکھا کہ پاکستان کی نیک نامی اور عالمی شہرت کا باعث بنے والے شخصیات کی کیسی تذلیل کی جاتی ہے اور ان کو متنازعہ بنایا جاتا ہے۔

جبکہ ریاستی بیانیوں کو ترویج دینے والے اور ان کو عملی جامہ پہنانے والے جو ملک کا بیرون ملک امیج خراب کرتے ہیں ملک میں تنگ نظری،نفرت ، تشدد اور جنگی جنون کو ہوا دیتے ہیں وہ محب وطن قرار پاتے ہیں ۔ د نیا بھر میں دہشت گردی کی پہچان رکھنے والے ہمارےہیرو ہوتے ہیں ۔چاہے کسی کو اچھا لگے یا برا مگر یہ رویے نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔ 

اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں کہ اگر پاکستان میں عوامی بیانیوں کو فروغ دینے والے عوامی دانشوروں یا لکھاریوں کو ریاستی غضب اور قہر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بار بار اس کی حب الوطنی پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور اگر اس کا تعلق کسی مذہبی اقلیت سے ہو تو کفر کا فتوی تو پکا ہے۔ 

پہلے افغان جہاد اور بعد میں طالبان کے دور میں پاکستانی ریاست نے اپنی پالیسیوں کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنے اور ان کو دوام دینے کیلئے انتہا پسندی، تنگ نظری ، نفرت اور تشدد کو فروغ دینے والے بیانیے رائج کئے۔ جو کہ منفی اور تخریبی بیانیے تھے۔ جس کے نتیجے میں معاشرے میں پہلے مسلم اور غیر مسلم کی بنیاد پر نفرت اور مذہبی تعصب بڑا اور پھر اس  کو مختلف مسلکوں اور فرقوں تک پھیلایا گیا ۔ یوں سارا معاشرہ منقسم اور انتشار کا شکار ہوگیا۔ مذہبی انتہاپسندی ، نفرت اور تعصب کے نتیجے میں تشدد میں بھی اضافہ ہوا۔ 

اور وجوہات کے علاوہ سٹرٹیجک ڈیپتھ پالیسی کی کامیابی کیلئے بھی سرحد کے دونوں طرف موجود پشتونوں کی روشن خیال ، جمہوری اور قوم پرست عناصر کو کمزور کرنا ضروری تھا اور اس مقصد کیلئے طالبان کو استعمال کیا گیا۔ پشتون دانشوروں میں اس بات پر اتفاق ہے کہ جاری شورش پشتون معاشرے کے اندرونی محرکات یا وجوہات کی وجہ سے نہیں بلکہ علاقائی اور عالمی قوتوں نے اپنے تنگ نظر مفادات کیلئے اس پر اوپر سے منظم انداز میں تھوپا ہے ۔ 

ریاستی بیانیے نہ صرف بیرونی دشمن کو زچ دینے اور مات دینے کیلئے بلکہ داخلی دشمنوں سے حساب بیباک کرنے کیلئے بھی تشکیل دیے گئے تھے۔  ان بیانیوں کے فروغ سے دشمن کو ہم کتنا نقصان پہنچا چکے ہیں ہیں یہ تو وقت ثابت کرے گا مگر اس کے نتیجے میں اندرون ملک جتنی بربادی اور نقصان ہو چکا ہے اس کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے ۔ اس موازنے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ ہماری پالیسیوں سے دشمن کا زیادہ نقصان ہوا یا ہمارا۔ 

 عسکریت پسندی سے متعلق ریاستی اور عوامی بیانیوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔  ریاستی بیانیہ اس کو شروع سے دشمن کے طور پر پیش کرتی ہے۔ جبکہ پشتون شورش زدہ علاقوں میں عسکریت پسندی کے حوالے سے یہ بیانیہ اہم تھا کہ عسکریت پسند اور فوج سکے کے دو رخ ہیں۔ بار بار عوامی شکایات اور نوٹس میں لائے جانے کے باوجود بھی سیکورٹی فورسز عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی سے اجتناب کرتی رہی اور بعض دیگر شواہد کی موجودگی میں عوام کو شک تھا کہ عسکریت پسند اور سیکورٹی فورسز آپس میں ملے ہوئے ہیں ۔ بعد میں کچھ عسکریت پسند عناصر یا تو حکومت کے کنٹرول سے باہر ہوگئے اوریا مصلحت کے تحت مخالف کیمپ میں بھیج دیے گئے۔ 

دوسرا بیانہ جاری تنازعہ میں خارجی قوتوں کے کردار کے بارے میں تھا کہ تباہی اور بربادی کے ذمہ دار خارجی سے زیادہ داخلی قوتیں ہیں۔آج بیرونی دشمن سے زیادہ خطرناک اندرونی دشمن ہے ۔ دشمن کو زک پہنچانے کیلئے بنائے گئے ہتھیار مطلب بعض عسکریت پسند آج بے قابو ہو چکے ہیں۔ اور وہی تربیت اور نظریاتہ ہتھیار اب اپنے ملک کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔  ان بیانیوں میں ایک علاقائی امن کے بارے میں بھی تھا۔ جو علاقے میں امن اوراستحکام کیلئے تمام ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات کا خواہاں تھا۔ 

اس کے علاوہ طالبان کے بارے میں یہ بیانیہ کہ طالبان نظریاتی طور پر قوم پرست نہیں بلکہ ریاست کی پروردہ ایک قوت ہے جو داخلی اور بیرونی قوتوں کے ایماء پر مذہب کے علاوہ پشتونوں کی قومی شناخت کو داغدار اور  ثقافت کو آلودہ کر رہے ہیں ۔ طالبان پراجیکٹ کا داخلی ایجنڈا پشتون قومی شناخت اور اجتماعی سوچ کو کمزور کرنا تھا جو اپنی ماھیت میں بنیادی طور پر کسی حد تک سیکولر اور جمہوری سوچ تھی۔  اس طرح  انتہاپسند اور تنگ نظر سوچ اور متشدد عمل کے ذریعے طالبان کو ایک جاہل ، ضدی اور دہشت گرد بنا کر بالواسطہ یا بلا واسطہ پشتونوں کو بدنام کرنا بھی تھا۔ 

 آجکل سی پیک کے حوالے سے بھی ایک بیانیہ موجود ہے ۔  جو راہداری منصوبے میں پشتونوں کے ساتھ دانستہ اور منظم انداز میں زیادتیوں کو چیلنج کرتی ہے اور پشتونوں کی آرزوں اور مطالبات کو اجاگر کرتی ہے۔

♠ 

Comments are closed.