تشدد 

4212_109624585991_3851843_n-252x300

بیرسٹر حمید باشانی خان

تشدد بھیانک ماضی کی باقیات ہے۔ آج کا انسان اس بھیانک ماضی اور اسکی پر تشددیادوں کو بھول جانا چاہتا ہے۔ تشدد جیسی بھیانک باقیات کو مٹانا دیناچاہتا ہے۔۔ مہذب اور ترقی یافتہ دنیا میں انسان اپنی ان کوششوں میں کافی حد تک کامیاب بھی رہا ہے۔مگر پوری کامیابی کے لیے انسا ن کو ا بھی ا س سمت میں لمبا سفر اورکٹھن جہدوجہد کرنی ہے۔

ترقی یافتہ دنیا کے کچھ حصوں اور ترقی پذیر دنیا کے پیشتر حصوں میں تشدد کا بھیانک رواج ابھی تک اپنی وحشیانہ شکل میں موجود ہے۔ پاکستان ان ممالک میں سر فہرست ہے جہاں تشدد عام ہے۔ یہاں تشدد کا رواج سماج کی ہر پرت میں نمایاں ہے۔ گھروں میں بڑوں کے ہاتھوں چھوٹوں،مردوں کے ہاتھوں عورتوں، عورتوں کے ہاتھوں بچوں، استادوں کو ہاتھوں شاگردوں،مالکان کے ہاتھوں مزدوروں پر تشدد کی مثالیں عام ہیں۔

یہ تشدد کے الگ الگ اور چھوٹے چھوٹے واقعات آگے جاکر سماج کو بحثیت مجموعی پر تشدد بناتے ہیں۔سیاسی زندگی میں تشدد، دہشت گردی اور ریاستی تشدد اسی سلسلے کی الگ الگ شکلیں ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر تشدد کی موجودگی اسکو ایک قابل قبول قدر کی حیثیت دیتی جارہی ہے۔ اس کی ایک واضح مثال پاکستان کے موجودہ قوانین ہیں۔

بہت سارے لوگوں کو یہ جان کر افسوسناک حیرت ہوگی کہ پاکستان میں پولیس اور ریاستی تشدد کے خلاف کوئی واضح قوانین موجود نہیں ہیں۔تعزیرات پاکستان میں تشدد کے خلاف کوئی واضح دفعات سرے سے موجود نہیں ہیں۔پاکستان کریمینل کوڈ بھی اس سلسلے میں خاموش ہے۔زیادہ گہرائی میں جائیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں رہ جاتی۔ ٓٓآخر کار قانون سازی پاکستان کی پارلیمنٹ میں ہوتی ہے اور پارلیمنٹ کے ممبران بھی اسی پر تشدد سماج کا حصہ ہیں جہاں تشدد کو خاص نا پسندیدہ عمل نہیں تصور کیا جاتا۔

اس گھمبیر صورت حال کا واضح عکس قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور خصو صاً پولیس کے طرز عمل میں نمایاں نظر آتا ہے۔ ملزموں سے اقرار جرم کرانے کے لیے پولیس تشدد کے واقعات عام ہیں۔ رشوت دیکر مخالفین پر تشدد کرانے کے اکا دکا واقعات بھی اکثر سامنے آتے رہتے ہیں۔ اقرار جرم کرانے کے لیے تشدد کا استعمال اور پھر عدالتوں کا اس اقرار جرم کو تسلیم کرنااس صورت حال کو مزید بھیانک بناتا ہے۔ 

انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے متعدد اداروں کی رپورٹوں کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں تقریباً ایک ہزار تین سو لوگ پولیس کے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنے ہیں۔سینکڑوں ایسے واقعات ہوں گے جو رپورٹ نہیں کیے گئے۔عام شہریوں کا اپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں یوں تشدد کا نشانہ بننا ایک پریشان کن عمل ہے۔ بلا استشنا جب بھی کوئی عام شہری گرفتار ہوتا ہے اسے ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔

تفتیشی آفیسر تفتیش کے بین الاقوامی طور پر مسلمہ جدید طریقے استعمال کرنے کی بجائے تشدد کے رجعتی اور روایتی طریقے اختیار کرتے ہیں۔غیر انسانی تشدد کے ذریعے ملزم کو اقرار جرم پرمجبور کیا جاتا ہے۔ تشدد کے ایسے واقعات منظر عام پر آنے پر پولیس کے خلاف کوئی سنجیدہ کاروائی نہیں ہوتی۔انتہائی غیر معمولی صورت حال میں زیادہ سے زیادہ تشدد کرنے والے پولیس آفیسر کا کسی دوسری جگہ تبادلہ کر دیاجاتا ہے جہاں وہ اپنی سابقہ روش برقرار رکھتا ہے۔

ترقی یافتہ دنیا میں ایسے واقعات کا انتہائی سنجیدہ نوٹس لیا جاتا ہے۔ تشدد کرنے والا پولیس آفیسر کسی صورت میں سزا سے نہیں بچ سکتا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہاں کی عدالتیں پولیس کے سامنے دئیے گئے اقراری بیان کوکوئی اہمیت نہیں دیتی۔اس طرح تشددکے ذریعے اقرا رجرم کی ریت تقریباً دم توڑ رہی ہے۔ تفتیشی آفیسر کو ملزم کے خلاف ثبوت اور شہادتیں اکٹھی کرنی پڑتی ہیں۔

پاکستان میں پولیس کے علاوہ دیگر اداروں بشمول آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس ایجنسی، ایف آئی اے، پاکستان نیوی اور فرنٹئیر کانسٹیبلری پر بھی تشدد کے متعدد الزامات سامنے آئے ہیں۔ انسانی حقوق کے اداروں کی رپوٹوں کے مطابق ان مذکورہ بالا خفیہ ایجنسیوں نے پاکستان کے مختلف شہروں میں اپنے عقوبت خانے کھول رکھے ہیں۔ ان میں سے کئی عقوبت خانے ذاتی گھروں میں قائم ہیں جہاں گرفتار شدگان کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ان رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں تقریباً ایسے پچاس معلوم عقوبت خانے موجود ہیں۔ گرفتار شدگان کو خفیہ طریقے سے طویل عرصے لے لیے ان عقوبت خانوں میں قید رکھا جاتا ہے۔ سادہ لباس میں ملبوس افراد کے ہاتھوں سندھ اور بلوچستان میں قوم پرست سیاسی کارکنوں کو بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑیوں میں اٹھا کر خفیہ ٹھکانوں پر لے جا کر تشدد کا نشانہ بنانے کی روپوٹیں بھی سامنے آئی ہیں۔ 

یہ ساری صورت حال ایک ایسے سماج کی عکاس ہے جس میں تشدد ایک گہرے روگ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس روگ سے چھٹکارا پانے کے لیے چند بنیادی نوعیت کے فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر عدالتوں میں ملزموں کے اقبالی بیانات کو نا قابل قبول قرار دیا جائے۔ تشدد کے خلاف ہنگامی بنیادوں پر واضح قانون سازی کی جائے۔ پاکستان یینل کوڈ اور کریمینل کوڈ میں ریاستی تشدد، پولیس تشدد اور دوسری سرکاری ایجنسیوں کے ہاتھوں تشدد کی واضح تعریف درج کی جائے ۔اور اس کی کڑی سزا مقرر کی جائے۔

عام شہری کی طرف سے تشدد کی ہر شکایت کی مکمل تحقیق اور تفتیش کا میکانزم ترتیب دیاجائے۔ پرائمری سے لیکرتشدد کو نصاب میں ایک نفرت انگیز اور نا پسندیدہ حربہ ہونے کی تعلیم دی جائے۔ورنہ پاکستانی سماج دن بدن تشدد کی اس خوفناک دلدل میں مزید دحنستا چلا جائے گا۔

Comments are closed.