ضابطہ حیات

ہمیں زندہ و پائیندہ قوم ہونے پر فخر ہے، ہم دنیا کی بہترین امّت ہونے پر اتراتے ہیں لیکن دنیا میں کچھ قومیں ایسی بھی ہیں جن کے پاس یہ دونوں چیزیں نہیں ہیں۔ مگر فارسی کا محاورہ ان کے متعلق کچھ یوں کہتا ہے مشک آنست کہ خود ببوئید نہ کہ عطار بگوئید۔

ہمارے معاشرے کا اخلاقی معیار کیا ہے، اس کے متعلق کچھ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے، ہر کوئی جانتا ہے کہ ارض پاک میں کیا ہوتا ہے کہ اگر لوٹتے وقت کسی کی کلائی سے کنگن نہ اتر سکے تو کنگن حاصل کرنے میں بھی کلائی کاٹنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ آپ کی کوئی چیز گم ہو گئی تو اس کو واپس پانے کا تو خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔

البتہ اگر آپ کی کوئی چیز ٹوکیو جاپان میں گم گئی ہے تو بے فکر رہیں، وہ چیز آپ کو واپس مل جائے گی، اگر آپ کا بٹوہ گم ہو گیا ہے وہ بھی پوری نقدی سمیت آپ کو مل جائے گا۔

ٹوکیو کی پولیس کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال شہریوں نے تین کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے مساوی کی گمشدہ رقم حکام کے حوالے کی۔نقدی کے علاوہ گم ہونے والی دوسری اشیا میں چھتریاں، موبائل فون اور پالتو پرندے شامل ہیں۔ پولیس کا کہنا ہےکہ ذاتی استعمال کی چیزوں کا حجم کم ہوتا جا رہا ہے اس لیے ان کا گم ہونا بھی آسان تر ہو گیا ہے۔

جاپان میں گم شدہ اشیا واپس کرنے کا ایک فائدہ ہے: اگر مالک نے تین ماہ کے اندر اندر آ کر اپنی چیز وصول نہ کی تو اس شخص کو دے دی جائے گی جسے ملی تھی۔
تاہم حیرت انگیز طور پر بہت سے ایسے لوگوں نے جنھیں رقم ملی تھی، تین ماہ گزر جانے کے بعد بھی اسے لینے سے انکار کر دیا اور یوں شہر کی بلدیہ کے حصے میں 39 کروڑ ین آ گئے۔
گذشتہ سال سپورٹس نپون نامی چینل نے خبر دی تھی کہ ایک شخص نے ایک بیگ واپس کیا جس میں سوا لاکھ ڈالر کے برابر رقم کے نوٹ بھرے ہوئے تھے۔

ایک ضابطہ حیات جو اپنے ماننے والوں کی تربیت نہ کر سکے، ان کے رویئے تبدیل نہ کر پائے، ایسا ضابطہ تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن جاتا ہے۔

غلام رسول

One Comment