کیا کلبھوشن واقعی جاسوس ہے؟

ڈی اصغر

جب سے ہمارے ہاتھ ایک عدد بھارتی جاسوس ، کلبھوشن یادو آیا ہے ، ایک تماشہ برپا ہے ۔ گویا جتنے منہ اتنی باتیں ۔ جناب یادو کا ایک اعترافی بیان ٹی وی پر چلوایا گیا ۔ جس میں انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ ، وہ بھارتی جاسوسی ایجنسی را کے لیے ایک مشن پر پاکستان میں آئے تھے ۔ ان کا ایک پاسپورٹ ایک مسلمان تاجر ، یعنی حسین مبارک پٹیل کے نام  سے جاری ہوا تھا اور وہ اس پاسپورٹ کے  ذریعے پاکستان میں داخل ہوا تھا ۔ ہمارے ازلی دشمن بھارت کا یہ موقف ہے کہ اسے ایران سے اغوا کر کے زبردستی پاکستان لایا گیا۔ ان پر زور زبردستی کر کے یہ بیان ریکارڈ کروایا گیا ہے۔

  یہ سب اتنی حیرانی یا اچھنبےکی بات نہیں ، کیوں کے جاسوسی میں فرضی ناموں کا سہارا لینا ایک پیشہ ورانہ سلسلہ ہے ۔ جو بات واقعی حیران کن ہے ،  جناب یادو اپنی مادری زبان مراٹھی میں اپنے اہل خانہ سے گفتگو فرما رہے تھے اور یوں وہ با آسانی سب کی نظر میں آ گئے ۔ اب جو بھی جاسوسی کی الف ب سے بھی نابلد ہے ، وہ بھی یہ اعتراف کرے گا ، کہ جناب یادو ، کا یہ عمل انتہائی بچگانہ تھا۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے لوگوں پر کڑی نظر رکھتے ہیں اور عین ممکن ہے، کہ ان کا فون بھی خفیہ طور سے سنا جارہا ہو۔ 

  تماشہ برپا کرنے والے ٹی وی کے بڑے بڑے میزبان اور تجزیہ نگاروں کے مابین ایک بیانیہ اور اس سے منسلک کہانیاں موضوع بحث ہیں ۔ یہ اگر ایک قومی سلامتی کا مسئلہ ہے تو ، یہاں توجہ اِس بات پر کم اور دوسری بیکار کی باتوں پر زیادہ ہے ۔ حزب مخالف کے سیاسی رہنما اور ان کے ہمنوا ، ایک بات پر  مصر ہیں ، کہ اِس ملک کے وزیر اعظم ، اِس جاسوس کے لیے ایک نرم گوشہ اپنے دِل میں رکھتے ہیں ۔ یہ وزیر اعظم در اصل مودی کے یار ہیں۔  بھارت میں ان کے تجارتی مراسم ہیں ۔ اِس لیے وزیراعظم ۔ کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ مجرم اپنے کیفر کردار تک پہنچ پائے۔

 یہ ایک انتہائی بھونڈا ، بے تکا اور غیر ذمہ دارانہ بیان ہے ۔ مگر شام ٧ سے رات ١٢ بجے تک یہی چلتا اور بکتا ہے۔ اپنے ہی ملک کے منتخب وزیر اعظم ( چاھے ان سے آپ کو میری طرح لاکھ اختلافات ہوں ) ، لیکن دنیا کے آگے ہم آواز ہو کر متحد نظر آنا شاید ہماری قسمت میں دور دور تک نظر نہیں آ سکتا اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کے امکانات کی کوئی روشن امید ہے۔ 

ہر جگہ ہماری طفلانہ کاکردگی، ہماری ذہنی پستی کی ترجمانی اورعکاسی کرتی ہے ۔ ان صاحب کی گرفتاری پر ٹی وی کے بعض بڑے بڑے جید اور نام ور میزبان یہ دعوٰ ی فرما چکے ہیں کہ یہ تو سیدھا سادہ دہشت گردی پھیلانے اور سازش کرنے  کا مقدمہ ہے ۔ جناب یادو  اپنے  اعترافی بیان میں یہ اقرار کر چکے ہیں ، کہ انہیں بلوچستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے کا معاملا سونپا گیا تھا۔

چلیے یہ بات تو واضح ہے کہ کلبھوشن یادو ایک جاسوس ہیں۔ ۔پر کچھ سوالات ہیں جو بنیادی نوعیت کے ہیں ، جو ابھی تک تفصیلی جواب کے طالب  ہی ہمار ے ماتم کناں ٹی وی کے ارسطو، بقراط اور افلاطون، جن سے صاف کتراتے ہوے پائےجاتے ہیں۔ مثلاً؛

 ١)  بلوچستان میں ان صاحب کوکس تخریبی کاروائی  کے لیے بھیجا گیا تھا؟ 

٢)  ان صاحب کے کن مقامی لوگوں سے رابطے تھے؟

٣) یہ کون سے گزشتہ  دہشت گردی کے حملوں میں ملوث تھے؟

٤) ان کا مقامی نیٹ ورک کہاں پر واقع ہے ، ان کے مقامی کارندے کون ہیں  ؟

 یہ سب ایسے سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں ۔

 ہمارے ہر لمحے باخبر رکھنے والے ٹی وی اینکر ایک ہی راگ الاپے جا رہے ہیں کہ دیکھو دیکھو بھارت بھی پاکستان میں تخریب کاری میں ملوث ہے۔ ۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ،  اتنے برس سے دہشت گردی جاری ہے اور اتنے سکیورٹی کے ادارے موجود ہونے کے باوجود اتنے برسوں میں  صرف ایک کلبھوشن کا پکڑے جانا  انتہائی تشویش ناک بات ہیں ۔

ایک فرشتہ صفت مجاہد،  جناب احسان اللہ احسان کی ایمان افروز توبہ نے بھی اس ساری داستان پر یقین محکم کی مہر ثبت کر دی ہے۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت اپنی خفیہ ایجنسی را اور افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے ذریعے یہ سب دہشت گردیاں  کروا رہا ہے۔

 گویا کچھ برس قبل ہماری منتخب حکومت، ہماری دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتیں، جب مذاکرات مذاکراتکا شور مچا رہی تھیں، تو وہ در اصل بھارت سے مذاکرات کی طلب گار تھیں۔ یعنی گھوم پھرکر پپو کی خالہ کے ماموں زاد بھائی سے کہلوا رہے تھے کہ پپو سے بات کرنی ہے۔ ارے  بھائی سیدھے پپو سے بات کیوں نہیں کر لیتے؟

ٹی وی پر جذبہ ایمانی سے سرشار ہمارے اقبال کے شاہین، کشمیر، سیاچن، ،ڈھاکہ، کارگل، الغرض ہر محاذ کا ادھارایک اکیلے یادو سے برابر کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ گلہ خواں ہیں کہ پھانسی اب تک کیوں نہیں دی گئی ۔ عالمی عدالت برائے انصاف کے اس معاملے  پر حکم التوا کوبھی رد کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ایسی ایسی نایاب تجاویزبنا فیس کے فراہم کی جا رہی ہیں، کہ الله کی پناہ۔ 

مجھ سا کم عقل اور کج فہم لکھاری حسب معمول، اپنی ذہنی کمزوری کا معترف ہے۔ پر جان کی امان پاتے ہوے، یہ عرض کرنے کی گزارش کرتا ہے۔ عالمی سطح پرہمارا یہ کیس کمزور ہے۔ اہل ایمان، مجھے بے شک جس نام سے پھبتی کسیں، بندہ حاضر ہے۔ پر اس نا چیز کی گزارشات مندرجہ ذیل ہیں:

١) جو بھی شواہد جناب یادو کے خلاف ملے، انھیں دنیا کے سامنے روز اول سے پیش کیا جانا چا ہیے تھا۔

٢) بھارت کو یہ باور کروانا چاہیے تھا، کہ ان کا جاسوس ہمارے پاس جو جرائم قبول کر چکا ہے، اگر وہ ہم سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو میز پر آ جائیں۔ اس طرح معاملات افہام و تفہیم سے سلجھائے جا سکتے تھے۔  اگر بھارت سرکار لچک نہ دکھلاتی تو:

٣) ان صاحب کا مقدمہ فوجی عدالت کی بجائے ، ایک معمول کی عدالت میں چلایا جانا چاہئیے تھا، جس کی شفافیت پر کوئی شک نہ کر سکتا۔

٤) ان صاحب  کومحدود اور محتاط حد تک بھارتی  قونصل سے ملاقات کی اجازت بھی دے دی جاتی۔  

ان سب نکات سے، گھنٹوں کی مغز ماری نہ ہوتی اور یہ ٹی وی پر ٹی ٢٠نما قانون کا میچ نہ لگا ہوتا۔ پر حضور ہم ہیں نہ سب قومی غیرت اور حمیت کے حامل، جذبات کے خزانے سے مالا مال۔ اب جو چیز ہمارے پاس ہے ہم وہی خرچ کریں گے نا۔

2 Comments