لندن برج پرحملہ : ناکامیوں کا کوئی اعتراف نہیں

آصف جیلانی

لندن برج پر داعش کے دہشت گرد حملہ میں ہلاک ہونے والے سات افراد کی یاد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے لندن کے پہلے مسلم مئیر صادق خان نے بالکل صحیح کہا کہ لندن برج پر حملہ کرنے والے مسلمانوں کے ترجمان نہیں تھے ۔ یہ حملہ آور بیمار اور خبیث تھے جن کے گمراہ نظریات کا اسلام کی حقیقی اقدار سے کوئی تعلق نہیں۔ اور واقعی لندن برج پر تیز رفتا ر وین سے پچاس سے زیادہ راہ گیروں کو کچلنے کے بعد خنجروں سے معصوم شہریوں پر اندھا دھند حملہ کرنے کے بارے میں کوئی سچا مسلماں سوچ بھی نہیں سکتااور خاص طور پر رمضان المبارک کے مہینہ میں اور عین اس وقت جب حملہ آوروں کے ہم مذہب تراویح ادا کر رہے تھے۔ ان حملہ آوروں میں سے ایک نے خنجر سے شہری پر وار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ یہ اللہ کے لئے ہے‘‘ کوئی مسلمان اللہ کے نام پر کسی بے گناہ شہری کو یوں ہلاک کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ حملہ آورمسلمان کہنے کے مستحق نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں۔ ان کی وجہ سے برطانیہ کی پوری مسلم برادری نفرت اور الزام میں محصور ہو گئی ہے۔

لندن برج کے تین حملہ آوروں میں ایک27 سالہ پاکستانی نژاد خرم شہزاد بٹ تھا جس کا تعلق ممنوعہ اسلامی شدت پسند تنظیم المہاجرون سے تھا۔ اس کے والدین کا تعلق جہلم سے تھا۔اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا باپ جو مشرقی لندن کے بارکنگ کے علاقہ میں پھل اور سبزی فروخت کرتا تھا، اس وقت اپنے بستر پر مردہ پایا گیا جب خرم شہزاد کی عمر آٹھ سال تھی اور اس کے فورا بعد اس کے گھر کے سامنے کار کے نیچے آکر اس کی ٹانگ کچل گئی تھی جس کی وجہ سے اس کے پاؤں میں لنگ تھا۔ ان سانحوں کی وجہ سے اس کی زندگی پر شدید اثر پڑا تھا۔ پھر المہاجرون سے رابطہ کے بعد اس نے مساجد میں اماموں سے لڑنا اور شور مچانا شروع کر دیا تھا۔

گذشتہ مہینے اسے مساجد میں یہ شور مچاتے دیکھا گیا کہ مسلمانوں کو برطانیہ کے عام انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہئے۔ اس بناء پر اسے ایسٹ لندن اور بارکنگ کی مسجد سے نکال دیا گیا تھا اور اس کے مسجد میں داخلہ پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ خرم شہزاد کے بارے میں تو ایسی کوئی اطلاع نہیں تھی کہ وہ منشیات اورشراب نوشی کے زیر اثر تھا لیکن مانچسٹر کے خود کش بمبار سلمان عابدی کے بارے میں مصدقہ اطلاعات تھیں کہ اس کا تعلق جرائم پیشہ گروہوں سے تھا اور وہ منشیات کا عادی تھا۔ 22مارچ کو ویسٹ منسٹر برج پر کار سے راہ گیروں کو روندھنے اور اس کے بعد پارلیمنٹ کے احاطہ میں پہرہ دینے والے پولس کانسٹبل کو چاقو سے وار کر کے اسے ہلاک کرنے والے خالد مسعود کے بارے میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ وہ نشہ کرتا تھا اور ایک طوائف کے ساتھ رہتا تھا۔ان سب کے حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔برطانیہ کے مسلمانوں کو سخت تعجب ہوا ہے کہ داعش نے ایسے گمراہ مسلمانو ں کو ایسے دہشت گرد حملوں کے لئے چنا اور ان حملوں کو مسلمانوں کی ہلاکتوں کی انتقامی کاروائی قرار دی ہے۔

داعش کے بارے میں یہ شکوک و شبہات اب پختہ ہو چلے ہیں کہ اس کے پس پشت ان طاقتوں کا ہاتھ ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا چاہتی ہیں اور اس کے بل پر مشرق وسطی سے لے کر افغانستان اور پاکستان تک ، مستقل افرا تفری پھیلانا چاہتی ہیں ، عراق کو تین مملکتوں میں اور شام کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہیں۔ عراق میں مغربی موصل پر عراقی فوج ، شیعہ ملیشیا اور کرد پیش مرگہ کے حملہ کے بعد داعش کے نام نہاد خلیفہ البغدادی ،خود کش کار بموں کے جلو میں ایسے پر اسرار طور پر غایت ہوگئے ہیں کہ ان کا کہیں سراغ نہیں مل سکا ہے۔ ان کی گمشدگی اس بناء پر اور معمہ بن گئی ہے کہ مغربی میڈیا بالکل خاموش ہے۔ مغربی میڈیا جو تفتیشی رپورٹنگ میں بڑا فخر کرتا ہے اس نے خلیفہ البغدادی کا کھوج لگانے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ بعض حلقے اس کو بھی معنی پہناتے ہیں کہ داعش نے لیبیا سے لے کر افغانستان اور یورپ میں حملے کئے ہیں لیکن داعش کی طرف سے ارض فلسطین کے محصوروں اور محکوموں کی آزادی کے لئے اسرائیل کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی ہے۔

مانچسٹر کے سانحہ اور لندن برج کے حملہ کے بعد خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو،پولیس اور خود وزیر اعظم ٹریسا مے پر کڑی نکتہ چینی ہو رہی ہے کہ یہ دھشت گردی کے سدباب میں ناکام رہی ہیں۔ ٹریسا مے پر نکتہ چینی کو زور اس بناء پر زیادہ ہے کہ وزیر اعظم بننے سے پہلے چھ سال تک وزیر داخلہ رہی ہیں اور ان کا اولین فرض دہشت گردی پر قابو پانا تھا۔ مانچسٹر کے سانحہ کے بعد اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ ایم آئی فائیو، پولیس کے ساتھ وزارت داخلہ کو اس بارے میں علم تھا کہ مانچسٹر میں ان لیبیائی شدت پسندوں کومعمر قذافی کا تختہ الٹنے کے لئے پالا جارہا ہے اور خود کش بمبار سلمان عابدی کو برطانیہ اور لیبیا کے درمیان آمد ورفت کی پوری آزادی تھی۔ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ مانچسٹر کے حملہ سے ایک ہفتہ پہلے عابدی لیبیا گیا تھا جہاں اس کی داعش کے کمانڈروں سے ملاقات ہوئی تھی۔ 

ادھر لندن برج کے حملہ آور خرم شہزاد بٹ کے بارے میں میٹرو پولیٹن پولس نے اعتراف کیا ہے کہ یہ پولیس اور خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو کی نگاہ میں تھا اور 2015میں اس کے بارے میں تفتیش شروع کی گئی تھی ۔ کٗئی لوگوں نے پولیس کو خرم شہزاد کے انتہاپسند اور شدت پسند رجحان کے باے میں خبر دار کیا تھا ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تفتیش کے بعد اس کی کسی دہشت گرد کاروائی میں حصہ لینے کی شہادت نہیں ملی تھی ۔اسی زمانے میں اس کے محلے کے کئی افراد نے پولیس کو خرم شہزاد کی انتہا پسندی اور شدت پسندی کے بارے میں خبردار کیا تھا ۔ بٹ کی غیر اسلامی سرگرمیوں کی بناء پر ایسٹ لندن کی مسجد میں اس کا داخلہ بند کر دیا گیا تھا اور بارکنگ کی مسجد میں امام کے خطاب کے دوران للکارنے اور شور مچانے پر اسے مسجد سے باہر نکال دیا گیا تھا اور مسجد میں داخلہ پر پابندی عائد کر دی گئی تھی ۔

گذشتہ سال ٹیلی وژن چینل 4پر جہادیوں کے بارے میں جو دستاویزی فلم دکھائی گئی تھی اس میں بٹ کو داعش کے پرچم لہرانے پر پولیس کے ساتھ حجت کرتے دکھایا گیا تھا۔ یہ سوال کیا جارہا ہے کہ اس دستاویزی فلم کے بعد بھی پولیس نے خرم شہزاد کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔

لندن برج کے ان تین حملہ آوروں کی وجہ سے برطانیہ کے تیس لاکھ مسلمان ، نفرت اور الزامات کے حصار میں ہیں اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے مسلمانوں کو طویل سزائیں دینے ، دہشت گردی کے شبہ میں مسلمانوں پر کڑی پابندیاں عائد کرنے اور حتی کہ برطانیہ سے اسلام کے اخراج کے مطالبات کئے جارہے ہیں۔ غرض ایک جنونی جذباتیت ہے جسے مسلم دشمن میڈیا شہہ دے رہا ہے۔

برطانیہ کے مسلمان دہشت گردی کے دہرے عذاب میں گرفتار ہیں۔ ایک طرف انہیں خود دہشت گردی کا خطرہ ہے اور دوسری جانب انہیں دہشت گردی کے نتیجہ میں تعصب اور نفرت کا سامنا ہے۔

جیسے کہ روایت ہے ، ہر حملہ کے بعد ، حکومت زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ اس بار بھی وزیر اعظم ٹریسا مے نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے جو چار نکاری پروگرام پیش کیا ہے اس میں زیادہ زور وسیع اختیارات پر ہے لیکن اس بات کا اعتراف معدوم ہے کہ وہ دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام رہی ہیں اور خاص طور پر شدت پسندی کو روکنے کے لئے متنازعہ حکمت عملی ناکارہ ثابت ہوئی ہے۔

انہوں نے نہ اس بات کا اعتراف کیا ہے اور نہ ان سے توقع ہے اس بات کی کہ برطانیہ کی خارجہ پالیسی کا ملک میں دہشت گردی اور شدت پسندی میں اضافہ کا گہرا تعلق ہے جس کو تبدیل کرنے میں مسلم نوجوان اپنے آپ کو بے بس اور بے کس سمجھتے ہیں ۔ یہ نوجوان کسی طور یہ نہیں بھول سکتے کہ اس سال بیلفور اعلانیہ کو ایک سو سال پورے ہونے کو آرہے ہیں جس کے ذریعہ برطانیہ نے ارض فلسطین پر اسرائیل کے قیام اور فلسطینیوں کو ان کے وطن سے بے دخل کرنے اور کی محکومی کے دروازے کھولے ہیں اور فلسطینیوں پر ظلم وستم کا ایک سلسلہ ہے جو ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔

2 Comments