ہم آج بھی 1948 کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہیں

محمد شعیب عادل

جو پاکستانی، جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک ریمنڈ ڈیوس کے انکشافات نئے نہیں۔یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے سیاسی کارکن، صحافی اور دانشور یہ جانتے تھے کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے فیصلے کے پیچھے فوجی وردی تھی نہ کہ جمہوری حکومت۔ فرق اتنا ہے کہ ہمارے صحافی اور دانشور جو ہر روز میڈیا پر علم و دانش کے موتی بکھیر تے ہیں وہ عوام کے سامنے سچ کا اظہار نہیں کر سکتے اور ریمنڈ ڈیوس کی کتاب نے عوام کے سامنے ہمارے اداروں کی کارگردگی کا پول کھول دیا ہے ۔یہی معاملہ ڈان لیکس کا بھی تھا۔ تمام اہل سیاست اور تجزیہ نگار اس امر سے واقف ہیں کہ پاک فوج پاکستان کی جہادی تنظیموں کی سرپرستی کرتی ہے اور ان کے ذریعے وہ اپنے جنگجو عزائم کو آگے بڑھاتی ہے۔ چاہے وہ افغانستان میں دہشت گردی کی وارداتیں ہوں یا کشمیر میں۔

یہی معاملہ پاک فوج کے نام نہاد فوجی آپریشنوں کے ساتھ ہے۔جن کے متعلق دعویٰ کیا جاتا ہے کہ فوج دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کررہی ہے۔لیکن درحقیقت ایسا ہوتا نہیں۔ فوج دہشت گردی ختم نہیں کرتی بلکہ ان کی سرگرمیوں کو کنٹرول کر تی ہے۔ پاکستانی ریاست کی خارجہ پالیسی دہشت گردوں کے گرد گھومتی ہے اور خوش قسمتی یہ ہے کہ اسے ہر وقت کوئی نہ کوئی سرپرست بھی مل جاتا ہے۔ پہلے امریکہ تھا اور اب چین ۔مگر اس سارے کھیل میں نقصان پاکستا ن کے عوام اٹھا رہے ہیں ۔پاکستانی عوام پاک فوج کی جنگجویانہ پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف غربت کے ساتھ ساتھ صحت تعلیم اور صاف پانی جیسی بنیادی سہولتوں ے محروم ہیں بلکہ فرقہ وارانہ قتل و غارت اور خودکش حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔

ریمنڈڈیوس کی کتاب پڑھ کر ایک بار پھر پروفیسر اقبال احمد کی وہ بات یاد آجاتی ہے جو انہوں نے پاک فوج کے متعلق کہی تھی ۔وہ لکھتے ہیں کہ پاک فوج کی تربیت بہت شاندار ہے ، ان کے افسروں کو دنیا کی بہترین جنگی حکمت عملیاں بھی ازبر ہوتی ہیں اور جب ان سے گفتگو کی جائے تو وہ جنگی امور سے متعلق ایسے ریفرنس دیں گے کہ بندہ ان کی قابلیت پر رشک کرتا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ ان میں تجزیہ کرنے کی صلاحیت مفقود ہے ۔ دوسرا المیہ یہ ہے کہ وہ ایسے کسی فیصلوں سے وہ سبق بھی حاصل کرنے کو تیار نہیں ۔ 

ریمنڈڈیوس سفارت کار کے روپ میں ایک امریکی جاسوس تھااور آئی ایس آئی کو اس کی سرگرمیوں کاعلم بھی تھا ۔ وہ پشتو بھی جانتا تھا اور مختلف جہادی تنظیموں سے رابطے میں بھی تھا۔ آئی ایس آئی نے اس کو ٹریپ کرنے کے لیے ایک جال بچھایا جس میں وہ خود ہی پھنس گئی۔ ریمنڈ ڈیوس نے جن دو افراد کو گولی ماری تھی وہ بنیادی طور پر آئی ایس آئی کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اس کا پیچھا کر رہے تھے اور مزنگ چونگی کے قریب اشارے پر جب ٹریفک رکی تو دونوں نوجوان موٹر سائیکل سے اترے اور پستول سے اس کی طرف نشانہ باندھا لیکن ریمنڈ ڈیوس ایک تربیت یافتہ جاسوس تھا اور اس نے فوری طور پر خطرہ محسو س کرتے ہوئے اپنے جدید ترین پستول سے (گاڑی کے اندر سے ہی ) نشانہ باندھ کر دونوں نوجوانوں کو وہیں قتل کر دیا۔

اگر معاملہ یہیں ختم ہو جاتا تو کوئی ہنگامہ نہیں ہونا تھا مگر آئی ایس آئی نے اس قتل کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ پاکستان کا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا امریکی جاسوس پر لعنت ملامت کرنے لگا ۔ جہادی تنظیموں نے بھی سڑکوں پر احتجاج شروع کر دیا۔ٹی وی میزبانوں نے اپنے پروگراموں میں عدالتیں لگا لیں اور عدالت سے پوچھنا شروع ہوگئے کہ اسے سزائے موت کیوں نہیں دی جارہی۔ آئی ایس آئی کا خیال تھا کہ عوامی احتجاج اور میڈیا ٹرائل کے ذریعے وہ اسے سزادلوانے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔مگر جب امریکی حکومت کا دباؤ بڑھا تو انہیں اپنا ہی تھوکا ہوا چاٹنا پڑگیا۔

مرنے والے دونوں آوارہ منش نوجوان تھے جو چھوٹی موٹی واردتیں کرتے تھے۔ پولیس ہو یا آئی ایس آئی چھوٹے موٹے جرائم کرنے والوں کے ذریعے اپنا مطلب نکالتی رہتی ہے۔ واقعے کے بعد اگلے دو دن تک اخبارات میں ان کی مجرمانہ سرگرمیوں کے متعلق خبریں بھی شائع ہوئی تھیں مگر بعد میں آئی ایس آئی نے انہیں مجرم سے ہیرو بنایا گیا۔

کل کو یہی کچھ کلبھوشن کے متعلق بھی ہونا ہے ۔ کلبھوشن کو بڑی دھوم دھام سے میڈیا کے سامنے پیش کیا گیاپھر خود ہی موت کی سزا سنا دی لیکن جب عالمی عدالت میں سبکی ہوئی تو معافی دینے کے طریقے ڈھونڈے جارہے ہیں۔ دور کیوں جاتے ہیں کارگل پر مہم جوئی کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ کارگل میں مہم جوئی کا فیصلہ فوج کا تھا نہ کہ اس وقت کی جمہوری (نواز حکومت) کا لیکن اس کا ملبہ نواز حکومت پر ڈالا گیا اور سینکڑوں فوجی افسرمروانے کے بعد معافی مانگنے کے لیے نوازشریف کو آگے کر دیااور اسی امریکہ کی منت ترلے کیے جسے صبح و شام گالیا ں دی جاتی ہیں۔ 

یاد رہے کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل مشرف نے لاہور میں واجپائی کو سیلیوٹ کرنے سے انکار کر دیا تھا لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ وہی جنرل مشرف نیپال میں سارک سربراہ کانفرنس میں واجپائی سے ہاتھ ملانے گیا مگر اس نے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا تھا۔

پاکستان کی ستر سالہ تاریخ ایسے ہی واقعات سے بھری ہوئی ہے۔1948 میں سیکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ قبائلیوں کے ذریعے کشمیر فتح کر لیں گے مگر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر1965 میں ایک اور جرنیل نے آپریشن جبرالٹر کی آڑ میں کشمیر فتح کرنا چاہا مگر ایک بار پھر منہ کی کھانی پڑی۔ 1971میں جرنیلوں کاخیال تھا کہ وہ طاقت کے زور پر ’’چھوٹے قد‘‘ کے بنگالیوں کو سبق سکھائیں گے مگر نتیجتاً انتہائی شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑااور نوے ہزار شیر دل جوانوں نے ہتھیار پھینکے۔ کئی سبق سیکھنے کی بجائے افغان جہاد شروع کر لیا۔ کرائے کے فوجی کا کردار ادا کرتے کرتے اس خوش فہمی کا شکار ہوگئے کہ اس نے سپرپاور کو شکست دے دی ہے ۔ اس نام نہاد جہاد نے پاکستانی سماج کے تاروپود بکھیر دیے۔

مگر بات وہیں کی وہیں ہے ان تمام واقعات سے سبق سیکھنے کی بجائے ہم آج بھی 1948 کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

Comments are closed.