جہادی سوداگر حافظ سعید کی کہانی 

یوسف صدیقی

کشمیر میں آ گ بھڑکانے کی ذمہ دار جہادی ملاں حافظ سعید کی ’جہادی سرگرمیاں‘پاکستانی عوام کی نظر میں ہمیشہ متنازعہ رِہی ہیں۔حافظ سعید نے ضیا الحق کے دورِ حکومت میں ’’مرکز الدعوۃ وَلارشاد‘‘کے نام سے ایک جہادی تنظیم بنائی،اُور پاکستانی نوجوانوں کو ساتھ لے کر افغانستان کے ڈالر جہاد میں شامل ہو کر ’جنت ‘ حاصل کر نے لگا ۔جب افغانستان کے ثور ا نقلاب کے خلاف ’ڈالر جہاد ‘ میں حافظ سعید نے شمولیت اختیار کر کے اَپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے تووہ عالمی میڈیا اُور پاکستانی رِیاست کی توجہ کا مرکز بن گیا ۔

جنیوا معاہد ہ کے بعد جب افغان جہاد ختم ہو گیا اور فتح مندی کے لیے حکمت یار ،احمد شاہ مسعوداُور برہان الدین ربانی آپس میں کتوں کی طرح لڑنے لگے تو حافظ سعید نے افغانستان سے نکلنے میں عافیت سمجھی۔حافظ سعید کو اپنے شوق کی مزید آبیا ری کے لیے ایک اُور میدانِ جہاد کی ضرورت تھی ۔دوسری طرف پاکستان فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی ایک ایسے ’جہادی سودا گر‘ کی تلاش میں تھی، جو کشمیر میں عسکری آگ بھڑکا سکے ۔ ایسی صورتحال میں طالب اور مطلوب کا’ مقدس اتحاد‘ وُ جود میں آ گیا ۔جو ابھی تک نہایت کامیابی سے قائم و دائم ہے ۔

حافظ سعید نے بدلتے ہوئے حالات کے تحت ایک نئی تنظیم کی بنیاد رَکھی جس کا نا م ’’ لشکرِ طیبہ‘‘ رکھا گیا ۔اِس تنظیم کو بہت تھوڑے عرصے میں پاکستان بھر میں پھیلا دیا گیا ۔افغان جہاد کی وجہ سے معاشرے میں جہادی ماحول تو پہلے ہی بنا ہوا تھا ،مزید ستم یہ کہ بھارت مخالف جذبات پرستی نے حافظ سعید کے مشن کو مزید کامیاب بنا دیا ۔حافظ سعید نے اپنے مشن کی تکمیل کے لیے پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں جلسے کیے ۔اور لوگوں میں جہادی جذبات پیداکرنے کی بھرپور کوشش کی ۔ اُور’ غزوہ ہند‘ جیسی رَجعتی لکیروں کو پیٹنے کا سر عام اعلان کیا ۔ حافظ سعید کے کہنے پر جہادی میگزین اور کتب بڑے پیمانے پر شائع کی گئیں۔اِبن تیمیہ اُور اِبن قیم کے بوسیدہ اور فرسودہ ادب کو اَز سر نو شائع کیا گیا ۔

لشکر طیبہ کے پرچم تلے پاکستان کے بہت سے نوجوان کشمیر جاکر ہندوستانی فوجیوں کو واصلِ جہنم کر کے خود جنت میں جانے لگے ۔آئی ایس آئی اور پاکستانی ریاست کی حمایت کی وجہ سے حافظ سعید بہت جلد ایک مضبوط جہادی لیڈر بن گیا ۔حافظ سعید نے کمالِ ذہانت کا ثبوت دیتے ہوئے اَپنی جماعت کو سیاست سے دُور رکھا ۔اُور اِسلامی نظام خلافت کو اپنا ’’منشور ‘‘قرار دیا ۔یوں پاکستانی رِیاست کو اِس بات کا یقین ہو گیا کہ یہ آدمی، رجعتی ملاں قاضی حسین احمد اُور دِیگر رَجعتی عناصرکی طرح ’سیاسی تناو‘ پیدا نہیں کر ے گا ۔لشکر طیبہ کی سرگرمیاں زور شور سے جاری تھیں کہ قاضی حسین احمدنے بھی ان کی دیکھا دیکھی ’حزب المجاہدین ‘نامی ایک جہادی تنظیم بنا دی ۔اسی وقت جیش محمد نامی ایک گرو بھی سر اٹھانے لگا ۔اور پھر حرکت المجاہدین نامی ایک گرو بھی کشمیر کو فتح کر نے کے لیے میدان عمل میں آ گیا ۔ 

یہ ’جہادی ڈرامہ ‘ قسط وار جاری تھا،اورنواز حکومت کی رجعتی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستا ن ’جہادی دنیا‘ کا ایک اہم کھلاڑی بنا ہوا تھا ۔دُنیا بھانت بھانت کے جہادی اس ’دارالسلام‘‘ میں جمع ہو چکے تھے۔ اچانک نواز شریف کی حکومت کو پرویز مشرف نے گھر بھیج دیا تو کچھ عرصہ بعد امریکہ میں عظیم سانحہ ’نائن الیون‘ ہو گیا ۔پرویز مشرف نے پاکستان بچانے کی خاطر ’کڑوا گھونٹ‘پی کر ان جہادی تنظیموں کو ’دہشت گرد‘ قرار دے دیا ۔ پاکستان میں رَجعتی عناصر نے اِحتجاج کیا ۔وہ لوگ جو کشمیر اور افغانستان میں لڑنے کے لیے تیار کیے گئے تھے، خود پاکستانی حکومت کے خلاف لڑنے لگے ۔حافظ سعید نے اِن مخدوش حالات میں اَپنے رِیاستی آقاؤں کی طرف رجوع کیا۔

حافظ سعید کی اِس ’مراجعت‘ کو حکومتی اُور رَیاستی حلقوں نے پسند کیا ۔قومی سلامتی کے ذمہ دار وں نے حافظ سعید کو اپنے تعاون کا یقین دلاتے ہوئے نئی جہت سے کام کرے کا مشورہ دیا ۔حافظ سعید نے رِیاستی سرپرستی میں ’لشکرِ طیبہ‘ کو پاکستان میں تحلیل کر دیا جبکہ اُسے کشمیر میں خون و آگ کا کھیل جاری رکھنے کا حکم دیا ۔پاکستان میں لشکر طیبہ کو ’جماعتہ الدعوۃ‘ کا نام دَے کر کام کو از سرِ نو منظم کیا۔اَب کی بار حافظ سعید ’گھاک‘ ملاں بن چکا تھا ۔اِس نے نئے ملکی اُور بین لاقوامی حالات کے تحت خود کو قابلِ قبول بنانے کے لیے ’’فلاحی‘ ‘ کاموں کا سہارا لیا ۔حافظ سعید کے اِس منصوبے کو 2005کے زلزلے نے دو آ تشہ کیا۔ حافظ سعید نے وَہاں پرقلیل فلاحی کام کروائے اُورجلیل مقاصد حاصل کیے ،تقریباََ زَلزلے کے چار سال بعدتک بھی زکوۃ اُور صدقات پر ہاتھ صاف کر تا رہا ۔یوں حافظ سعید کا نیٹ ورک مزید بڑھ گیا۔ اور پاکستان کی پسماندہ پرتوں میں اِس کی مقبولیت میں رُوز بروز اضافہ ہو نے لگا ۔

سنہ2009میں ممبئی میں لشکر طیبہ کے ایک دہشت گرد اجمل قصاب نے اَپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ’نریمان ہاؤس ‘ میں اَت مچائی، تو پاکستانی حکومت نے اقوام متحدہ کے کہنے پر وقتی طور پر حافظ سعید اُور اُ س کی جماعت الدعوۃ وقتی طور پر پابندی لگا دی ۔حافظ سعید ،امیر حمزہ ،عبد الرحمن مکی ،ذِکی الرحمن لکھوی ،رانا شمشادسلفی وغیرہ جیل میں چلے گئے ۔کچھ عرصہ بعد کمزور حکومتی موقف کے باعث وہ باہر آ کر پھر اپنی سرگرمیاں سرانجام دینے لگے ۔جماعت الدعوۃکا کام بڑھتا گیا ۔پھر انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کہنے پر جہادی و مذہبی جماعتوں کا ایک اِتحاد ’’دفاع پاکستان کونسل ‘‘قائم ہوا۔جماعت الدعوۃ کا اس اتحاد میں مرکزی کردار تھا ۔اِس اتحاد نے پورے پاکستان میں بڑے بڑے جلسے کیے ۔کچھ بے اثر مذہبی جماعتیں اِس اِتحاد کو سیاسی اتحاد بنانے کے چکر میں تھیں مگر ریاستی احکامات کی خلاف ورزی کر نا حافظ سعید اَپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے ،اس لیے سیاسی اتحاد کے راستے میں وہ دیوار بن کر کھڑا ہو گیا ۔اُور یہ اتحاد سیاسی جماعت نہ بن پایا ۔

جب اقوامِ متحدہ کی طرف سے جماعت الدعوہ پر پابندی لگی تو حافظ سعید نے ’فلاحِ انسانیت فاؤ نڈیشن ‘ کے نام سے ایک فلاحی تنظیم بنانے کا ڈول ڈالا ۔اس کے بارے میں پاکستانی ریاست نے کافی عرصہ چپ سادھے رکھی ابھی حال میں ہی اِس کو کالعدم قرار دیا۔ اور حافظ سعید کو دو مہینوں کے لیے نظر بند کیا ہے ۔اِس نظر بندی کے خلاف ہزاروں اِفراد کو مذہبی جماعتیں سڑکوں پر تو نہ لا سکیں ۔تا ہم کچھ سو افراد کو سڑکوں پر لا کرریاست کو مذہبی جماعتیں اَپنے ہونے کا ثبوت دینے کی کوشش کرنے لگیں۔میرا بھی جماعت الدعوۃ سے کسی دور میں تعلق رہا ہے ۔ میں اِس تعلق پرمختصر طور پر روشنی ڈالنا ضروری سمجھوں گا ۔

جماعت الدعوۃ ہارون آباد کا مسؤل ابو طیبہ ہمارے علاقے کا ہی تھا ۔اور یہ ہمارے گاؤں میں آتا رہتا تھا ۔ہمارا گاؤں شہر سے کافی دور تھا ۔ گاؤں کے ماحول میں اخبار نام کی کسی چیز سے ہم گاؤں والے آشنا نہ تھے ۔ابو طیبہ باقاعدگی سے جماعت کے ترجمان رسالے وغیرہ ہمیں دے جاتا ۔ان رسالوں کو پڑھ کر کم از کم میرے اندر تو کشمیر جا کر’’ شہید ‘‘ہونے کی تمنا پیدا ہو گئی تھی ۔جماعتہ الدعوۃ کے مسؤل کے ساتھ رابطہ اتنا بڑھ چکا تھا کہ وہ ہمیں جماعت کے مرکز میں لے کے جانے کی کوشش کرنے لگا ۔تاہم گھر والوں نے اس کی اجازت نہیں دی۔

ابوطیبہ کا موقف تھا کہ مرکز طیبہ میں ایک تربیتی پروگرام ’’دورہ صفہ ‘‘ کے نام سے ہو تا ہے ۔میں نے ان کے رسالوں میں سے پڑھ رکھاتھا کہ جو شخص بھی دورہ صفہ کرتا ہے و ہ آج تک واپس نہیں آیا ۔یعنی کہ دورہ صفہ کرنے والا فرد کشمیر جاکر شہید ہوجاتا ہے یا افغانستان میں چلا جاتا ہے ۔میرے گاؤں میں ایک شبیر ضیاء نامی شخص رہتا تھا ۔یہ اس جماعت کا اولین کارکن تھا ۔یہ اہلحدیث بھی تھا ۔اس نے جہادی تربیت بھی حاصل کی ہوئی تھی ۔یہ بہت چالاک انسان تھا، کشمیر میں جہاد کر نے تو نہیں گیا ،تاہم اس نے’’بیس کیمپ‘‘ مظفر آباد سے تین رائفلیں ’’چوری‘‘ کر لیں ۔ظاہر ہے یہ کمال کا کام تھا ،کیونکہ ’’چوروں ‘‘کو ’’موروں‘‘ نے پہلی دفعہ لوٹا تھا۔علاوہ ازیں عشر کی گندم بھی شبیر صاحب گھر میں ہی رکھ لیا کر تے تھے ۔

اس طرح جو لٹر یچر ہمیں پڑھنے کے لیے دیا جاتا تھا، اس میں تذکرہ شہدا کے عنوان سے بھی ایک باب ہوتا تھا ۔اُور اِس باب میں شہید ہو نے والے مجاہدین کے جعلی وصیت ناموں اور جعلی کارناموں کی بھرمار ہوتی تھی۔ اور اسی طرح اَمیر صاحب غائبانہ نماز جنازہ پڑھانے میں اتنی دلچسپی لیتے تھے کے غائبانہ نماز جنازہ کے اشتہار بہت دورکے علاقوں میں بھی لگا دیے جاتے تھے ۔کچھ ’’حنفی ‘‘ جب نماز جنازہ پڑھنے آتے تو وہ میت کا چہرہ دیکھنے کا مطالبہ کر تے ۔ایسے موقع پر جماعتہ الدعوۃ والوں کوسوائے شرمندگی کے کچھ نہ ملتا ۔ اور پھر جماعت کے لوگ زکوۃ پر ایسے ہاتھ صاف کر تے ہیں کہ اگر ہم ڈاکٹر عاصم حسین کے ہاتھ کی صفائی کا موازانہ مسؤل بھائی کی ’’کرپشن‘‘ سے کریں تو میرے خیال میں عاصم حسین کے جرائم ماند پڑ جائیں گئے۔

سلف صالحین کے مسلک کو حق ثابت کرنے کے لیے کئی بار ہم نے ’’مار‘‘ کھائی ۔اونچی آمین جس کو وھابیوں کی اصطلاح میں’’ آمین بالجہر‘‘ کہتے ہیں ،اس کو ثابت کر نے کے لیے گھنٹوں بحث ہو تی ۔اسی طرح رفع الیدین،فاتحہ خلف الاامام ،تقلید اور دیگر امور پر بحثیں جاری رہتیں۔ افسوس ہورہا ہے آج کے میں نے اپنی زندگی کا ایک حصہ ان کاموں میں گزار لیا ۔میں نے وقت ضائع کیا ۔اور مجھے کیا ملا؟ سوائے اس چیز کے کہ آج میں پچھتا رہا ہوں۔اور پھر جوہر ٹاؤن میں دو بڑی بڑی کوٹھیاں جس میں آج کل حافظ سعید نظر بند ہے ۔یہ سب صدقات اور زکوۃ کی رقم سے بنی ہوئی ہیں ۔ مرکز طیبہ مرید کے ،مرکز بد ر پتوکی ،مرکز یرموک شیخوپورہ اور مرکز القادسیہ چوبرجی لاہور پر لگی رقم کا حساب لگایا جائے تو یہ ر قم کروڑوں میں نہیں بلکہ اربوں میں بنے گی ۔

ظاہر ہے یہ اثاثے پاکستانی عوام سے مانگے گئے پیسوں اور پاکستانی ریاست کی امداد سے بنائے گئے ہیں۔دو تین سال ہو گئے ہیں جماعۃ الدعوۃ کے اسکولز کے لیے بھی حکومت پنجاب نے پانچ کروڑ کے قریب فنڈ رکھے تھے ۔جو اس بات ثبوت ہے کہ جماعت کا موجودہ حکومت سے کتنا تعلق ہے ۔ویسے میں نے مسؤل بھائی سے تعلق ہونے کی بناء پر جماعت کے آرگن’’مجلہ الدعوۃ‘‘ کے اُنیس سو اسی کے شماروں کا بھی مطالعہ کر لیا تھا ۔جس کی وجہ سے کم از کم ہمارے قریبی جماعت والے تو مجھے پکا وہابی سمجھنے لگے تھے ۔اور میں نے جماعت کے حوالے سے بہت سی معلومات اکھٹی بھی کر لی تھیں ۔بہرحال یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ حافظ سعید کے پاکستانی رِیاست کے ساتھ تعلقات سمندر کی گہرائی کی ماند گہر ے ہیں۔ رِیاستی اہلکاروں کی گفتگو میں اِس کا’’ امیر محترم‘‘ کے نام سے ذ کر کیا جاتا ہے ۔

حافظ سعید کو بھارت کی ’شیو سینا ‘ کے مقابلے میں پاکستانی ’مجاہد‘ بنا کر رَکھنا ،اب پاکستانی ریاست کی مجبوری بن چکی ہے ۔وِکی لِیکس کے انکشافات میں یہ بات بھی لکھی ہو ئی تھی کہ ’’ شہباز شریف نے لشکر طیبہ کو پابندیوں سے آگاہ کیا تھا ‘‘ ۔اِس لیے نواز شریف جو ایک رجعتی اتحاد ’’ اسلامی جمہوری اتحاد‘‘ کا سربراہ بھی رَہ چکے ہیں۔ اِس کی حکومت میں جماعت الدعوۃ ’ ’چوبرجی‘‘ سے نکل کر پنجاب یونی ورسٹی کے کلاس روموں میں جا چکی ہے ۔کٹر مذہبوں کے پیروکا ر عربی وہابی بھی اس جماعت کے پشت پر ہیں۔ان تمام موضوعات پر قومی میڈیا میں بات کرنا اب فضول ہے۔ہر جگہ رجعتی عناصر نے اپنی جگہ بنائی ہوئی ہے ۔

یوم یکجہتی کشمیر کے دن حافظ سعید کے اور اس کی جماعت کی خبروں اور مضمونوں سے اخبارات بھرے ہوئے ہوتے ہیں ۔گویا تمام میڈیا اس جماعت کا ترجمان ہو ۔اور حافظ سعید کے متعلق لبرل خیالات میڈیا شائع کر نے سے انکاری ہے ۔اس وقت حافظ سعید کی جماعت پر پابندی ہے لیکن اس کی جماعت کے دَرمیانے دَرجے کے ’’ مُسؤل بھائی ‘‘ ہر گلی اور محلے میں اَپنے رَجعتی نظریات کی تبلیغ کر رَہے ہیں ۔اِن کو کوئی رُوکنے وَالا نہیں ہے ۔

لیکن پاکستان کے عوام کی اکثریت آج بھی حافظ سعید کے کارناموں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتی ۔حافظ سعید کی برپا کردہ تحریک کے نتیجے میں کئی گھرانوں کے نوجوان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔حافظ سعید کا اپنا بیٹا جماعت شعبہ خارجہ امور کا چیرمین ہے لیکن حافظ سعید نئی بھرتیوں کو کشمیر میں بھیج کر پیسہ کمار ہا ہے ۔حافظ سعید جیسے نظریات رکھنے والوں کو بے دست و پا کیے بغیر حقیقی تبدیلی ممکن نہیں ہے ۔ جہادی فصل کے خلاف تحریک جاری ہے ،منزل دور نہیں ہے !!!!۔

5 Comments