آٹھ اگست۔ اک نسل خاک میں مل گئی

حبیب وردگ

ایک صدی کی جمع پونجی کو ایک لمحے میں ناپاک ارادوں کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ریاستی دہشت گردی کا ایک آلہ کار مردار خور، غلیظ اور فرسٹریٹڈ اپنے اندر کی بے چینی اور زندگی کی حقیقت سے فرار کے چکر میں ہمارا سرمایہ لے اڑا۔ ستر حوروں کی ہوس میں اپنی بے معنی زندگی کو ایک بدرنگ اور بدنما سا مقصد دے کر خود کو تو ایک مخصوص ٹولے میں سرخرو کر گیا اور ہمیں ایک ایسا نہ پر ہونے والا خلا دے گیا ہے کہ شاید صدیوں بھی بھر نہ سکے۔

صدیوں کی محنت اور لگن سے ہم نے یہ ہیرے تراش رکھے تھے کتنی مشکلوں سے ایک ایک بندہ یہاں تک پہنچا تھا ایک ایسا صوبہ جس کی تین لاکھ سینتالیس ہزار مربع کلومیٹر زمین پر صرف ایک سرکاری لاء کالج ہو اور وہاں سے نکل کر لوگ سپریم کورٹ کے وکیل بنے اور بار ایٹ لاء کریں اور سب سے بڑھ کر معاشرے کو ایک روشن فکر اور خیال دے اور آپ نے انکو ایک گندی سوچ اور بارود سے لیس ایک دو کوڑی کے مردار خورجس کی نہ سوچ اپنی ہے نہ فکر بلکہ ایک زندہ لاش ہے سے ایک لمحے میں ڈھیر کردی اور سب کچھ اجاڑ دیا۔

ہم سب اس دو کوڑی کے ذہنی طور پر مردہ یا ہیپناٹائزڈ انسان کے پیچھے لگےہیں جب کہ اصل طاقت اس کے پیچھے جوسوچ و فکر کارفرماں ہے اس پہ کوئی بات نہیں کرتا جن کو نہ جنت سے سروکار ہے نہ دوزخ سے بجائے اپنے مقاصد کے۔ اورجو ریاستی بیانیہ ہے وہ بھی ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے لیے ہے کہ سب را نے کیا ہے۔ اور جب تھوڑا بہت کوئٹہ انکوائری رپورٹ میں کوتائیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی ہوئی تو اسکو ایسے دبا لیا کہ پتہ ہی نہیں چلا۔ اور ہم بے ضمیر اور مردہ لوگ کوئی بھی اٹھ کہ یہ سوال نہیں کرتا کہ کیوں، کیا، کیسے ہوا؟ ہم ہی کیوں؟ ہمارا سرمایا ہی کیوں؟ ہماری نسل ہی کیوں دے قربانی؟ ایک لمحے کے لیے مان بھی لے کہ را کی کارروائی تھی تو پھر بھی گریبان تمھارا ہی پکڑیں گے لیکن پکڑے گا کون یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا کوئی جواب نہیں۔

دنیا میں جو قومیں زندہ ہوتی ہیں ان کے ساتھ کبھی آٹھ اگست یا پھر سولہ دسمبر یا پھر تیرہ اپریل جیسے واقعات نہیں ہوتے کیونکہ وہ پہلے ہی واقعے پہ اسکا تدارک کر لیتے ہیں۔ کوئٹہ میں جس دن لا کالج کے پرنسپل بیرسٹر امان اللہ اچکزئی کو شہید کیا گیا اگر اس دن ہم کور کمانڈر کے ساتھ فوٹو سیشن کرنے کے بجائے پرامن احتجاج سے پورے صوبے کو جام کرتے اور اصلی دشمن کی نشاندہی کرتے جو کہ سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی کر بھی سکتے تھے تو شاید آٹھ اگست کا واقعہ نہ ہوتا لیکن بد قسمتی سے ہم اس حادثے کو بھانپ نہ سکے اور اسکو ایک حادثہ ہی سمجھ کے اپنی اپنی ذمہ داری فوٹوسیشن کے حد تک پوری کی۔ اصل میں وہ حادثہ نہیں ایک پائلٹ ٹیسٹ تھا، جس پر آٹھ اگست کی پلاننگ اور پلاٹنگ کی گئی۔

ہماری وکلا برادری بے ادبی بہت معاف اپنے بھائیوں کے خون پہ تو پتہ نہیں کیوں خاموش ہو گئے ہیں اور پانامہ کا پاجامہ پہن کر پتہ نہیں کس کو خوش کر رہے ہیں۔ عدلیہ کی آزادی کے نام پہ جان بھی دی اور عدلیہ آزاد بھی کیا تو کس کے لیے صرف جوڈیشل مارشل لاء کیلئے؟ کیا آٹھ اگست کا واقعہ انکے لیے اس چوہدری افتخار کی بحالی سے کم اہمیت کا حامل تھا۔ جس چوہدری کو بحال کرانے کے لیے وکلاء نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

اسی صاحب نے اس بارہ مئی کے واقعہ پہ کوئی سوموٹو ایکشن تک لینا گوارا نہ سمجھا نہ ہی وکلاء برادری میں کوئی غیرت آئی کہ کوئی جا کے کیس ہی کرتا۔ اور ایسا ہی ہوا کوئٹہ کے کیس میں انکوائری رپورٹ انے کے بعد بھی سب اتنی جلدی خاموش ہوئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور ایک سال بعد سب سے سرگرم وہ ہے جو تعزیتی ریفرنسز اور شمعیں روشن کرے باقیوں کو تومحمود خان اچکزئی کو سچ کہنےپر برا بلا کہنے اور عاصمہ جہانگیر کو حق کی بات کرنے پر گالیاں دینی اور اسکو شرمندہ کرانے اور راہ راست پہ لانے سے فرصت نہیں۔

آٹھ اگست کے واقعہ کوئی عام واقعہ نہیں صدیوں میں ایسے لوگ تیار ہوتے ہیں کس کس کا نام لے کے سوگ کریں کس کس کے یادوں کو بھلائیں گے، کس کس کے لیے روئیں کس کا نام لیکر فریاد کرے وہ آٹھ اگست کی صبح قیامت نہیں تو قیامت سے کم بھی نہیں تھی۔ ان شہیدوں میں سب سےزیادہ غنی جان اغا، منیر مینگل، عدنان کاسی اور باز محمد کاکڑ کے ساتھ ایک طرح سے براہ راست واسطہ تھا اور باقی سب سب سے کوئی نہ کوئی تعلق تھا۔

عدنان سے تو کچھ دن پہلے ہی بات ہوئی تھی اور غنی جان تو ڈاکٹر صاحب کی محفل کی جان تھے اور شام کوان کے انداز گفتار اور طنزومزاح سے دن بھر کی تھکن سے ایک ریلیف سا مل جاتا۔ اس دن ایک دوست وکیل کو فون کر کے بات کی تو وہ کہتا ہے سب کچھ اجڑ گیا میں نے کہا شکر ہے تم نہیں تھے کوئٹہ میں تو کہتا ہے کیا فرق پڑتا ہے جو ہماری کریم تھی وہ تو سب چلی گئی ایک میرے ہونے نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ میں جن کا نام جانتا تھا ان میں بمشکل ہی کوئی ایسا نام ہو جو زندہ بچ گیا ہو۔

اس سے بڑھ کر کوئی کیا مارے گا اور اس پر یار لوگ مشورہ یہ دیتے ہیں کہ ریاست کا نام نہ لیں کیسے نہ لیں ہم ریاست کا نام ریاست تو ماں کے جیسی ہوتی ہے بشرط کہ ریاست اپنی ہو لیکن یہاں تو ریاست سوتیلے سے بھی بڑھ کر ہمارے ساتھ سلوک کر رہی ہے اور اس پر ہمیں کہتا ہے کہ چین کے سی پیک کا دشمن انڈیا ہمارے وکیلوں کو سول ہسپتال کوئٹہ میں مارنے آیا تھا جس کا ہماری نمبر ون ایجنسی کچھ نہ بگاڑ سکی۔

ہم سب اگر اس واقعے کے ذمہ دار نہیں تو خود کو بری الذمہ بھی قرار نہیں دے سکتے کیونکہ اس میں شامل ہے ہماری بے بسی، کمزوری، کوتا ہی اور سب سے بڑھ کر نامردی جس سے ہم ذمہ داروں کا گریبان پکڑنا تو دور کی بات ان سے یہ سوال پوچنے کی جسارت بھی نہیں کر سکتے کہ آخر کب تک دنیا کی پراکسی وار ہمارے زمین کا مقدر بنی رہے گی اور آخر کب تک یہ کشت و خوں کا کھیل چلے گا۔ کیا ہم ہی ملے ہیں آپ کو اپنی بات منوانے کے لیے۔

Comments are closed.