اکبر بگٹی

لیاقت علی

گیارہ سال قبل ایک فوجی آپریشن میں بلوچستان کے چوتھے گورنر اور چھٹے وزیراعلی نواب اکبر خان بگٹی کو ان کے بتیس ساتھیوں سمیت قتل کر دیا گیا تھا۔یہ ایک ناقابل معافی جرم ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کو ان کے کیے کی سزا ضرور ملنا چاہیے۔

نواب اکبر بگٹی سیاست دان سے زیادہ قبائلی سردار تھے۔ وہ اکھڑ، ضدی اور ناقابل مصالحت رویوں کے حامل تھے۔ سیاست ان کے لئے عوامی خدمت کی بجائے قبائلی عصبیت اور تعصب کی تسکین کا ذریعہ تھی۔ ایچیسن کالج کے تعلیم یافتہ بگٹی پاکستان سول سروس کے پہلے بیج میں شامل تھے لیکن انھوں نے کوالیفائی کرنے کے باوجو د سول سروس جائن نہیں کی تھی۔ وہ ایوب خان کے مارشل لا سے قبل تشکیل پانے والی ری پبلیکن پارٹی کی حکومت میں مرکزی وزیر مملکت برائے دفاع تھے۔

ان کا غیر جمہوری اور قبائلی کردار اس وقت سامنے آیا جب مئی 1972میں بلوچستان میں عطااللہ مینگل کی قیادت میں صوبائی حکومت قائم ہوئی۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ قیام پاکستان کے بعد بلوچستان میں یہ پہلی منتخب حکومت قائم ہوئی تھی۔بھٹو کو یہ گوارا نہیں تھا کہ صوبوں میں اقتدار منتخب نمائندوں کو ملے۔ انھوں بہت زیادہ ردو کد کے بعد صوبہ سرحد اور بلوچستان میں نیپ اور جمعیت کی مخلوط حکومتیں بنانے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔

جونہی یہ حکومتیں بنیں بھٹو اور ان کے وزیر داخلہ قیوم خان نے ان دونوں حکومتوں کو عدم استحکام سےدوچار کرنے کے ایک مربوط منصوبے پرعمل درآمد شروع کردیا۔ صوبہ سرحد میں کسان تحریک کے نام پر صوبائی حکومت کے خلاف کاروائیاں شروع کیں۔ معراج محمد خان اور طارق عزیز نیپ اور جمعیت کی حکومت کو خوانین اور جاگیرداروں کی حکومت کو قرار دیتے اور اسے ہٹا کر مزدرووں کسانوں کی حکومت قائم کرنے کے لئے صوبہ سرحد میں جلسے جلوس کیا کرتے تھے۔

جب کہ بلوچستان میں پٹ فیڈر کے علاقے میں وفاقی حکومت کی ایما پر شورش بر پا کرائی گئی۔ بلوچستان میں پختونوں اور بلوچوں کے مابین لڑائی کرانے کے لئے نادیدہ قوتوں نے عبدالصمد خان اچکزئی کو ان کے گھر میں بم مار کر ہلاک کردیا جب کہ بلوچستان اسمبلی کے پختون ڈپٹی سپیکر مولوی شمس الدین بھی قتل کردیے گئے ان کاروائیوں کا مقصد یہ تھا کہ بلوچستان کے پختونوں اور بلوچوں کے مابین تنازعات اور تضادات کو تیز کیا جائے کیونکہ ان دونوں قومیتوں کے مابین اچھے تعلقات ان قوتوں کے لئے مفید نہیں تھے جو بلوچستان کو اپنے انگوٹھے کے نیچے رکھنے کے خواہاں تھیں ۔

اس ساری صورت حال میں بلوچستان میں غیر جمہوری قوتوں کو سب سے بڑی مدد اور حمایت نواب اکبر بگٹی نے فراہم کی تھی۔وہ پورے ملک میں شہر شہر جاکر جلسوں میں کہا کرتے تھے کہ عطا اللہ مینگل کی حکومت بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنا چاہتی ہے اور بلوچستان کے تحفط کے لئے ضروری ہے کہ مینگل حکومت کو بر طرف کیا جائے اپنے اس مشن میں بگٹی کو بھٹو اور قیوم خان کی مکمل حمایت حاصل تھی۔

انہی دنوں اکبر بگٹی نے لندن پلان کا انکشاف کیا تھا جو ان کے نزدیک پاکستان کو توڑنے کی سازش تھی اور جس میں نیپ کی قیادت بالعموم اور بلوچستان کی حکومت اور نیپ قیادت بالخصوص ملوث تھی۔ عراقی سفارت خانے سے اسلحے برآمدگی کےڈھونگ میں بھٹو کے ساتھ ساتھ بگٹی بھی شامل تھے۔

جب بھٹو نے مینگل حکومت کو بر طرف کیا تو بگٹی بلوچستان کے گورنر بن گئے وہ گیارہ ماہ تک بلوچستان کے گورنر رہے۔ ان کے دور میں بلوچستان میں تاریخ کا بدترین فوجی آپریشن ہوا جس پر انھوں نے کبھی کوئی احتجاج نہ کیا۔ اسی دوران بھٹو نے نیپ پر پابندی عائد کی اور نیپ کی ساری قیادت کو گرفتار کرکے بغاوت کا مقدمہ بنادیا جسے عام طور پر حیدر آباد ٹریبونل کیس کہا جاتا ہے۔

چار سال تک نیپ قیادت، حبیب جالب اور معراج محمد خان حید ر آباد جیل میں پابند سلاسل رہے۔ بلوچستان کو آج جن مسائل کا سامنا ہے ان کو الجھانے اور پےچیدہ کرنے میں اکبر بگٹی نے رول ادا کیا ہے۔ ان کی ہلاکت کا ماتم اپنی جگہ لیکن انھوں نے بلوچستان کی سیاست میں جو غیر جمہوری اور ایسٹیبلشمنٹ کے کارندے کو رول ادا کیا اس کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔

One Comment