جعلی سکالرز اور وظیفہ خور صحافی

فیض کاکڑ

ڈاکٹر عامرلیاقت جو اپنے حرکتوں بشمول طنز، بہتانوں، پیروڈیوں اور لطیفوں کی وجہ سے سے کافی شہرت رکھتے ہیں کبھی کبھار پروپیگنڈا اور کردار کشی میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ کسی ایک لسانی گروہ یا قبیلے کو لیبل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔

چند دن پہلے بول ٹی وی پر اپنے پروگرام میں تعصب پرستی کی انتہا کرتے ہوئے عائشہ گلالئی کے پورے قبیلے کو چور اور ڈاکو قرار دیا۔ چونکہ وہ خود ساختہ ڈاکٹر بھی ہے لہذا اکثر اوقات لوگوں کو تحقیق کے نام پر ٹرخاتے بھی رہتے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں جھوٹ چھپانا انتہائی مشکل کام ہے۔

عائشہ گلالئی کے قبیلے سے متعلق انہوں نے اپنے پروگرام زور دے کر کہا کہ آج وہ جو کچھ دکھانے جارے رہے ہیں وہ ان کے اپنے الفاظ نہیں بلکہ برٹش گزٹیر میں ہے انہوں نے اپنا جرم چھپانے کے لئے یہ بھی کہا کہ سارے پٹھان اس طرح نہیں ہے بلکہ صرف گلالئی کا قبیلہ اس طرح ہے۔ پھر انہوں سکرین پر بڑٹش گزٹیر سے لئے گئے مواد کا اردو ترجمہ سکرین پر بھی دکھایا جو کہ اس طرح تھا۔

گلالئی قبیلے کے صفات و عادت‘ (ترجمہ)۔

سنہ1927 میں شائع شدہ برٹش گزٹیر میں گلالئی قبیلے کی صفات و عادات پر کچھ روشنی ڈالی گئی ہے جو کہ پیش خدمات ہے۔

گلالئی وزیر پٹھان قبیلے کی ایک شاخ ہے اور گلالئی پٹھان دھوکے بازی اور مکاری کے لئے خاص طور پر مشہور ہیں۔ اور سامان کی خرید وفروخت کے وقت تاجروں کو دھوکا دینے، لوٹنے اور مال چوری کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔

برٹش گزٹیر سے لیے گئے اس معلومات کے روشنی میں انہوں نے کہا کہ90 سال پہلے انگریزوں نے جو گلالئی قبیلے کے بارے میں لکھا تھا وہ آج بالکل درست ثابت ہوا۔ دوسرے الفاظ میں ان کے مطابق عائشہ گلالئی سے یہی توقع کی جا سکتی ہے کیونکہ ان کے سارے قبیلے کے لوگ چور اور دھوکے باز ہیں۔

عامر لیاقت کے اس بڑے دعوی کو مختلف زاویوں سے جانچنے کی ضرورت ہے۔ پہلا، اپنے پروگرام میں عامر لیاقت نے کچھ کہا اور دکھایا کیا وہ معلومات واقعی برٹش گزٹیر میں ہے؟ دوسرا، اگر فرض کریں انگریزوں نے سچ مچ میں گلالئی قبیلے کے خلاف اس طرح لکھا تھا تو کیا پھربھی تحقیقی اصولوں کی روشنی میں اسےحقیقت مان لیا جا سکتا ہے؟ اور تیسرا، ایورپینزکیوں کر نو آبادیاتی اقوم کے بارے میں اس قسم کی زبان استعمال کرتے تھے؟

اب مندرجہ بالا تینوں سوالوں کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ پہلو سوال یہ کہ عامر لیاقت نے اپنے پروگرام میں جو کچھ کہا اور دکھایا کیا وہ سچ بھی ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے، برٹش گزٹیر دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کیونکہ پٹھانوں میں کوئی گلالئی نام کا قبیلہ سرے سے موجود ہی نہیں تو برٹش گزٹیر میں گلالئی قبیلہ سے متعلق یہ معلومات کس طرح سچ پر مبنی ہوسکتی ہے؟

لگتا ہے کہ عامر لیاقت نے محض اندازہ لگایا تھا کہ عائشہ نام ہوگا اور گلالئی ان کا قبیلہ۔ جس طرح ملالہ نام ہے اور یوسفزئی ان کا قبیلہ۔ حالانکہ گلالئی قبیلہ نہیں بلکہ لڑکی کا نام ہے۔ والٹیئر نے خوب کہا تھا

common sense is a sense which is not so common.

اتنا بڑا پروپیگنڈا کے لئے وہ کام از کم اتنا معلوم کرنے کی زحمت تو کرتے کہ کیا گلالئی لڑکی کا نام ہے یا قبیلے کا نام ہے؟ در حقیقت عائشہ گلالئی کا قبیلہ وزیر ہے لہذا عامر لیاقت کی تحقیق کی روشنی میں وزیر قبیلے کے سارے لوگ چور اور ڈاکو ہوئے۔

دوسرا سوال یہ کہ فرض کریں انگریز سچ میں گلالئی کے قبیلے کے بارے میں ایسا دعوی ٰقلم بند کرتے تو تحقیقی اصولوں کے مطابق اس دعویٰ کی حیثیت کیا ہوگی۔ اگر عامر لیاقت تعصب نہیں کرتے یا وہ تحقیق کی اے بی سی سے بھی واقف ہوتے تو اتنا بڑا دعوی ٰہر گز نہ کرتے۔

مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ انہوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کس طرح کی؟ میرے خیال میں ان پر جعلی ڈگری کا الزام سچ لگتا ہے۔ سوشل سائنس کی ریسرچ میں کوئی بھی نتیجہ حتمی اور مکمل طور معروضی نہیں ہوسکتا کیونکہ نیچرل سائنس کے برعکس معاشرتی سائنس لیبارٹریوں میں نہیں بلکہ انسانی معاشروں میں کی جاتی ہے۔ انسانی معاشرے، نظام اور اوررویے نہ صرف پیچیدہ بلکہ تغیر پذیر اور زمان اور مکان سیاق و سباق کے حساب سے ایک دوسرے سے مختلف بھی ہوتے ہیں۔

ایک معاشرے کے تحقیقی نتائج کا اطلاق دوسرے معاشرے پر اور ایک دور کا دوسرے دور پر نہیں ہوسکتا صرف دور اندیش لیے جاسکتے ہیں۔سوشل سائنس ریسرچ میں دوسرا چیلنچ یہ بھی ہے کہ ریسرچر خود بھی سوشل ایکٹر ہوتا ہے۔ اس کے اپنے نظریات، خیالات اور تجربات اس کی تحقیق کو شعوری اور غیرشعوری طور پر متاثر کرتے ہیں۔

مابعد جدیدت کے محقیقین کے مطابق سوشل سائینس ریسرچ کے تنائج معروضی حقائق نہیں بلکہ محقق کے اپنی ذاتی تشریح ہوتی ہے۔ لہذا پھر بھی اگر کوئی ڈاکٹر صرف ایک ریفرینس کی بنیاد پر اتنا بڑا دعوی کرتا ہے تو وہ صرف سٹریوٹائپنگ کرتا ہے جس کی بنیاد ہمیشہ تعصب اور نفرت ہوتی ہے یا وہ تحقیق کی اصولوں سے بالکل نا آشنا ہے۔

تیسرا سوال یہ کہ کیوں کر یورپینز نو آبادیاتی اقوم کے بارے میں اس قسم کی زبان استعمال کرتے تھے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے نوآبادکاریت کی تاریخ اور سیاست کے بارے میں سیاسی شعور رکھنا لازمی ہے جسے عامر لیاقت محروم لگتے ہیں ورنہ شائد وہ اتنا بے بنیاد دعوی کبھی نہ کرتے۔ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ یورپینز نے صرف اسلحے کے زور پر دنیا کو زیر نہیں کیا بلکہ انہوں نے ادب، سیاست اور ڈسکورس یعنی علم پر اجارہ داری سے بھی اتنا ہی کام لیا جتنا بندوق اور بارود سے ۔

نوآبادکاریت کے تناظر میں علم اور طاقت کے درمیان تعلق کو سمجھنے کے لیے ایڈورڈ سعید کی کتاب اورینٹلزم بہترین کتا ب ہے۔ کالونیل آقاوں نے تہذیب کا بیانیہ تراش کرکے خود کو مہذب اور باقی سارے لوگوں کو وحشی اور غیر مہذب قرار دیا جن کو تہذیب سکھانا انہوں نے اپنی اخلاقی فرض سمجھا۔ چونکہ تاریخ اور ادب پر صرف ان کی اجارہ داری تھی لہذا انہوں نے اپنے مفادات اور تعصبات کے مطابق ادب اور تارٖیخ کو تخلیق کرنا شروع کیا جس میں انہوں نے اپنے مظالم اور لوٹ مار کو چھپایا اور باقی دنیا کو غیرمہذب اور جاہل دکھایا خاص کر ان اقوام کو جنہوں نے مزاحمت دکھائی ۔

فاٹا وہ خطہ ہے جہاں پر قبائل پشتون نے انگریزوں کی بھر پور مزاحمت کی اور کئی خونی معرکوں کے باوجود بھی قبائل پشتون نے کبھی بھی انگریزیوں کے تسلط کو تسلیم نہیں ۔ صرف فقیر ایپی پورے انگریز راج کے لئے درد سر بنے رہے۔ ان حالات میں انگریزوں کے گزٹیر اور ان کے تاریخی اور ادبی کتابوں میں ان قبائل کو کیوں کر اچھے القابات دے جاتے ورنہ متحدہ ہندوستان سے جن لوگوں نے انگریزوں کے ساتھ تعاون کیا تھا ان کو سر کے القابات بھی دیے گئے ۔

لہذا عامر لیاقت اگر نو آبادیات کی تاریخ سے واقف ہوتا یا اگر وہ پشتونوں کی نفرت میں اندھا نہ ہوتا تو وہ ہر گز کسی برٹش گزٹیر کی بنیاد پر پشتونوں کے کسی پورے قبیلے کو چور اور ڈاکو کا لیبل نہیں دیتے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ گلہ کس کیا جائے؟ پاکستان اگرچہ وفاقی ریاست ہے لیکن پھر بھی وہ علاقائی تاریخ، متنوع شناختوں اور قوم خودمختاری کی مخالف ہے اور اس قسم کے جعلی سکالرز اور وظیف خور صحافیوں کی سر پرستی بھی کرتی ہے۔ ورنہ قومی سطح پر دیکھنے والے چینل پر اگر کوئی اس طرح کسی قوم کی تذلیل کرتا اور اس وقوم کی رتی بھر عزت بھی کی جاتی تو عامر لیاقت کو اب نوٹس مل چکا ہوتا کہ وہ جھوٹ دکھانے اور کسی قبیلے کو ڈاکو اور چور کہنے پر فورا معافی مانگیں۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ پشتون اور دوسرے اقوام بھی کالونیل پراجیکٹ کو شعوری اور غیرشعوری طور قبول کر چکے ہیں۔

ان کو ڈکیت اور جاہل کے القابات سننے سے دکھ اور درد بھی نہیں ہوتا کیونکہ اب وہ ذہنی طور طور پر بھی نوآبادی ہوچکے ہیں۔ جس طرح نو انگریزوں نے ادب، تاریخ اور ڈسکورس کے ذریعے متحدہ ہندوستان اوردوسرے خطوں پر پر اپنا سیاسی اور معاشی تسلط قائم کیا اس طرح ریاستِ پاکسان نے بھی قومی تعلیم، مسخ شدہ تاریخ اور قومی بیانئے کے ذریعے پشتونوں، بلوچوں، سرائیکیوں اور سندھیوں کو ایک کالونیل فیڈرش کی چھتری کے نیچے آبادیاتی اقوام بنا دیے ہیں کیونکہ موجودہ سیاسی حالت، معاشی استحصال اور سیکورٹی چیلنچز کے پیش نظر ان اقوام کی سرزمینیں وفاقی یونٹس نہیں بلکہ نوآبادیاتی علاقاجات کی طرح ہیں جہاں پر بندوق کے استعمال کے ساتھ ساتھ ان کو نوآبادیات دور کے القابات بھی یاد دلائے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنے اوقات میں رہے۔

One Comment