محبت اور نفرت

فرحت قاضی

ایک انسان میں اندھا پن اس وقت پیدا ہونے لگتا ہے جب اسے اپنی ہر چیز مکمل دکھائی دینے لگتی ہے
محبت
قانون اور عقیدے کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ اندھے ہوتے ہیں
محبت کی اندھی ہونے کا واضح ثبوت یہ پیش کیا جاسکتا ہے کہ ایک لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے سے عشق و محبت کے دوران مذہب، عقیدہ ، علاقہ اور طبقہ کے تمام امتیاز ات بھلا دیتے ہیں شادی ہوتی ہے معاشی مسائل سر اٹھاتے ہیں تو رفتہ رفتہ ایک دوسرے میں کمی کمزوریاں اور عیوب نظر آنے لگتے ہیں طبقاتی تفاوت ، عقیدہ اور دیگر امتیاز ات بھی محسوس ہونے لگتے ہیں تو توقعات دم توڑنے لگتے ہیں تنقید اور نکتہ چینی شروع ہوجاتی ہے بحث و تکرار کے ادوار چلنے لگتے ہیں اور یہ سب بالآخر طلاق پر منتج ہوجاتے ہیں
یہی حال اندھے عقیدے کا بھی ہوتا ہے
ایک بچہ جس ماحول میں آنکھ کھولتا ہے ماں باپ اور علاقہ کا مذہب، عقیدہ ، روایات ، رسومات ، رواجات اور ثقافت اس کی زندگی کا جزو لاینفک بنتے چلے جاتے ہیں اسے قدم قدم پر اپنی اس تہذیب کی تعریف اور محبت ملتی ہے جس میں حقیقت سے زیادہ مبالغہ ہوتا ہے اس محبت کو مزید شے ملتی ہے تو یہ اندھے عقیدے میں بدل جاتی ہے اس کے ساتھ ہی ساتھ دیگر مذاہب اور عقائد پر تنقید، مخالفت اور نفرت شامل ہوتی جاتی ہے تو اسے یقین کامل ہوجاتا ہے کہ صرف اور صرف وہ اور اس کا عقیدہ ہی سچا اور حق بجانب ہیں
محبت اور عقیدے کی مانند قانون کے حوالے سے بھی ان ہی خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے اور مشہور قول ہے:
’’
قانون اندھا ہوتا ہے‘‘
مگر نفرت کے بارے میں یہ سنا نہیں ہوگا کہ یہ بھی اندھی ہوتی ہے جبکہ سچ یہ ہے کہ یہ بھی اندھی ہوتی ہے اور اسی طرح ہوتی ہے اور یہ حقیقت تب سامنے آتی ہے جب آنکھ جیل کی کال کوٹھڑی کے پیچھے کھلتی ہے
محبت اور نفرت مخصوص ماحول اور حالات میں جنم لیتے اور پلتے پھولتے ہیں یہ پودے عموماً قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کی زمین پر جلدی پیدا اور دیر پا رہتے ہیں ایک بچہ غریب اور فاقہ زدہ خاندان میں آنکھ کھولتا ہے تو افراد خانہ کو ان گنت اور پریشان کن مسائل میں الجھا اور لتھڑا ہوا پاتا ہے وہ ا ن کو بات بات اور فروعی معاملات پر تکرار اور جھگڑے کرتے دیکھتا ہے اس کے ساتھ ہی اس کی چھوٹی چھوٹی تمناؤں کا بھی گلہ گھونٹا جاتا ہے تو اس میں بھی غصہ اور نفرت اپنا گھر بنانے لگتے ہیں یہ احساسات اور جذبات عمر بڑھنے کے ساتھ قد آور بنتے چلے جاتے ہیں
جاگیردارانہ نظام بنیادی طور پر جبر و استبداد پر استوار ڈکٹیٹرانہ نظام ہوتا ہے اس میں انتہا پسندی پرورش پاتی ہے کیونکہ اس میں ادب آداب اور اخلاقیات تنقید کی راہ میں حائل رہتے ہیں بے جا اور بے تحاشہ پابندیاں ہوتی ہیں مسائل اور معاملات افہام و تفہیم اور بات چیت نہیں بلکہ بزور قوت حل کئے جاتے ہیں چنانچہ اس کے سائے میں انتہاپسندانہ محبت ، عقیدہ اور نفرت پلنے لگتے ہیں اسی لئے ان معاشروں سے ہمیں محبت اور نفرت پر مبنی جو کہانیاں ملتی ہیں ان میں بھی یہ دونوں عناصر انتہا پسندانہ شکلوں میں ہوتے ہیں اس کا عملی مظاہرہ ہم آج بھی پاکستان کے چار الگ الگ قو موں میں ملاحظہ کر سکتے ہیں
پختونخوا میں ایک بڑے علاقے کی تاحال قبائلی حیثیت برقرار ہے اس میں بعض مقامات کے حوالے سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ انڈسٹریل زونز ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے زراعت کی صورت حال بھی تسلی بخش نہیں ہے ایک بڑی اکثریت کا ذریعہ روزگار ان کاموں پر مشتمل ہے جن میں سوچ بچار اور سر کھپا نے کی کم ہی ضرورت پڑتی ہے ان عوامل کی موجودگی میں یہاں کے باسی اپنے روزمرہ معاملات اور تنازعات کا حل مل بیٹھ اور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے سے قاصر رہتے ہیں چنانچہ ان کی نظریں زیادہ تر جرگہ مشر ان اور عما ئدین علاقہ یا پھر پولٹیکل ایجنٹ اور دیگر سرکاری افسران پر ٹکی رہتی ہیں جبکہ شہروں میں ہر مسئلہ کے حل کے لئے یہ میڈیا اور عدالتوں سے رجوع کرتے رہتے ہیں کام کی نوعیت اور مسائل کے حل کے لئے ان ذرائع پر انحصار کا نتیجہ ان کے تنازعات میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے 
چنانچہ اسے پھر
’’
ٹوپک ز ما قانون‘‘
بندوق کی نوک کے ذریعے حل کرنے لگتے ہیں
جس سے انتہا پسندانہ نفرت کو مزید تقویت ملتی ہے اور جنگوں کا ایک لامتناہی سلسلہ چل پڑتا ہے یہ جنگ اور جھگڑے خاندان میں باہمی انحصار کو بڑھا دیتے ہیں چنانچہ اسی لئے ہمیں ان معاشروں میں محبت اور نفرت سمیت ہر شے انتہا پسند ا نہ صورت میں ملتی ہے
ایک شخص کہیں پر مہمان بنتا ہے تو میزبان اس سے پوچھے بغیر ہی آگ پر چائے دانی رکھ دیتا ہے اور دس پندرہ منٹ میں سامنے رکھ دیتا ہے
دشمن گھر میں پناہ لیتا ہے تو اس کی حفاظت اپنے ذمے لے لیتا ہے خود مر جاتا ہے حوالے نہیں کرتا ہے
ٹوٹ کر محبت اور ٹوٹ کر نفرت کرتا ہے
محبت اور نفرت میں یہ اندھا پن اس کی رسومات، روایات ، رواجات اور مذہب میں بھی اپنا اظہار کرتا رہتا ہے 
یہ کھیلوں میں بھی ان کھیلوں کو ترجیح دیتا ہے جن میں جارحانہ پن ہوتا ہے
حتیٰ کہ دنیا کے جن مذاہب نے ایسے حالات اور ماحول میں جنم لیا ان میں بھی ان خصوصیات کی جھلک پائی جاتی ہے 
محبت یا پھر نفرت کا اندھا پن ہو یہ ہم سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتا ہے یہ اندھا پن اپنا اظہار مختلف رنگ و روپ میں کرتا رہتا ہے جان کی قربانی پر بھی راضی کرا لیتا ہے یہ قتل بھی کرو اتا ہے اور پھر اسے غیرت کے عین مطابق بھی قرار دیتا ہے یہ کسی بھی چیز کو عقل اور حالات کی کھسوٹی پر نہیں پر کھتا ہے اور آتش نمرود میں بے خطر کود پڑتا ہے
نظریات اور عقائد میں اندھے پن کا ثبوت یہ ہے کہ ایک انسان کو اپنی ذات اور اپنے عقیدے حتیٰ کہ اپنے قبیلے میں بھی کوئی کجی کم زوری دکھائی نہیں دیتی ہے وہ اپنے خول میں قید ہوکر رہ جاتا ہے اسے اپنی ذات، خاندان ، قوم اور ان کی رسومات ، روایات ،رواجات ، عقیدہ اور نظریات میں کوئی قابل تنقید نکات نظر نہیں آتے ہیں جس سے یہ اکملیت( پر فکشن ازم) کے مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے اپنے پر تمام دروازے اور کھڑکیاں بند کر لیتا ہے اور اس زعم میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ یورپ کی ترقی بھی ان ہی کے تصورات اور نظریات کی مرہون منت ہے
پختو نوں کے ماضی قریب پر نگاہ دوڑ ائی جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ برسہا برس اس مریضانہ سوچ میں مبتلا رہے اور یہ بنیادی طور پر ان کے گرد و پیش کے حالات اور ذرائع معاش تھے چنانچہ پشتون علاقوں میں قتل اور دشمنیوں کے سلسلے نسل در نسل چلتے رہتے تھے
پولیس اہلکار
وکلاء
جج اور بالادست طبقہ ان حالات سے مستفید ہوتے رہتے تھے حتیٰ کہ اعلیٰ حکام اور ملک کی دیگر اقوام نے ان کے ناموں کے ساتھ غیور اور غیرت مند لکھ کر ان کی فرسودہ روایات اور پسماندہ سوچ کو قائم دائم رکھا پختونخوا اور خصوصاً اس کے قبائلی بیلٹ کے باسیوں میں اس وقت تبدیلی دیکھنے میں آنے لگی جب آبادی میں اضافہ ہوا تعلیمی ادارے کھلے اور ان کو روزگار اور معاش کے قانونی ذرائع بھی نظر آنے لگے اور یہ پختونخوا سے لے کر کراچی تک سرکاری اداروں میں ملازمت اور تعلیم سمیت دیگر شعبوں کا رخ کرنے لگے ان حالات نے ان کو رفتہ رفتہ احساس دلایا کہ وہ جن موروثی اور آبائی روایات ، رسومات اور نظریات پر لڑنے مرنے کے لئے ہمہ وقت کمر بستہ رہتے ہیں ان میں کمی اور کمزوریاں بھی پائی جاتی ہیں
چنانچہ اب وہ چیزوں اور تصورات کو ایسا نہیں لیتے ہیں جس طرح کہ ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اس کا تعلیم یافتہ نوجوان جان گیا ہے کہ اسے غیور کے نام پر بے وقوف بنایا جاتا رہا ہے اس لئے اب وہ اچھے اور برے میں امتیاز کو کسی اور کی آنکھ اور نقطہ نگاہ سے دیکھنے کی بجائے اپنی آنکھ سے دیکھنے لگا ہے چند برس پہلے اور آج کے پشتون میں یہ اتار چڑھاؤ ان کے رو یوں میں دیکھا جاسکتا ہے
کل اپنی بچی کو سکول بھیجنے والے کو بے غیرت کہا جاتا تھا
اب نہ بھیجنے والے کو دقیانوسی اور انتہا پسند کے نام سے یاد کیا جاتا ہے
کل دوسروں کی جنگ کو اپنی جنگ کہنے والے کو غیرت مند اور غیور لکھا جاتا تھا
اب اسے
احمق اور بے وقوف کہا جاتا ہے
کل یہ اپنے اور قوم کے نام کے ساتھ غیور لکھنے اور بولنے پر سر فخر سے اٹھا لیتا تھا
اب کہتا ہے
کہ اسے بے وقوف بنایا جارہا ہے
اندھی محبت اور اندھی نفرت ایک انسان کودو انتہاؤں پر لاکھڑا کردیتی ہے یہ اسے حقائق سے ہی دور نہیں لے جاتی ہے بلکہ اس کے ذہنی اور مالی ارتقاء میں بھی رکاؤٹ بن جاتی ہے اگر ایک انسان دوسرے کو اس کے پیشے، عقیدے، علاقے، رنگ اور نسل کے باعث حقارت سے دیکھتا ہے تو وہ اس سے دور دور رہا کرئے گا اسی طرح ایک شخص جس انسان ،کتاب یا چیز سے نفرت کرتا ہے اس کے مثبت پہلو اس کی نگاہوں سے پوشیدہ رہتے ہیں
ہمارے ادھر امریکہ اور یورپ سے مذہب اور سوشلسٹ نقطہ نظر سے دیکھنے کی وجہ سے نفرت کی جاتی رہی 
اور بھارت سے ہندو مت کے باعث
یہ ریاستوں کے اپنے معاملات اور پالیسیاں ہوتی ہیں مگر عوام کے الگ الگ اور ناچاقی سے یہ ایک دوسرے کے تجربات اور ترقی سے مستفید ہونے سے رہ جاتے ہیں پاک بھارت تعلقات کی جو بھی نوعیت ہو مگر سندھ کے کراچی اور پنجاب کے لاہور سے روزانہ سینکڑوں افراد کی آمد و رفت کا سلسلہ چلتا رہتا ہے اور وہ اس سے مستفید بھی ہوتے رہتے ہیں
اسی طرح ایک انسان جس انسان، کتاب اور چیز سے محبت کرتا ہے اسے اس میں فقط اچھائیاں اور خو بیاں ہی نظر آتی ہیں اور اس کے منفی پہلو اس سے چھپے رہتے ہیں
اگر پختونخوا بشمول قبائلی علاقہ جات میں زراعت کو ترقی ملتی ، کارخانے لگائے جاتے اور صنعت کاری کو فروغ دیا جاتا تو پختون اندھی محبت اور اندھی نفرت میں مبتلا نہ ہوتے یہ اپنے مسائل اور تنازعات بات چیت اور مذاکرات کے ذریعہ حل کرتے تو ان کے مابین تنازعات کی یہ کیفیت بھی نہ ہوتی اور ان کا طرز گفتگو کاروباری ہوتا
بہرکیف ، موجودہ حالات نے اس کو ایک موقع فراہم کیا ہوا ہے اسے اپنے ماضی قریب اور ان حالات کو ایک تسلسل میں دیکھتے ہوئے ان سے کچھ سیکھنا اور سبق حاصل کرنا ہے اور ان سب واقعات کو وسیع تناظر میں لیتے ہوئے آج اور مستقبل کے لئے منصوبہ بندی کرنا ہے

One Comment