ملی مسلم لیگ، جمہوریت پر جہادیوں کا ڈاکہ

آصف جاوید

کالعدم انتہا پسندمذہبی تنظیم جماعت الدعوۃ نے ملی مسلم لیگکے نام سے سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کردیا ہے ۔ پیر کو اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب میں ملی مسلم لیگ کے صدر سیف اللہ خالد نے ایک پریس کانفرنس میں تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو حقیقی اسلامی فلاحی ملکت بنانے کی جدوجہد کا آغاز ہوگیا ہے، اور سیاسی جماعت ملی مسلم لیگاس ہی مقصد کے حصول کے لئے قائم کی گئی ہے۔

سیف اللہّ خالد نے مزید بتایا کہ الیکشن کمیشن میں نئی سیاسی جماعت ملی مسلم لیگکے اندراج کے لیے درخواست جمع کروا دی گئی ہے۔ ملی مسلم لیگ سنہ 2018 کے انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی۔

اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ کہ اقوام متحدہ، امریکہ اور انڈیا پہلے ہی جماعت الدعوۃ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں ،جبکہ تنظیم کے سربراہ حافظ سعید ان دنوں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے شیڈول فورتھ کے تحت حراستی تحویل میں نظر بند ہیں۔

ملی مسلم لیگ کے صدر سیف اللہ خالد نے کہا کہ جماعت الدعوۃ 30 سال سے تعلیم ،خدمت اور دعوت کا کام کررہی ہے اور وہ ہنوز اپنا کام اسی طرح جاری رکھے گی جبکہ نئی قائم کی گئی سیاسی جماعت ملی مسلم لیگاب عوامی سطح پر سیاسی کردار ادا کرے گی اور قومی سطح سے لے کر یونین کونسل تک انتخابات میں حصّہ لے کر عملی سیاست میں نمایاں کردار ادا کرےگی ۔

سیف اللہ خالد نے جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کو اپنا رہبر و محسن قرار دیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں سیف اللہّ خالد نے کہا کہ جماعت الدعوۃ اور سیاسی جماعتملی مسلم لیگ کا تنظیمی ڈھانچہ الگ الگ ہوگا، مگر فکری اثاثہ مشترک ہوگا۔

اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ جماعت الدعو ۃ انتہا پسند مذہبی تنظیم ہے ، نظریاتی طور جماعت الدعوۃ جمہوری عمل پر یقین رکھنے کے بجائے اسلامی امارات اور نظامِ خلافت پر یقین رکھتی ہے۔ جس کے سربراہ حافظ سعید ہیں، جو کہ عالمی طور پر دہشت گرد قرار دئے جاچکے ہیں۔

حافظ سعید لشکر طیبہ کے بانی ہیں جس کو ممبئی حملے میں ملوّث قرار دیا جاتا ہے۔ لشکر طیبہ پر پابندی کے بعد اس نے اپنا نام جماعت الدعوۃ رکھ لیا۔ جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید پر الزام ہے کہ وہ ممبئی میں نومبر سنہ 2008ء کو ہونے والے دہشت گرد منصوبے کے ماسٹر مائنڈ تھے۔

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے نومبر 2008 میں بھارتی شہر ممبئی میں ہونے والے حملوں کے بعد جماعت الدعوۃ پر پابندیاں لگائی تھیں اور اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ بھارت اور امریکہ کے مطابق جماعت الدعوۃ ممبئی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کی ذمہ دار تھی ،جس میں 174 بے گناہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے بعد سنہ 2014 میں امریکہ نے بھی جماعت الدعوۃ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے مالیاتی پابندیاں عائد کی تھیں۔

امریکی حکام کی جانب سے جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کے بارے میں معلومات فراہم کرنے پر ایک کروڑ ڈالر کے انعام کی پیش کش بھی کی گئی تھی۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن اور جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید جوہر ٹاؤن لاہور ، پاکستان میں واقع اپنے گھر میں نظر بند ہیں۔

انہیں 30 جنوری ، سنہ 2017 ، بروز پیر کی رات انسداد دہشت گردی ایکٹ کے فورتھ شیڈول کے تحت ، جماعت الدعوۃ کے چوبرجی میں واقع مرکزی دفتر جامعہ قادسیہ سے سرکاری تحویل (حراست) میں لیا گیا تھا۔ شیڈول فورتھ میں وہ تمام عناصر شامل ہوتے ہے جو تحریر یا تقریر کے ذریعے دہشت گردی پھیلانے اور ریاست کے خلاف نفرت پھیلانے میں ملوّث ہوتے ہیں۔

حافظ سعید اور انکی تنظیم سے متعلّق حکومتی اور ریاستی پالیسی میں تضاد ہے، سرکاری طور پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ محمد سعید کو معاشرے کے لیے خطرے قرار دیا ہے۔ جبکہ مبیّنہ طور پر حافظ سعید اور انکی تنظیم جماعت الدعوۃ ، ریاستی اداروں کا تذویراتی اثاثہ شمار کی جاتی ہے۔ جس کو ریاست ِ پاکستان ، انڈیا اور افغانستان میں اپنی پراکسی جنگ میں باقاعدہ استعمال کرتی ہے۔

اقوامِ متّحدہ نے شواہد ملنے پر ممبئی حملوں کے فورابعد نومبر 2008ء میں حافظ سعید کو دہشت گرد قرار دے دیا تھا، مگر پاکستان میں ممبئی حملوں کے نو سال بعد بھی حافظ سعید اور ان کی تنظیموں کی سرگرمیوں کو کھلی چھوٹ حاصل ہے، عالمی دباؤ پر مجبور ہوکر آخرِ کار سنہ 2017 کے شروع میں پاکستان کو حافظ سعید کے خلاف قدم اٹھا نا پڑا اور حافظ سعید کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لئے حکومت کو انہیں نظر بند کرنا پڑا۔

حافظ سعید اور ان کے رفقاءِ کار جمہوریت پر نہیں بلکہ نفاذ شریعت، اسلامی خلافت اور قیامِ امارت یعنی ایک امیر کی اطاعت قائم کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ یکایک جمہوری عمل میں حصّہ لینے کی خواہش ، حافظ سعید اور انکی تنظیم کی ہرگز نہیں ہوسکتی، بلکہ یہ ان کے سرپرستوں یعنی عسکری اسٹیبلشمنٹ کی ڈاکٹرائن لگتی ہے۔ تاکہ جہادیوں اور جنگجوؤں کو قومی سیاست اور قومی دھارے میں لانے کی حکمتِ عملی کو عملی جامہ پہنایا جاسکے۔

پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ کا عرصہ دراز سے یہ موقّف رہا ہے کہ انتہا پسند مذہبی جماعتوں اور جہادی تنظیموں کا عوام میں سافٹ امیج بنایا جائے اور ان کو قومی دھارے میں لایا جائے۔ عسکری اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر مولانا فضل الرحمان، جماعت ِ اسلامی اور عمران خان اچھے طالبان اور برے طالبان کی اصطلاح کو اس ہی مقصد کے لئے استعمال کرتےر ہے ہیں، اور اسٹیبلشمنٹ ہی کی ایماء پر مولانا فضل الرحمان اور عمران خان طالبان کے دفاتر قائم کرنے اور طالبان سے مذاکرات کی تجاویز بھی دیتے رہے ہیں۔

عسکری اسٹیبلشمنٹ درپردہ جہادیوں اور طالبان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے سیاسی حکومتوں پر دباؤ ڈالتی رہتی ہے۔ ایک حکمتِ عملی کے تحت ان جہادیوں کا سوفٹ امیج میڈیا کے ذریعے پرموٹ کیا جاتا رہتا ہے۔ یہ دہشت گرد تنظیمیں اور جماعتیں عسکری اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے معاشرے میں فلاح و بہبود کے منصوبوں پر بھی عمل کر تی ہے، تاجروں سے چندے اکھٹّے کئے جاتے ہیں، قربانی کی کھالیں جمع کی جاتی ہیں۔

پچھلے سال ایک محتاط اندازے کے مطابق جہادی تنظیموں نے قربانی کی کھالوں سے تیس ارب روپے کی رقم جمع کی تھی۔ حافظ سعید کی تنظیم فلاح انسانیت کراچی اور لاہور سمیت کئی شہروں میں سرگرم عمل ہے، جہاں تعلیم اور صحت کے شعبے کے علاوہ قدرتی آفات، زلزلوں، سیلاب، بارشوں اور آگ لگنے کے واقعات کے بعد فلاحی کام کئے جاتے ہیں، اور سڑکوں پر ہونے والے حادثات میں ان تنظیموں کے رضاکار لوگوں کی مدد کرتے ہیں، تاکہ اِن جہادیوں اور دہشت گردوں کا سافٹ امیج بن سکے، اور عوام میں ان کے لئے ہمدردی اور محبّت کا جذبہ بیدار ہو۔

اب عملی سیاست کے ذریعے ان کالعدم تنظیموں اور جہادیوں کو یونین کونسلوں ، اور صوبائی و قومی اسمبلی میں بھیجنے کی حکمتِ عملی پر کام شروع کردیا گیا ہے۔ اگر عسکری اسٹیبلشمنٹ کی یہ چال کامیاب ہوجاتی ہے ، تو انتخابی عمل کے ذریعے کالعدم تنظیموں اور جہادیوں کو قانون ساز اسمبلیوں میں پہنچا دیا جائے گا۔ اور اس طرح اسلامی شریعت نافذ کرنے کی دعویدار کالعدم تنظیموں اور جہادیوں کا جمہوریت پر کامیاب ڈاکہ دلوادیا جائے گا۔ شریعت نافذ کردی جائے گی، خلافت اسلامیہ قائم کردی جائے گی۔ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنا دیا جائے گا، امیرالمومنین حافظ سعید کی امارت میں غزوہ ہند کا آغاز ہوجائےگا۔

اگر ایسا ہوگیا تو پاکستانیوں کے لئے یہ سقوط پاکستان کے بعد دوسرا بڑا سانحہ ہوگا، پہلے تو پاکستان صرف دو لخت ہوا تھا، اب ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوگا۔ وما علینا الالبلاغ۔

6 Comments