جدید استعمار زبانیں کیوں ختم کرنا چاہتا ہے؟ 

ڈاکٹر برکت شاہ کاکڑ

جارج آرویل کے ناول 1984 کی  روشنی میں؟

زبان کے بارے میں جب بھی تذکرہ ہوتا ہے تو بولنے اور سننے والے محسوس کرتے ہیں کہ یہ  باتیں ان سے متعلق ہو رہی ہیں۔ اسکی شاید وجہ یہی ہے کہ ہر شخص زبان اور زمین کے ساتھ کسی نہ کسی حد تک  اک جذباتی نسبت سے  جڑا ہوا ہوتا ہے  ۔ جب ہم اس رشتے کو مزید کریدتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ زبان اور زمین دونوں  ممتا کی شفقت، غیر مشروط محبت کی حدت اور خود کو بیان کرنے اور اظہار کرنے کی قوت بخشنے  کی قدرتی صلاحیت رکھتی ہے۔

  اگر میں  قدرتی پر زور دوں تو معاصر (مابعد جدیدنقاد شاید میرا محاسبہ کرنے میں حق بجانب ہوں گے، لیکن  اگر ہم اسے انسانی تخلیق کہیں اور سماجی سطح سے اس کے ابھار کو مسلم قرار دے، پھر بھی یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ   زبان محض آوازوں، علامات اور الفاظ  کا نام نہیں ہے بلکہ یہ مخصوص تاریخی اور ثقافتی عمل کے نتیجے میں  قطع و برید، کانٹ چھانٹ،  اور تراش خراش کا ایک خودکار اور نامیاتی (زندہ) نظام کا نام ہے ۔

زبان کی پرورش ایک مخصوص کلچر کے زیر اثر ممکن ہو پاتی ہے، اگر کلچر کی مٹی تازہ،  تنومند اور زرخیز ہو اور بروقت پانی اور ہوا کا  انتظام ہو تو زبان فصل کی طرح پھلتی پھولتی ہے، اس صورت میں  زبان کے اندر اپنے کانٹ چھانٹ کی خودکار صلاحیت زندہ ہوتی ہے۔ مختصر یہ زبان ایک زندہ اور متحرک شے ہے،  جسے صرف میکانی انداز سے سمجھنا نامناسب ہے۔ کیونکہ اس سے ایک فرد،  گروہ، سماج اور قوم کا سالم تہذیبی، معاشی، سماجی اور سیاسی شعور جڑا ہوا  ہو تاہے۔

اگر زبان  درمیان سے نکل جائے تو سماجی اور ثقافتی عمل  معطل ہو جائے، ترسیل اور رابطے کا عمل رک جائے ، ہزاروں سال پرانے انسان کا حافظہ ایک شیر خوار بچے کے حافظے کی سطح پر آکر گر جائے ۔

جب سے  جدیدقومی ریاست  کا ظہور ہوا ہے،  زبانوں کی تنوع  اور کثریت پر قدغن لگنا شروع ہوا ہے۔ کیونکہ ریاست  قوم  کی یگانگت کیلئے سب سے پہلے ایک مخصوص کلچر، منڈی اور نظریئے کیلئے   راہ ہموار کرتی ہے اور اس کیلئے زبان اور  تعلیم کو بطور آلہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

 اب جب عالمگیریت نے سرمایہ دارانہ نظام کو انسانی تہذیب کی معراج سے منسوب کیا ہے ، زبانیں، تہذیبیں ، معاشی اور سماجی رشتے  سمٹتے چلے جارہے ہیں اور ایک ہی زبان، کلچر اور زوق کو فروغ ملنا شروع ہوا ہے۔  ایک قوم، ایک منڈی اور ایک زبان کا تصور زبانوں کی تنوع اور افزائش کا شدید مخالف ہے، کہ منڈی کی آزاد تجارت زبانوں کے رش کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

جس طرح کلچر کو کل کہلایا جاتا ہے، مذہب، سماجی  اور معاشی رشتے  اسکے خدوخال تصور  کئے جاتے ہیں، اسی طرح اگر زبان کو کلچر کی روح قرار دیا جائے تو ہر گز غلط نہیں ہوگا۔ کیوں کہ زبان ہی کلچر کی کلیت   کو بیان کرنے اور اسے معنی دینے کی جادویائی اثر رکھتی ہے، اور زبان کا گہرا تعلق یادداشت اور ماضی سے بھی ہے۔زبان خیالات کے لامتنائی سلسلے کو بُننے کا وسیلہ بھی ہے، اور خیالات سے نظریات اور نظریات سے تبدیلیوں اور انقلابات کے لئے رستے ہموار ہوتے ہیں۔

معلوم انسانی تاریخ میں ایسا کم ہوا ہے کہ کسی طاقتور نے اپنی زبان کو رائج کرانے ، غالب بنانے اور باقی ماندہ زبانوں کو اس سے بدلنے کی سعی کی ہو۔ جب سے یورپی نوآبادکاری کا رواج ہوا ہے، نوآبادیاتی آقاؤں نے اپنی زبان اور کلچر کو استبدادی مقاصد کیلئے برائے کار لانے میں حتی المقدور  کاوشیں کیں جو بارہا کامیاب رہیں۔

زبان ، تابع داری، خاموشی کے کلچر اور  سامراجی تسلط کے درمیان  کس طرح کا  ایک  دلچسپ اور نامیاتی (زندہ) تعلق وجود رکھتا ہے، اس گتھی کو سلجھانے کیلئے ہم  برطانوی ہند میں پلنے اور بڑھنے والا معروف برطانوی ناول نگار جارج آرویل کے ناول “1984” کے  مرکزی خیال اور  پلاٹ کی تحلیل کریں گے ۔آرویل چونکہ علامت نگاری کے نمائندہ برطانوی کہانی کار ہے نے زبان اور تسلط کے درمیان تعلق کو کمال تمثیلی اور علامتی انداز میں بیان کیا ہے۔

 یاد رہے کہ مصنف نے اس سے پہلے اینیمل فارم لکھی جس نے  اسے شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا ، لیکن “1984” کی طباعت کے بعد انکی  شہرت دو چند ہوگئی۔  آرویل نے اس ناول میں ایک خوفناک  مثالی ریاست اوشیانا کا خاکہ پیش کیا ہے ۔ جس طرح یونانی میں خیالی ریاست یوٹوپیا کا تصور ملتا ہے اسی طرح بدی اور خوف پر مبنی ریاست کو  ڈس ٹوپیا کہا جاتا ہے۔

اوشیانا کا حکمران  عوام میں اپنے رعب و دبدبے کی وجہ سے بگ برادرکے نام سے جانا اور پکارا جاتا ہے،  جو مطلق کنٹرول اور جبر کو اپنے نام نہاد انقلابی نظریے اینگلزسوشلزم”  جو کہ مختصر ہو کر اینگسوک”  بنتا ہے کو عملی جامہ پہنانے کیلیے استعمال کرتا ہے اور اپنے مخالف سیاسی تنظیم  انر پارٹیسے وابستہ افراد  کوبے دردی سے قتل کرتا ہے۔اوشیانا میں  پوری ریاستی مشینری اس امر کے درپے ہوتی ہے کہ کس طرح انسانوں کے ذہنوں میں استحصال ، جبر، قتل و غارت اور بگ برادر کے کرداری نقائص پر سوال اُٹھانے سے باز رکھا جائے۔

چونکہ سوال سوچنے کے عمل سے جنم لیتا ہے اور سوال کرنا بغاوت اور بے اعتباری کے مترادف ہے اس لیے ریاست اوشیانا اسے جرم قرار دیتی ہے اور اس عمل کو تھاٹ کرائم کا نام دیا جاتا ہے۔ بگ برادر کی سیاہ رعب دار آنکھوں والی تصویرملک کے ہر ہر بام و در پر آویزاں کی جاتی ہے جس کے نیچے موٹے حروف میں لکھا ہوا ہوتا ہے بڑے بھائی کی آنکھیں تمہیں دیکھ رہی ہیں۔ عوامی سطح پر اس سے یہ تاثر جنم لیتا ہے کہ گویا بگ برادر ایک مافوق الفطرت کردار ہیں جو ان کے ذہنوں میں گھُسنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ریاستی پولیس جسے حرف عام مین تھاٹ پول  کے نام سے جانا جاتا ہے،  جو منسٹری آف لو”  یعنی امور محبت کی وزارت کے  زیر انتظام  کام کرتی ہے ہر وقت  چوکنّی رہتی ہے کہ کس طرح سوچنے کے  ممکنہ جُرم کو روکا جائے اور لوگوں کے سوچ پر پیرےبٹھائے جائیں۔

اس کے لیے ریاست اوشیانا کا مطلق حاکم اس نتیجے پر پہنچتاہے  کہ لوگوں کے سیاسی شعور کو سُن اور ناکارہ بنانے کیلیے ان کے تاریخی شعور کو بانجھ کرنا پڑے گا۔  تاریخ  کا تعلق یادداشت اور یادداشت کا تعلق زبان سے ہے۔ اس طرح وہ ایک مصنوعی ریاستی زبان تخلیق کر لیتا جسےنیوز پیککہا جاتاہے۔ ریاستی کارندے ہر سال اس زبان کی لغات چھاپتی ہے اور اس میں ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ زبان کو حتی المقدور مختصر تر کیا جائے ۔ مترادف الفاظ کو یکسر حذف کیا جائے، دو الفاظ کو ملاکر ایک کیا جائے،  تاکہ زبان عوام الناس کو تھاٹ کرائم”  سے بچایا جاسکے اور انہیں  غیر ضروری اور پریشان کن  غور و فکر سے نجات دلائی جا سکے۔

ونسٹن  بیچارہ  اس ناول کا وہ زیر عتاب کردار ہیں جس کا ابھی ماضی سے رابطہ مکمل طور پر منقطع نہیں ہوا ۔وہ  ریاست اوشیانا  میں برپا کی گئی نام نہاد انقلاب میں معصوم انسانوں کے قتل عام کاچشم دید گواہ ہے۔  اُنکے والدین  بھی اینگساککے نظرئے سے مخالفت کی پاداش میں قتل کیا گیا تھا۔ لیکن ونسٹن منسٹری آف ٹرتھیعنی وزارت برائے امور سچائی میں ایک کارندے کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہاں پر ان کا کام بس یہ ہوتا ہے کہ اخبارات میں طبع شدہ مضامین کو ایک خاص وقفے سے بار بار چھپنے کیلئے منتخب کرسکیں تاکہ قارئین کو ایسا لگے کہ وہ ایک ایسے معروض میں رہتے ہیں جس کی نشوونما رُک گئی ہے اور جو ہر لحاظ سے فطری ہے۔

 اوشیانا میں صرف تھاٹ کرائم یا سوچنے کے عمل کو جرم قرار نہیں دیا جاتا بلکہ محبت کرنا یا اس کا اظہار بھی جرم مانا جاتا ہے۔ ونسٹن کے بُرے دن بھی یہیں سے شروع ہوجاتے ہیں جب وہ  ریاستی  بندشوں سے صرف نظر کرکے ایک لڑکی سے محبت کرنے کی جسارت کرتا ہے اور اسی سے گزشتہ دور کا تذکرہ کرکے اپنے خوابیدہ تاریخی شعور کو جگانے کی کوشش کرتےہیں۔

ونسٹن کی اس بغاوت کا تھاٹ پولیسکو بروقت علم ہو جاتا ہے اور اس طرح ونسٹن اور اسکی محبوبہ کو اذیت ناک   اندازمیں سزا دی جاتی ہے۔ بجلی کے کرنٹ  لگائے جانے سے دونوں کے دماغ سن ہوجاتے ہیں،  ناول کے آخری حصے میں یہی دکھایا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے ہیں لیکن یاداشت  کھو جانے سے اپنے درمیان کسی بھی تعلق کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔

اس ناول نے اگرچہ ایک مثالی خوفناک ریاست کا خاکہ پیش کیا ہے، لیکن آج کے حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ عالم گیریت میں جہاں بگ برادر کا خوف تو نہیں، لیکن مقامی بولیاں کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا ایک اٹل حقیقت بنتی جارہی ہے۔

  طاقتور تہذیبوں  کے زبانیں سمندر کے بڑی مچھلیوں کی طرح چھوٹی اور نطر انداز بولیوں کو نگل رہے ہیں، اور ایک سرمایہ دار عالم گیریت کے رستے میں حائل کسی بھی   رنگارنگی اور تنوع کو ایک خودکار انداز میں ختم کیا جائے گا۔  

Comments are closed.