نواز شریف!امریکی صدر کو جواب کب دیں گے؟؟

انور عباس انور

جشن آزادی اور اپنی شادی کا 37واں جشن ایک ساتھ منایا تو اگلے روز آنکھ کا آپریشن کرواکر گھر بیٹھ گیا، دس دن کے مکمل آرام کا ڈاکٹری مشورہ لکھنے لکھانے میں اب تک رکاوٹ بنا رہا، آج معائنہ کے بعد ڈاکٹر نے مکمل آرام کرنے کے مشورہ کی قید سے آزاد کیا تو لکھنے بیٹھاہوں اورسوچ رہا ہوں کہ کس موضوع کا انتخاب کیا جائے،۔

جشن آزادی سے اب تک بہت سارا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے،بیگم کلثوم نواز گلے کے کینسر کے علاج کے لیے لندن مقیم ہوگئی ہیں، امریکی صدر ٹرمپ نے ہمیں ’’تڑیاں‘‘ لگا دی ہیں اور دھمکی دی ہے کہ وہ افغانستان کے استحکام کی جنگ پاکستان کے اندر لڑیں گے،پاناما کیس کے بعد بات بہت آگے نکل چکی ہے سابق وزیر اعظم نے عدالت کے سامنے نہ صرف12سوالات رکھ دئیے ہیں بلکہ عدالت سے ان کے جوابات بھی مانگے ہیں۔

ملک کی مرکزی تینوں بڑی جماعتوں نے عوامی جلسوں کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے، مسلم لیگ نواز نے اپنے قائد کی اسلام آباد سے لاہور واپسی پر ریلی کا پروگرام کیا تو تحریک انصاف نے اسلام آباد میں اپنی پاور شو کردی، جواب میں پیپلز پارٹی ( یہ معلوم نہیں کہ کونسی پیپلز پارٹی) نے خیبر پختونخواہ کے شہر مانسہرہ میں اپنی طاقت دکھانا ضروری خیال کیا تو جواب میں شاہ محمود قریشی کے مریدین کے گڑھ سکھر میں تحریک انصاف نے عوامی طاقت کا مظاہرہ کیاجہاں عمران خاں نے کہا ’’اب سندھ کے چور اچکے ڈاکو کی باری ہے اور وہ بھی کہے گا مجھے کیوں نکالا گیا‘‘۔

ابھی عمران خاں کے جلسے کی دھول نہ بیٹھی تھی کہ بلاول بھٹو زرداری نے جی ٹی روڈ کے شہر فتح جنگ میں طبل جنگ بجا دیا اور ایک بڑے جلسے کا انعقاد کرکے پیپلز پارٹی نے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی کہ پیپلز پارٹی کا پنجاب سے صفایا ہو چکا ہے،گو دوسری جماعتوں کی پیروی کرتے ہوئے پیپلزپارٹی نے فتح جنگ کے جلسے کے لیے جہلم ، راول پنڈی، گجرات ،کھاریاں سمیت دیگر دور و نزدیک کے علاقوں کے ( ادھ موئے )جیالوں کو جمع کرکے بلاول کی عزت بچانے کا بندوبست کیا۔

پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی آنکھوں کے تارے، راج دلارے حافظ محمد سعید کی جماعت دعوۃ کو سیاسی جماعت میں تبدیل کرنے کا مرحلہ بھی خوش اسلوبی سے طے کیا جا رہا ہے، جماعت دعوۃ کو ’’ملی مسلم لیگ‘‘ کا نام دیا جارہا ہے بلکہ دیدیا گیا ہے، اور حلقہ این اے 120 کے ضمنی انتخابات میں اس کا امیدوار شیخ محمد یعقوب موجود ہے۔

ویسے تو اس حلقہ کے امیدواروں میں پیپلز پارٹی کی ایک جیالی ساجدہ میر بھی کمر کس کے اتری ہوئی ہے، اس بار وہ بے نظیر بھٹو کی سکریٹری ناہید خان اور ان کے شوہر صفدر عباسی کی جماعت کی امیدوار بنی ہے، جماعت اسلامی نے اپنا الگ سے امیدوار کھڑا کیا ہے، اس کے علاوہ بھی بہت سارے امیدوار مسلم لیگ نواز ،پی پی پی پی اور پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کو دھول چٹوانے کی سوچ لیکر میدان میں اترے ہیں۔

ادھر سابق وزیر اعظم جسے اب لوگ نااہل وزیر اعظم کہتے ہیں کی جانب سے اپنی جماعت سے منسلک وکلا کو ایوان اقبال لاہور میں اکٹھا کیا جسے وکلا کنونشن کا نام دیا گیا، یہاں بھی سابق وزیر اعظم کی جانب سے عدالت عظمیٰ کے ججز کو ہدف تنقید بنایا گیا،ججز کے کردار کو زیر بحث لاکر سابق وزیر اعظم نے پیغام دیا کہ وہ آسانی سے خاموش ہونے والے نہیں، ان کی تقاریر اور باڈی لینگویج بتاتی ہے کہ وہ عدالت اور سکیورٹی کے ذمہ دار ادارے سے دو دو ہاتھ کرنے کی ٹھان چکے ہیں۔ وکلاء نے وکلا گردی کا مطاہرہ کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ پر دھاوا بو دیا، اور بہت کچھ کیا جو نہ ہوتا تو بہتر ہوتا۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف روزانہ میڈیا سے مخاطب ہو رہے ہیں، بہت زور زور سے بات کرتے ہیں لیکن ابھی تک انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ’’تڑیوں اور دھمکیوں ‘‘ کے متعلق بات نہیں کی اور ان کے جانشین وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور دیگر وزرا بھی محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور کچھ کہنے سے قبل وہ اپنے قائد کی طرف دیکھتے ہیں جب تک انہیں نواز شریف کی جانب سے امریکی صدر کے بارے میں کچھ کہنے کی اجازت نہیں ملتی تووہ یوں ہی خاموش رہیں گے۔ 

امریکی صدر نے اپنا پورا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈالدیا ہے اور ہمیں ’’ڈو مور‘‘ کی ہدایت اور نصیحت کررہا ہے، یہ تو اللہ بھلا کرے چین،روس، ترکی اور ایران کا جنہوں نے کھل کر امریکی صدر کی مرتب کردہ پالیسی کی مخالفت کی ہے، گو ان ممالک کے امریکہ سے اپنے معاملات ہیں، ایران کا ذکر کرنا لازمی بنتا ہے کیونکہ ایران سے ہمارے تعلقات خوشگوار نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایران کی نسبت سعودی عرب کی ناراضگی مول لینے کا حوصلہ نہیں رکھتے، مگر پھر بھی ایران کی صالح اور اماندار قیادت نے اصولوں کے پیش نظر امریکہ کو مخالفت کرکے ہم پر احسان عظیم کیا ہے۔ پاکستان کو ترکی ،ایران ،چین اور روس کا ممنون ہونا چاہئیے۔لیکن اس کی توقعات بہت کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کا تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کی جانب سے اپنی اپنی بساط کے مطابق جواب دیا گیا ہے، لیکن سب سے موثر، جاندار اور امریکی انتظامیہ کے ہوش اڑا دینے والا جواب پاک آرمی کے چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے دیا گیا ہے، جنرل باجوہ نے دوٹوک الفاظ میں امریکی انتظامیہ کو بتایا ہے کہ ہمیں ڈالر اور اسلحہ کی امداد نہیں چاہئیے، اور نا ہی ہم افغانستان کی جنگ اپنی سرزمین پر لڑیں گے، افغانستان کا استحکام پاکستان کو بھی اتنا ہی عزیز ہے جتنا امریکہ اور خود افغانستان کو پیارا ہے۔

Comments are closed.