مردم شماری پر اعتراض کے بجائے تفکر کی ضرورت ہے

علی احمد جان

ہمارے ہاں مردم شماری یا ملک میں بسنے والے انسانوں کا شمار بمطابق آئین وقت پر یعنی دس سال بعد نہ ہو پایا جس پر سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی اور حکومت کو عدالتی حکم کو بجا لانا پڑا اب مردم شماری ہوچکی ہے اور اس کے اعداد و شمار بھی عبوری طور پر جاری کئے گئے ہیں ۔

مردم شماری نہ کرانے کی بہت سی وجوہات میں سے ایک یہ وجہ یہ بھی رہی ہے کہ یہاں پر مختلف صوبوں، قومیتوں اور لسانی و مذہبی گروہوں کو مردم شماری کے اعداد و شمار کے بارے میں مطمئن کرنا مشکل ہے۔ یہ صرف ہمارے ہاں کا ہی نہیں بلکہ بہت سارے تکثیریت کے حامل ممالک کا مسئلہ ہے جہاں ایک سے زیادہ قومیتیں، لسانی گروہ، مذہبی اکائیاں اور نسلی گروہ بستے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کے بہت سارے ممالک ایسے ہیں جہاں اگر مردم شماری کرائی جائے تو اکثریت میں سمجھے جانے والے مذہبی یا نسلی گروہوں کے اقلیت میں بدلنے کا خدشہ ہے اس لئے وہاں مردم شماری کرانے نہیں دیا جاتی۔ ہماری تکثیریت بھی حساس نوعیت کی ہے تو یہاں بھی مردم شماری کے نتائج کو قبول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

حالیہ مردم شماری کے عبوری نتائج کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی میں ۱۹۹۸ کی آخری مردم شماری کے بعد دو اعشاریہ چالیس فیصد سالانہ کی شرح نمو کے حساب سے ستاون فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ اب پاکستان بیس کروڑ 77لاکھ سے زیادہ لوگوں کا ملک ہے جس میں سے ۳۶ فیصد لوگ شہروں میں رہتے ہیں ۔ آبادی میں اضافے کی مجموعی شرح گر گئی ہے جو یہاں پر بہبود آبادی یا خاندانی منصوبہ بندی کے لئے سرکاری اور غیر سرکاری کاوشوں اور عوام کے مجموعی شعور کا آئینہ دار ہے۔

پنجاب میں آبادی کی دو اعشاریہ تیرہ فیصد کی سالانہ شرح نمو رہی ہے جہاں شہری آبادی کا تناسب چھتیس اعشاریہ اکہتر فیصد ہے۔ پنجاب اب بھی گیارہ کروڑ سے زیادہ آبادی کے ساتھ آبادی میں ملک کا سب سے بڑے صوبہ ہے۔

سندھ چار کروڑ اٹھہتر لاکھ سے زیادہ آبادی کے ساتھ ملک کا دوسرا بڑا صوبہ ہے جہاں سالانہ شرح دو اعشاریہ اکتالیس فیصد رہی جس میں باون فیصد سے زیادہ لوگ شہروں میں رہتے ہیں جو ملک کی کسی بھی انتظامی اکائی یا کسی اور صوبے سے زیادہ شہری آبادی ہے۔ خیبر پختونخواہ تین کروڑ باسٹھ لاکھ سے زیادہ لوگوں کا صوبہ جہاںسالانہ شرح اضافہ دو اعشاریہ انانوے فیصد رہاہے جس میں سے اٹھارہ اعشاریہ ستہتر فیصد لوگ شہروں میں رہتے ہیں۔

بلوچستان کی کل آبادی ایک کروڑ تیئس لاکھ چوالیس ہزار سے زیادہ ہے جہاں سالانہ شرح اضافہ تین اعشاریہ سینتیس فیصد رہا اور شہری آبادی کا تناسب ستائیس اعشاریہ پچپن فیصد ہے۔ فاٹا یا قبائلی علاقوں کی کل آبادی بھی پچاس لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے جس کی سالانہ افزائش دو اعشاریہ اکتالیس فیصد رہی جہاں صرف تقریباً تین فیصد لوگ شہروں میں رہائش پذیر ہیں۔ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد چار اعشاریہ اکیانوے فیصد کی سالانہ شرح نمو اوربیس لاکھ چھ ہزار سے زیادہ کی آبادی کےساتھ ملک بھر میں سب سے آگے رہا جہاں نصف سے زیادہ آبادی شہر میں رہتی ہے۔

اس دفعہ کی مردم شماری میں طریقہ کار تبدیل ہوا تھا جس میں قومی شناختی کارڈ کے نمبر کا اندراج لازمی تھا۔ اس طریقہ کار کے تحت کوئی فرد ایک سے زیادہ جگہوں پر اندراج نہیں کرواسکتا ہے۔ ایک سے زیادہ اندراج کی صورت میں نیشنل ڈیٹا رجسٹریشن اٹھارٹی (نادرا) کاڈیٹا بیس اس کارڈکو مسترد کر دیتا ہے جس کا نمبر پہلے سے درج ہو اہو۔ ا س طرح لوگوں کا اندراج صرف جائے سکونت میں ہی ہوسکا۔ اس کے باوجود بھی اگر مردم شماری میں ہیرا پھیری ہوئی ہے تو پھر یہ کام فرشتوں کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔

مردم شماری کے عبوری جاری کئے ہوئے اعداد و شمار پر فوری طور سیاسی اور سماجی حلقوں کا رد عمل بھی سامنے آیا ہے۔ سب سے پہلا اور شدید رد عمل کراچی کی نمائندگی کرنے والی سیاسی جماعت کا آیا جن کے خیال میں کراچی کی آبادی کو کم دکھایا گیا ہے ۔ کراچی اور لاہور یا دیگر شہروں کی شرح اضافہ کے تناسب کا اگر ۱۹۹۸ کی مردم شماری کے ساتھ تقابلی جائزہ لیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس دفعہ بتائی گئی آبادی کا اضافہ غیر معمولی نہیں۔

جس شرح سے ۱۹۹۸ میں اضافہ ہورہا تھا اس شرح کے آس پاس میں ہی اب بھی آبادی بڑھ رہی ہے۔ کراچی کے ۲۰۰۵ میں کراچی شہر کے ۱۶ ٹاون میں تقسیم کو بنیاد بناتے ہیں جس میں ہر ٹاون کا ۱۳ لاکھ کی آبادی کا اندازہ لگایا گیا تھا۔ چونکہ مقامی حکومت کے لئے حلقہ بندیوں اور شہر کی سیاسی بنیادپر تقسیم میں کوئی اعداد شمار کو بنیاد نہیں بنایا گیا تھا تو معترضین کی اس دلیل میں کوئی وزن دکھائی نہیں دیتا۔

کراچی اپنے سیاسی حالات اور امن و امان کی بگڑتی صورت حال کی وجہ سے اب یہاں باہر سے آنے والوں کے لئے اتنی کشش بھی نہیں رکھتا ۔ گزشتہ دہائی میں کراچی سے باہرہجرت بھی کافی زیادہ ہوئی ہے جس سے اس شہر کی آبادی کے اضافے کی شرح میں زیادہ تیزی نہیں آئی۔

اس کے ساتھ ہی لاہور کی آبادی میں ایک سو سولہ فیصد اضافہ کو بھی احباب شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لاہور شہر کے پھیلاؤ کو اگر دیکھا جائے تو یہ بھی تعجب کی بات نہیں ۔ ایک طرف یہ شہر گجرانولہ سےمل چکا ہے تو دوسری طرف قصور اب لاہور شہر کا حصہ لگتا ہے۔ لاہور بہتر شہری سہولیات اور امن و امان کی بہتر صورت حال کی وجہ سے حصول معاش اور زندگی کی تحفظ کے لئے مہاجرت کرنے والوں کے لئے پر کشش رہا ہے۔

اسلام آباد کی آبادی کے زیادہ ہونے اور شرح میں اضافے کا مطلب اس شہر کی آبادی اور آباد کاری میں پھیلاؤ کے علاوہ وہ عارضی سکونتی ہیں جو اپنی تعلیم اور ملازمت کے سلسلے میں یہاں رہائش پذیر ہیں جن کا اندراج اپنے آبائی علاقوں میں نہ ہو سکا۔ گزشتہ دہائی میں قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخواہ سے بڑی تعداد میں لوگوں کی یہاں آمد بھی ہوئی ہے۔ جن دنوں یہاں مردم شماری ہورہی تھی اس وقت یہاں سردیاں گزارنے کے لئے آئے ہوئے مری، گلیات اور گلگت بلتستان کے لوگ بڑی تعداد میں موجود تھے جن کا اندراج اپنے آبائی علاقوں کے بجائے یہاں پر ہوا۔

مردم شماری کے اعداد و شمار سے سامنے آنے والے حقائق میں سب سے بڑی تشویش کی بات یہ ہے کہ ہماری شہروں میں آبادی کا دباؤبڑھ رہا ہے۔ دیہاتوں سے بہتر سہولیات زندگی اور روزگار کے لئے شہروں کا رخ کرنا ایک معمول کی بات تھی مگر گزشتہ دو دہایئوں میں امن و امان کی وجہ سے بھی ایک بہت بڑی آبادی شہروں کا رخ کر رہی ہے۔

فاٹا اور خیبر پختونخواہ سے امن و امان کی صورت حال کی وجہ سے ایک بڑی آبادی نے شہر علاقوں کا رخ کیا ہے جس سے شہروں میں آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ لاہور کے بعد پشاور آبادی میں اضافے کا سب سے بڑا شہر ہے جہاں ۱۹۹۸ کی نسبت سو فیصد آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔

ہماری سیاسی قیادت کا اپنے حلقہ ہائے انتخاب کی آبادی میں کمی کو تشویش کی نگاہ سے دیکھنا خود انتہائی تشویش ناک بات ہے۔ پاکستان کو آج پھیلتی ہوئی آبادی کے سنگین مسئلے کا سامنا ہے کیونکہ یہاں وسائل اور زرائع پیدا وار میں کمی اور کھانے والوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

سنہ ۱۹۸۱ کی مردم شماری میں آٹھ کروڑ کی آبادی تھی جو آج بیس کروڑسے تجاوز کر گئی ہے جبکہ اناج اگانے والی زمین، زمین کو سیراب کرنے والے پانی اور صنعتی پیداوار میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ گو کہ آبادی میں اضافے کے رجحان میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن ماہرین کے مطابق آبادی میں اضافے کو اگر مزید کم نہیں کیا گیا تو یہاں غذائی قلت اور رہائش کے سنگین مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔

بڑھتی ہوئی آبادی کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ خود ایک مسئلہ ہے۔ یورپ کے کئی ممالک میں آبادی بڑھنے کے بجائے کم ہورہی ہے لیکن وہاں کے لوگوں کو کوئی تشویش نہیں ہے۔ کسی ملک کے شہری اپنی تعداد سے زیادہ تعلیمی قابلیت، ہنر اور پیداواری صلاحیتوں سے ممتاز ہوتے ہیں۔ سیاسی قیادت کو تشویش اس بات پر ہونی چاہئے کہ کتنے فیصد بچے سکول نہیں جاتے، کتنے بچے پیدائش سے پہلے اور کتنے پیدایش کے فوراً بعد مر جاتے ہیں، کتنی مائیں بچے جنتے ہوئے مر جاتی ہیں اور کتنی مائیں ایسی ہیں جو خود غذائی قلت کا شکار ہیں۔ سکولوں کو بند کرکے اپنی اوطاق بنانے والے، لوگوں کو بندوق کی نوک پر کھڑا کرکے اپنے لئے ووٹ ڈلوانے والے آبادی میں کمی کا رونا لوگوں کی معیار زندگی بلند کرنے کے لئے نہیں روتے بلکہ اپنے ووٹ بنک کی کمی پر روتے ہیں۔

مردم شماری کے نتائج سے خوشی اس بات کی ہے کہ ہماری آبادی میں پھیلاؤ کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے اس کا مطلب ہے کہ لوگ سمجھ چکے ہیں کہ ان کو دوسروں کی بیگار کرنے اور دوسروں کو ووٹ ڈالنے کے لئے بچے پیدا نہیں کرنے ہیں۔ اب لوگ سمجھ چکے ہیں کہ بچوں کی تعداد معنی نہیں رکھتی بلکہ بچوں کا علم و ہنر معنی رکھتا ہے جو کم بچوں کو ہی دیا جا سکتا ہے۔

Comments are closed.