اخلاقیات کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

انور عباس انور

پاناما پیپر کیس کے فیصلے سے قبل ہمارے ٹی چینلز کے پاس ایک ہی ایشو تھا، فیصلہ کے بعد بھی چینلز پر پاناما چھایا رہا اور فیصلے کے بعد بھی یہی پاناما چینلز کا موضوع سخن رہا، مسلم لیگ کے چہرے اور دل افسردہ اور تحریک انصاف سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے دل اور چہرے کھلکھلاتے، مسکراتے دیکھنے کو مل رہے تھے،تحریک انصاف نے جشن تشکر منایا تو تحریک انصاف کے اندر سب ٹھیک دکھائی دے رہا تھا،سب مطمئن تھے اپنے قائد عمران خاں کی قائدانہ صلاحیتوں کے معترف بھی ۔۔۔

اگلے روز نا جانے یکایک خاتون راہنما عائشہ گلا لئی کو کیا سوجھی کہ اس نے ایک دھواں دھار پریس کانفرنس کرڈالی، اور پاکستان تحریک انصاف کو خیر باد کہنے کا اعلان کیا،یہاں تک تو ٹھیک تھا کیونکہ ہر سیاسی کارکن کو یہ حق ہے کہ وہ جس جماعت میں چاہے شامل ہواور جس سے چاہے علیحدگی اختیار کرلے۔

عائشہ گلالئی کوئی پہلی سیاسی کارکن تو نہیں جس نے پارٹی تبدیل کی ہو، اس سے چند روز قبل ہی پاکستان تحریک انصاف کی راہنما ناز بلوچ پی ٹی آئی اور نبیل گبول نے ایم کیو ایم سے ترک تعلق کیا اور پیپلز پارٹی کے ساتھ شریک سفر ہونے کے اعلانات کیے،لیکن دونوں راہنماؤں نے اپنی سابق سیاسی قیادت پر کسی قسم کا کیچھڑ نہیں اچھالا، حتی کہ ناز بلوچ نے عمران خاں کی تعریف کرتے ہوئے پارٹی سے سیاسی ناطہ توڑا۔

عائشہ گلالئی نے اپنی دھواں دھار پریس کانفرس میں عمران خاں پر بداخلاقی ،بے راہ روی کے سنگین الزامات لگائے، اور یہاں تک کہہ دیا کہ عمران خاں اور دیگر راہنماؤں کے ہاتھوں خواتین کی عزتیں محفوظ نہیں،اور عمران خاں پاکستان میں مغربی تہذیب کے احیا کے لیے کوشاں ہے۔عائشہ گلا لئی نے سنگین الزامات میں یہ الزام بھی لگایا کہ عمران خاں نے انہیں نامناسب میسجز بھی بھیجے۔

عائشہ گلالئی نے یہ بھی کہا کہ عمران خان سیتا وائیٹ کی بچی کے باپ ہیں۔ عائشہ گلالئی کی جانب سے عمران خاں کوسیتا وائٹ کی بچی ٹرین کاباپ ٹھہرانا کوئی نیا انکشاف نہیں ،یہ پرانی بحث ہے، عائشہ گلالئی نے کس ثبوت وشواہد کی بنیاد پر عمران خان کو سیتا وائٹ کی بیٹی کا باپ قرار دیا؟ اس کا ذکر گلالئی کی پریس کانفرنس سے غائب ہے۔گلالئی کو عمران خاں پر لگائے گئے سب الزامات بشمول سیتاوائٹ کی بیٹی کا باپ ہونے کے شواہد بھی دینے ہوں گے۔

عائشہ گلا لئی کے الزامات پورا سچ ہیں یا آدھاسچ ہیں، گو عائشہ گلالئی نے عمران خاں کے سیاسی اور نجی زندگی پر سوالیہ نشان لگادیا ہے، لیکن اس کے ساتھ عائشہ نے اپنے کردار کو بھی داغدار بنا یا ہے،اور یہ لگنے والے یہ داغ اس وقت تک نہیں دھلیں گے جب تک عائشہ ان الزامات کومبنی برحقیقت ثابت نہیں کرتی۔عائشہ گلالئی اکتوبر2013 کے میسج کے بعد سے اب تک خاموش کیوں رہی؟ اور اب اچانک خاموشی توڑنا کیوں لازم ٹھہرا؟

عارفہ خالد رکن قومی اسمبلی کی تحریک پر پارلیمنٹ نے عائشہ گلالئی اور عمران تنازعہ کی تحقیقات کے لیے ان کیمرہ پارلیمانی کمیٹی بنانے کی منظوری دیدی ہے اور اسپیکر قومی اسمبلی کمیٹی کے ارکان کا اعلان کریں گے ،یہ کمیٹی ایک ماہ میں اپنی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کریگی،پارلیمنٹ نے ایک مستحسن اقدام اٹھایا ہے جو لائق تحسین ہے ۔

عمران خاں پر عائشہ گلالئی کے الزامات ہماری سیاسی تاریخ میں پہلا سانحہ نہیں،مخالفین پر ایسے بے ہیودہ الزامات لگائے جاتے رہے ہیں، گلالئی کے الزامات اسی سیات کا حصہ ہیں،1967 میں جب ذوالفقا ر علی بھٹو نے آمر ایوب خاں کو للکارا تو اس وقت بھی ایسی باتیں کی گئیں، انتخابی مہم میں پیپلز پارٹی کے ترجمان اخبار شہاب اور مساوات نے اپنے مخالف سیاسی راہنماؤں کی کردار کشی میں کوئی لمحہ ضائع نہیں کیا، مولانا مودودی کے چہرے کے نیچے اداکارہ نغمہ کا وہ دھڑا لگایا جس میں وہ فلم انورا کا مشہور گانا ’’سن وے بلوری اکھ والیا‘‘ گاتی ہے۔

سنہ1977کی انتخابی مہم میں اثر چوہان کے اخبار سیاست اورضیا شاہد کے ہفت روزہ صحافت نے ذوالفقار علی بھٹو کو غیر مسلم ثابت کرنے کے لیے جعلی شجرہ نسب تک شائع کئے اور ’’گھاسی رام عرف ذوالفقار علی بھٹو‘‘کی شہ سرخیاں لگائیں،انہیں اخبارات کے صفحات پر انہیں ایک طوائف کی اولاد لکھا گیا،بیگم نصرت بھٹو کی نازیبا تصاویر شائع کی گئی اور بے نظیر بھٹو کی نازیبا تصاویر بناکر ہیلی کاپٹر سے گرائی گئیں اور ان کے لوگوں سے دوستی کے قصے کہانیاں بنائی اور شائع کی گئیں۔

آج مسلم لیگ نواز عدالتی فیصلے پر سیخ پا ہورہے ہیں، ان کے قائد کے سیاسی مرشد جنرل ضیا الحق کے اشاروں پر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دینے کے مقدمے میں نام کا مسلمان تک لکھنا ضروری نہ سمجھا، مولوی مشتاق حسین کے بھٹو دشمنی پر مبنی الفاظ آج بھی مقدمہ قتل کے فیصلے میں محفوظ ہیں۔شائد قدرت نے مولوی مشتاق حسین کے اس غیر منصفانہ فیصلے کا انتقام لیا کہ جب اسکا انتقال ہوا تو باغ جناح میں ان کے جنازہ پر شہد کی مکھئیوں نے زبردست حملہ کیا، لوگ جنازہ چھوڑ کر بھاگ نکلے، اسی لیے کہتے ہیں کہ قدرت کے انتقام انداز الگ ہوتا ہے۔

پنجاب کے سابق وزیر اعلی و گورنر ملک غلام مصطفی کھر کے تہمینہ دررانی سے اختلافات ہوئے، تو تہمینہ دررانی نے انہیں لاہور کے ایک ہوٹل میں اپنی سگی بہن عدیلہ ( جو بہاول پور کے رئیس محبوب کی اہلیہ تھی )کے ساتھ غیر اخلاقی حرکات میں ملوث پانے کے الزامات لگائے اور رنگے ہاتھوں پکڑنے کا دعویٰ بھی کیا۔لیکن ملک مصطفی کھر نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا کبھی جواب نہیں دیا ،اس حوالے سے انکا موقف یہ ہے کہ بحث کو جتنا بڑھاؤ گے معاملات اسی قدر خراب ہوں گے۔

خیبر پختونخواہ کے سابق وزیر اعلی کے والد اور بیگم نسیم ولی خان کے بھائی اعظم ہوتی کے خلاف بھی زیبا نامی خاتون نے الزامات لگائے اور میڈیا میں دھواں دھار پریس کانفرنسیں کیں اور معاملات ابھی تک عدالتوں میں زیر سماعت ہیں یا غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہیں۔

عمران خاں کے سیاسی مخالفین نے ان کے سیاست میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی ان کی کردار کشی کا آغاز کیا جو آج تک کسی نہ کسی رنگ اور انداز میں تسلسل کے ساتھ جاری ہے، عمران خاں کے جلسوں میں موسیقی کی شمولیت اور خواتین کی شرکت کو بھی متنازعہ بنایا جاتا ہے اور اسے فحاشی کے فروغ سے تعبیر کیا جاتا ہے جب کہ ان کے مخالفین کے جلسے جلوسوں میں بھی ایسی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کے فرزند حمزہ شہباز شریف کی منکوحہ ہونے کی دعوی عائشہ احد نے بھی کئی الزامات لگائے ،کئی پریس کانفرنسیں بھی کیں ، حمزہ شہباز شریف کے ایماء پر عائشہ احد کے خلاف اغوا کے مقدمات بھی درج ہوئے،جس پر عدالت کی مداخلت پر انہیں رہائی نصیب ہوئی، عائشہ احد لاہور کے معروف سیاسی راہنما اورجن کا شوبز کی دنیا میں بھی معتبر نام ہے احد ملک کی صاحبزادی ہیں، اور وہ آج تک حمزہ شہباز کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔

خود میاں نواز شریف کی ذات پر طاہرہ سید اور ایک غیر ملکی خاتون صحافی سمیت تعلقات رکھنے کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں، شائد عمران خان کے وکیل سید نعیم بخاری نے اسی بات کا انتقام لیا ہے۔

سیاسی راہنماؤں چاہے وہ خواتین ہوں یا مرد حضرات سب کو سیاست میں شائستگی ،رواداری اور برداشت کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، کیونکہ عوام اپنے قائدین کی تقلید کرتے ہیں ان کے فیشن کا اپناتے ہیں، گندی سیاست سے معاشرے پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں،گند کو جس قدر اچھالا جائے گا اس کا کچھ نہ کچھ حصہ اپنے اوپر بھی گرتا ہے اور گند آخر گند ہے اور گندگی سے بچنا لازمی ہے۔

عائشہ گلالئی یہ مت سمجھے کہ اس نے عمران خان کو گندہ کیا ہے ۔ نہیں بی بی نہیں تم بھی گندی ہو رہی ہو، عائشہ گلالئی! اگرسمجھو تو ۔کیونکہ بات ہے سمجھنے اور سمجھانے کی۔

عائشہ گلالئی اور عمران خاں کے حوالے سے تحقیقات کرنے والی کمیٹی کے کاندھوں پر بہت بھاری ذمہ دار ی ڈال دی گئی ہے، اس کمیٹی کو مکمل غیر جاندار رہ کر اپنا کام کرنا ہوگا اور سچے کو سچا اور قصوار کو قصوروار قرار دینا ہوگا، اگر بقول چودہری شجاعت حسین ’’مٹی پاؤ جی‘‘ کی کوشش کی گئی تو لوگ جو پہلے ہی پارلیمنٹ کے ممبران سے نالاں رہتے ہیں مزید متنفر ہوجائیں گے۔

سیاست دانوں کی پارلیمنٹ کو اپنا وقار بحال کرنا اور رکھنا ہوگا۔اندرونی اور بیرونی لوگ ہمارا تمسخر ارا رہے ہیں ہم بحیثیت قوم اپنے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل سے جگ ہنسائی کو موجب بن رہے ہیں۔دنیا چاند کو مسخر کرنے کے بعد اب آگے بڑھ رہی ہے لیکن ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں جہاں صدیوں پہلے کھڑے تھے۔

ذوالفقا رعلی بھٹو سے لیکر عمران خان تک لگائے گئے الزامات کسی بھی سیاستدان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے اور نہ ہی ان کی عزت ،شہرت اور وقار کو گزند پہنچا پائے ہیں، عائشہ گلالئی کے الزامات بھی اپنی موت آپ مرجائیں گے۔

Comments are closed.