پنجاب کے تسلّط سے آزاد ہوئے بغیر پاکستان کی بقاء نا ممکن ہے

آصف جاوید

کہا جاتا ہے کہ چودہ 14 اگست 1947 کے دن پاکستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا تھا۔ پاکستان ضرور انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا تھا، مگر پاکستان کے مجبور و مہقور عوام آزاد نہیں ہوئےتھے۔ پاکستانی عوام ابھی بھی غلام ہے۔ پاکستانی عوام غلام ہیں اپنے عسکری آقاؤں کے، پاکستانی عوام غلام ہیں اپنے ملک کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے، پاکستانی عوام غلام ہیں استعماری و استحصالی قوّتوں کے۔ پاکستانی عوام غلام ہیں جاگیر دارنہ تسلّط کے، پاکستانی عوام غلام ہیں ملّاملٹری اتّحادکے شکنجے کے۔

پاکستان کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں، کہ پاکستان کا قائم رہنا مشکل نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اگر بروقت تدارک نہ کیا گیا تو پاکستان ہر حال میں ٹوٹے گا، پاکستان ایک غیر فطری ریاست اور عسکری اداروں کی چراہ گاہ بن چکا ہے۔ عسکری اداروں کا مفاد جنگ وجدل کا ماحول قائم رکھنے اور دفاع کے نام پر قومی وسائل اور آمدنی کے بے دریغ استعمال پر ہے۔ نشاندہی کرنے والے معتوب قرار دے کر راندہِ درگاہ کئے جارہے ہیں۔

پاکستان کے موجودہ حالات کی خرابی کی ساری ذمّہ داری پنجاب پر عائد ہوتی ہے۔ پنجاب نے اپنی اجارہ داری اور اپنا تسلّط قائم رکھنے کے لئے ایسے حالات پیدا کئے کہ جس کی وجہ سے بنگالی ہم سے ناراض ہوئے اور مشرقی پاکستان 1971 میں ہم سے جدا ہوگیا، مگر پنجاب نے اپنی روِش نہ بدلی۔

طاقت کے سرچشمے یعنی فوج پر پنجاب کا قبضہ ہے۔ فوج میں 75 فیصد سے زائد جوان، 85 فیصد سے زیادہ افسران اور 95 فیصد سے زیادہ جنرل پنجابی ہیں۔ یہ قومی نہیں، بلکہ پنجابی فوج ہے۔ اور یہی پاکستان کا المیہ ہے۔ مگر یہی پنجاب کی بقاء بھی ہے۔ پنجاب کی بقا اقتدار و طاقت کے سرچشمے یعنی مسلّح افواج اور انٹیلیجنس ایجنسیوں پر اپنا کنٹرول رکھ کر باقی تینوں صوبوں کوغلام بنا کر رکھنے میں ہے۔

مگر یہ واضح رہے کہ آئی ایس آئی اور پنجابی فوج باقی تین صوبوں کو اپنا غلام بنا کر طویل عرصہ تک نہیں محبوس نہیں رکھ سکتے۔ پنجاب کے غاصبانہ رویّے سے مایوس ہو کر اب باقی ماندہ تین صوبے بھی پنجاب سے علیحدگی اور پنجاب کے تسلّط سے آزادی حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ اربابِ اقتداریہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ ملک برِّ صغیر کے مسلمانوں نے ایک مشترکہ جدوجہد سے بنایا تھا، یہ ملک آئی ایس ائی اور فوج نے نہیں بنایا تھا۔ یہ فوج تو اس وقت بیرکوں میں بند اور جنرل گریسی کی کمانڈ میں تھی۔

پنجاب کی زمینی صورتحال یہ ہے کہ پنجاب بہت ہی کم قدرتی وسائل والا ایک لینڈ لاک صوبہ ہے۔ پنجاب اپنی معاشی بالا دستی قائم رکھنے کے لئے باقی تین صوبوں سے علیحدہ رہِ کر زندہ نہیں رہ سکتا ہے۔

پنجاب پہلے ہی اپنے حصّے کا پانی بھارت کو فروخت کرچکا ہے۔ پنجاب کا سارا دارومدار چناب، جہلم اور دریائے سندھ کے پانی پر ہے۔ پنجنند تک پہنچتے پہنچتے پنجاب اپنے حصے کا سارا پانی استعمال کر چکا ہوتا ہے، پھر بھی اس کی نظر دریائے سندھ کے باقی پانی پر رہتی ہے۔ پنجاب کے پاس قدرتی وسائل کی بہت کمی ہے، نہ تیل ہے، نہ کوئلہ، نہ گیس، نہ معدنیات، نہ سمندر، نہ بندرگاہ۔

پنجاب کی بقاء اقتدار اور طاقت کے سرچشمے افواجِ پاکستان میں اپنے حق سے زیادہ قبضہ، چھوٹے صوبوں کے وسائل پر قبضہ ، اور حب الوطنی کا ڈھنڈورا پیٹ کر باقی تین صوبوں کا استحصال کرنے پر ہے۔ جب تک باقی تین صوبے اپنے وسائل پنجاب کے قبضے سے آزاد نہیں کرائیں گے، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور سماجی برابری کا مطالبہ نہیں کریں گے، پنجاب کی غلامی میں رہیں گے۔،

پنجاب اپنی بقاء اور بالادستی کے لئے فو جی طاقت اور انٹیلیجنس ایجنسیوں پر انحصار کرتا ہے۔ عسکری اسٹیبلشمنٹ حب الوطنی کے کھیل کی آڑ میں باقی تین صوبوں کے عوام کو بلیک میل کرتی ہے اور استحصال کرتی ہے۔ حقوق کے لئے آواز، قومی وسائل و اقتدار میں مساوی شراکت کا مطالبہ کرنے والے رہنمائوں اور ہم جیسے معمولی قلم کاروں پر انڈیا کے ایجنٹ اور پاکستان کے غدّار ہونے کے لیبل لگا ہماری آوازوں کو خاموش کرایا جاتا ہے۔

فوج اور انٹیلیجنس ایجنسیوں پر اجارہ داری، وفاق اور قومی اداروں پر قبضے کے بعد پنجاب کی اس وقت ساری توجّہ کالا باغ ڈیم بنانے پر ہے۔ کالا باغ ڈیم اس وقت تک نہیں بننا چاہئے جب تک باقی تین صوبے اس پر تیّار نہ ہوں، آئینی گارنٹی کی بھی ضرورت ہوگی۔ کالا باغ ڈیم اگر بن بھی جائے تو بھی ڈیم کا کنٹرول پنجاب کے پاس نہیں ہونا چاہئے، ورنہ باقی تین صوبوں کے عوام پانی کی ایک ایک بوند کو ترسیں گے، اس کے علاوہ افواجِ پاکستان سے پنجاب کی اجارہ داری ختم کرکے اس ادارے کو ایک قومی فوج کا درجہ دینے کے لئے پورے ملک کے عوام کی متناسب نمائندگی کی بھی لازمی ضرورت ہے۔

انٹیلیجنس ایجنسیوں کو اپنے مکروہ کھیل بند کرکے اپنی آئینی حدود کا پابند ہونا پڑے گا، اگر مندرجہ بالا مسائل کا تدارک نہیں گیا گیا تو یاد رکھا جائے کہ پنجاب کے غاصبانہ قبضے سے آزادی کی لہر بیدار ہوچکی ہے۔ بلوچستان میں آزادی کی جنگ عروج پر ہے۔ سرائیکی اپنا صوبہ، قومی وسائل اور شراکت اقتدار میں مساوی شرکت چاہتے ہیں۔ سندھ شہری کے عوام اپنا الگ صوبہ اور وسائل و اقتدار میں مساوی شراکت مانگتے ہیں۔ گریٹر پختونستان کی تحریک شروع ہوچکی ہے۔ پٹھان اب بلاجواز مرنے کے لئے اور جنگ کا ایندھن بننے کے لئے بالکل بھی تیّار نہیں ہے۔ سندھی عوام پنجاب کے تسلّط سے آزادی کے لئے سندھو دیش کا مطالبہ بڑے عرصے سے کررہے ہیں۔ ایسے حالات میں پنجاب کے تسلّط سے آزاد ہوئے بغیر پاکستان کی بقاء نا ممکن ہے

9 Comments