سیکولرازم عہدِ حاضر کا واحد سچ 

یوسف صدیقی

آج اکیسویں صدی کے دُوسرے عشرے میں بھی مذہبی تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں دُنیا میں ’’پتھر ‘‘ کے دُور کے قوانین کو نافذ کرنے کی ’’جدو جہد ‘ ‘ کر رہے ہیں۔دُنیا نے اِکیسویں صدی تک پہنچنے سے پہلے دُورانِ سفر کئی حکومتی و رِیاستی ’’ماڈَل‘‘ دیکھے ہیں۔ تاریخ اِنسانی میں خلق نے یورپی فاشزم ،رُوسی پرُولتاریہ کی آمریت، ماضی کے ہندوستانی اُور فرانسیسی بادشاہت کے نظام کی گھٹن اُورتاریک اِفغان رَجعت پرستی کا دوربھی دیکھا ہے ۔اُور آج ترقی یافتہ دنیا سیکولرازم کے فوائد سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔آج کا جدید دور سیکولر ازم کا دور ہے یعنی سیاست سے مذہب کا عمل دخل ختم کرنا۔ 

دُنیا نے اِن سب نظاموں سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔کمیونزم کے ماڈل میں جب فرد کی اظہارِ رائے کی آزادی ’’بین‘‘ ہو گئی ،تو یہ نظام بھی اِنسانیت کے لیے ناقابلِ قبول ٹھہرا ۔ہٹلر اُور مسولینی نے ہزاروں افراد کا خون بہایا ،اُور یورپ میں ’’سرمایہ داروں کی آمریت ‘‘ کی بنیاد رکھی۔آخرکار ’’فاشزم ‘‘کو بھی دنیا نے ناقابل قبول گردانا گیا ۔مذہبی آمریت کو تو روزِ اَزل سے ہی کسی نے قبول نہیں کیا ۔

رجعت پسندی کے نظام حکومت کوکوئی بھی ذِی شعور قبول نہیں کر رہاہے ۔ ہندوستان میں مولانا وحید الدین خان ، جماعت اسلامی اور درالعلوم دیوبندہند کے ذمہ دار ان ’’سیکولرازم ‘‘ کے نفاذ کی بات کر تے ہیں۔ اُور کہتے ہیں کہ ہندوستان کو ایک سیکولر رِیاست ہونا چاہیے۔دُوسری طرف پاکستان کی مذہبی تنظیمیں سیکولراز م سے محض اِس لیے’’ الرجک ‘‘ہیں کہ اگر انہوں نے پاکستان میں سیکولرازم کے نفاذکی وکالت شروع کر دی توان کا سیاسی و مذہبی کاروبار بند ہو جائے گا !۔

پاکستان میں اسلام کے ٹھیکے دار اپنی ہر تقریر او ر تحر یر میں سیکولرازم کے نظریے کو لتاڑتے رہتے ہیں ۔ہمارے ہاں سیکولرازم کی تعریف کر نے کے لیے جن کتابوں کا سہارا لیا جاتا ہے ۔وہ سب’’ رَجعتی ملاؤں‘‘ کی لکھی ہوئی ہیں۔اِس وقت مولوی مودودی کی کتاب ’’تنقیحات‘‘ کے مطابق دنیا کہ اندر ہونے والی تما م برُائیوں کی وجہ ’’تہذیبِ مغرب ‘‘ ہے ۔اَب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مشرق کی سماجی برُائیوں کو ہم مغربی تہذیب کے کھاتے میں کیسے ڈالیں؟۔

مثلاََ پاکستان کے اندر شراب نوشی کی اجازت نہیں ہے ۔ہم اپنے ’’ملاؤں‘‘ اُور’’ پیروں‘‘ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے شراب کو’’حرام‘‘ قرار دَے چکے ہیں !۔کیا شراب کوحرام قرار دینے کی وجہ سے شراب کی تجارت اُور کھپت میں کمی آئی ہے ؟؟۔ اسی طرح یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا شراب نوشی پر پابندی لگنے سے شراب بنانے والے اُور مئے نوشی کرنے والے باز آ گئے ہیں؟؟۔اِس طرح مغرب میں ہم جنس پرستوں کو آپس میں شادیاں کر نے کی آزادی ہے ۔جبکہ پاکستان میں ہم جنس پرستی ’’گناہ ‘‘ اور ’’جرم‘‘ سمجھا جاتا ہے ۔ اُورہم جنس پرستی کی سزا سماجی اور قانونی طور پر بہت سخت ہے ۔سوال یہ پیدا ہو تا ہے کیا ہم جنس پرستی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے سے ہم جنس پرستی ختم ہو گئی ہے؟۔کیاہمارے اسکولز،ہاسٹلزاور دینی مدارس ہم جنس پرستی کے گڑھ نہیں بن چکے ہیں؟؟۔

سچ تو یہ ہے کہ ہماری مذہبی جماعتوں کی ’’شب بیداریوں‘‘ میں ہونے والی اغلام بازی کسی سے بھی اب کسی بھی فرد سے مخفی نہیں ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم جنس پسندی اور شراب کوحرام قرار دینے کی نوبت کیوں پیش آئی ؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ سب ریاست کے ’’مسلمان‘‘ ہونے کی وجہ سے ہے ۔ریاست کا جب ’’مذہب ‘‘ ہو گا توظاہر ہے اکثریت کے ہاتھوں مذہبی اقلیتوں،اور کمزور طبقوں پر ظلم بھی ہو گا ۔یہ ظلم جب انڈیا میں ہوتا ہے تو پاکستان کی مذہبی تنظیمیں سراپا احتجاج ہو جاتے ہیں ۔اور انڈیا کی حکومت کو’’سیکولر ‘‘ہو نے کا دَرس دیتے ہیں۔لیکن جب یہ ظلم پاکستان کی ریاست کے ہاتھوں ہوتا ہے تویہ ’’جماعتی ساتھی ‘‘ اس ظلم کا ساتھ دیتے نظر آتے ہیں۔ 

ہمارے ہاں پاکستان میں عیسائیوں پر ہونے والے ظلم کو ’’جہاد‘‘ کہنے والوں کی کمی نہیں ہے ۔لیکن اگر ’’گاؤ رکھشاؤں‘‘ کی طرف سے مذہب کے نام پر انڈیا میں ظلم ہو تو ہماری مذہبی جماعتوں کو انسانی حقوق کا مروڑ اُٹھنا شرو ع ہو جاتا ہے ۔جب ہندوستان میں جلال الدین عمری اور مولانا وحید الدین خان کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آتا ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہونا چاہیے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ریاست سیکولر ہوتی ہے ۔اُور سیکولرازم میں معاشرے کی تمام اکائیوں کو مذہب پر عمل کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔اس لیے سیکولراز ام عہدِ حاضر کا واحد سچ ہے اور اس سچ سے انکار ممکن نہیں ہے ۔ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ،کیونکہ جب ریاست کا مذہب ہو گا تو ریا ست فرد کی اِنفرادی زندگی میں مداخلت کر ے گی ۔اور اس ریاستی مداخلت سے کئی قسم کی پیچیدگیا ں جنم لیتی ہیں اور جرائم کی رفتار بھی بڑھ جاتی ہے ۔

ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ سیکولرازم ’’لادینی نظام زندگی ‘‘ ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا ریاست ’’دین دار ‘‘ بن کر چل سکتی ہے ؟۔اس کا جواب یہ ہی ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا ۔ہمارے ہاں سب سے زیادہ طاقتور طبقہ جو ریاست کی علامت ہے وہ فوج ہے ۔یا ایوب خان سے لیکر قمر باجوہ تک کسی نے ’’داڑھی‘‘ رکھی ہے ؟۔جنرل ضیا الحق جو کہ ایک کٹر’’ مذہبی ملاں‘‘ کے روپ میں نمودار ہوا تھا۔ وہ بھی ’’داڑھی‘‘ نہ رکھ سکا ۔

پاکستان کا سماج مذہب کو انفرادی سطح تک محدود رکھنے کے حق میں ہے ۔پاکستان میں تھیا کریسی کو کبھی بھی ریاستی سطح تک نہیں اپنایا جا سکتا ۔الیکشن میں مذہبی جماعتوں کو بری طرح دُھتکار دیا جاتاہے۔ لیکن عوامی سیاسی جماعتیں سیکیورٹی ایسٹیبشلمنٹ کے حمایت یافتہ ’’رجعت پسندوں‘‘ کے نرغے میں آ کر کچھ انتہا پسندانہ اقدامات کر لیتی ہے جو پاکستانی معاشرے کو تباہی کے راستے پر لے جارہے ہیں ۔ لہذا پاکستانی سماج اور ریاست کو ایک خوشحال اور پرامن ریاست بنانے کے لیے سیکولر ازم (اختیار کرنا ہوگا)یعنی مذہب اور سیاست کو علیحدہ علیحدہ کرنا ہوگا۔

3 Comments