کراچی میں روہنگیا برمی بنگالی مسلمانوں کی حالتِ زار

آصف جاوید

پوری دنیا میں ایک بین الاقوامی اصول رائج ہے، اور وہ اصول یہ ہے کہ تارکین وطن اگر کسی ملک میں تین سال گزاردیں تو انہیں اس ملک کی شہریت دے دی جاتی ہے۔ آج یورپ اور امریکہ و کینیڈا میں آباد خوشحال پاکستانی اس ہی اصول کی بنیاد پر یوروپی ممالک، امریکہ و کینیڈا کے خوشحال اور باعزّت شہری ہیں۔

یہ روہنگیا مسلمان جو کہ سقوطِ ڈھاکہ سے قبل کراچی میں آباد ہیں، اور برمی النسل بنگالی کہلائے جاتے ہیں ، یہ عموماً کراچی کے سمندر کے کنارے آباد مچھیروں کی بستیوں میں مقیم ہیں۔ ان کی زیادہ تر بستیاں ابراہیم حیدری سے لے کر ریڑھی گوٹھ کے درمیاں سمندر کی ساحلی پٹّی پر آباد ہیں۔

ان لوگوں کی اکثریت ماہی گیری یعنی فشنگ کی صنعت سے وابستہ ہیں، ان کی بستیاں زندگی کی تمام ترسہولتوں سے محروم جھونپڑیوں پر مشتمل ہوتی ہیں، جہاں نہ بجلی ہے نہ پانی اور نہ سیوریج ، نہ اسکول نہ اسپتال ، نہ کوئی ٹرانسپورٹ، یہ غریب روہنگیا مسلمان جو شکل و صورت اور بودو باش سے بنگالی لگتے ہیں، پولیس اور مقامی انتظامیہ کے ظلم کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔

اکثر پولیس ان غریب بنگالی روہنگیا مسلمانوں کو راستہ چلتے ہوئے روک کر شناختی کارڈ طلب کرتی ہے اور، شناختی کارڈ نہ ہونے پر ہزار پانچ سو روپیہ رشوت لے کر چھوڑتی ہے۔ یہ غریب لوگ گہرے اور کھلے سمندر میں بغیر کسی حفاظتی اقدامات اور نیوی گیشن ایکیوپمنٹ کے جال کے زریعے فشنگ ٹرالرز اور لانچوں پر مچھلی اور جھینگا پکڑتے ہیں، جو کہ باقاعدہ ایکسپورٹ ہوتا ہے اور لوکل مارکیٹ کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔

پولیس کے ڈر اور خوف کی وجہ سے یہ لوگ اکثراپنی بستیوں میں محبوس رہتے ہیں، شہر میں نہیں آتے جاتے، زیادہ تر وقت سمندر میں لانچوں پر مچھلیاں پکڑنے میں گزارتے ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کو 46 سال گزر چکے ہیں۔ ان 46 سالوں میں کراچی میں روہنگیا مسلمانوں کی تین سے زیادہ نسلیں جوان ہوچکی ہیں، مگر زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ان بدقسمت مسلمانوں کو نہ تو پاکستان کا شہری تسلیم کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کو زندگی کی بنیادی سہولتیں مہیّا کی جاتی ہیں۔

نیشنل ایلین رجسٹریشن اتھارٹی کے پاس موجود اعداد و شمار کے مطابق کراچی کی ان بستیوں میں تقریبا” 5 لاکھ سے زیادہ برمی بنگالی (روہنگیا مسلمان) آباد ہیں۔ لیکن ان برمی بنگالی( روہنگیا مسلمان )کے مقامی نمائندگان کے مطابق ان کی تعداد تقریبا دس لاکھ کے قریب ہے، کیونکہ 5لاکھ آبادی کا اندازہ 1998 کی مردم شماری میں قائم کیا گیا تھا ، جس کو اب تقریبا” 19 سال گزرچکے ہیں۔

راقم الحروف کے مشاہدے کے مطابق کراچی میں برمی بنگالی (روہنگیا مسلمان) سقوطِ ڈھاکہ سے قبل آباد ہیں، ، راقم الحروف کی تقریباًساری زندگی چونکہ کراچی میں گزری، اور سماجی علوم کے طالب علم کے طور پر کراچی کے بارے میں راقم الحروف کا مشاہداتی علم بہر حال کسی دستاویزی ثبوت کا محتاج نہیں ہے۔

راقم الحروف کو اپنے لڑکپن کا وہ منظر اچھّی طرح یاد ہے کہ سنہ 71 کی جنگ میں میرے محلّے کی مسجد کا پیش امام ایک برمی بنگالی روہنگیا مسلمان تھا، جس پر محلّے کے چند لفنگوں نے بلیک آؤٹ کے زمانے میں ٹارچ سے سگنل دینے کے الزامات عائد کئے تھے ، اور وہ غریب پیش امام رو رو کر لوگوں کو اپنے بے گناہی کا یقین دلا رہا تھا۔ مگر بنگالیوں سے نفرت کا وہ عالم تھا کہ کوئی اس غریب پیش امام کی بات کا یقین نہیں کررہا تھا ، بالآخر اس پیش امام کو مسجد چھوڑ کر جانا پڑا۔

راقم الحروف کی یادداشت کے مطابق ان روہنگیا برمی بنگالیوں کی زیادہ تر آمد سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بہاریوں کی آمد کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی،اور اس میں اضافہ جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں ہوا تھا، جب مارشل لاء حکومت نے ڈھاکہ کے کیمپوں میں مقیم محصور پاکستانی جنہیں عرفِ عام میں بہاری کہا جاتا ہے کو سرکاری طور پر پاکستان لانے اور آباد کرنے سے انکار کردیا تھا اور یہ بہاری کیمپوں سے فرار ہو ہو کر اپنے طور پر کشتیوں پر بیٹھ کر اور انڈیا کے راستے کراچی میں آکر آباد ہوتے رہے تھے، اور جنرل ضیاء کی حکومت بوجوہ چشم پوشی کرتی رہی تھی۔

روہنگیا مسلمان بھی ان ہی بہاریوں کی آڑ میں اس ہی دور میں کراچی آتے رہے ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر 1980 سے 1998 کے درمیان کراچی میں آکر آباد ہوئے ہیں۔ کراچی میں اراکان آباد کے نام سے برمی بنگالی مسلمانوں کی ایک بستی بھی موجود ہے جو کہ برما میں اراکان صوبے سے آئے ہوئے برمی پناہ گزینوں نے آباد کی ہے۔

برما میں روہنگیا مسلمانوں پر بدھ دہشت گردوں اور بدھ آرمی کے ہاتھوں روہنگیا مسلمانوں کے قتلِ عام کا ماتم کرنے والوں سے درخواست ہے کہ حکومتِ پاکستان کو بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کا واسطہ دے کر مجبور کریں کہ حکومت پاکستان ان روہنگیا مسلمانوں جو کہ برمی یا بنگالی کہلاتے ہیں باعزّت شہریت دے کر پاکستان کا شہری تسلیم کرے، انہیں شناختی دستاویزات اور بنیادی شہری سہولیات مہیّا کرے۔ یہ پاکستان کا ان روہنگیا مسلمانوں پر احسان نہیں ہوگا بلکہ ایک ریاستی ذمّہ داری کی تکمیل ہوگی ، جو کہ ریاست تقریبانصف صدی سے ادا کرنے سے اجتناب کررہی ہے۔

اقوامِ متّحدہ کے عالمگیر منشور برائے انسانی حقوق کے شق نمبر 13، 14 اور 15 اور اس کی تمام ذیلی شقوق میں دنیا بھر کے انسانوں کو یہ حقوق دئے گئے ہیں کہ ہر شخص کو ایذا رسانی سے بچنے کے لئے ہجرت کرنے اور دوسرے ممالک میں پناہ ڈھونڈنے اور جب پناہ مل جائے تو اس سے فائدہ اٹھانے کا حق حاصل ہے۔ ہر شخص کو قومیت حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔

پاکستان پر لازم ہے کہ بین الاقوامی قوانین کے احترام میں پاکستان میں برسوں سے مقیم روہنگیا مسلمانوں کو باعزّت شہری حقوق اور پاکستانی قومیت کی دستاویزات دی جائیں۔

One Comment