بری قسمت یا برا نظام

فرحت قاضی

حالات کو جوں کا توں رکھنا پرانے بالادست طبقات کے مفاد میں تھا اس لئے وہ قسمت کا پرچار کرتے رہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ جب ایک شخص اپنے حالات کو اپنامقدرسمجھ لیتا ہے تو پھر اس میں تبدیلی کی خواہش پیدا نہیں ہوتی ہے اس کے علاوہ اگر کسی سے کہا جائے کہ امارت اور غربت نصیبوں کا کھیل ہے تو وہ پیروں اور ملنگوں کے پاس جائے گااور اگر یہ کہا جائے غریبوں کی غربت موجودہ طبقاتی نظام کا خاصہ ہے تو پھروہ اس نظام کے خلاف جدو جہد کرے گا۔

بالآخرلوگ اپنے برے حالات، غربت اور مسائل کو تقدیر سے کیوں باندھتے ہیں؟

ہم بچپن سے ہی اپنے والدین، علاقہ کے مولوی، مالکان اور محلہ کے باسیوں سے یہی سنتے آرہے ہیں کہ یہ خوش نصیب اور وہ بدنصیب ہے یہی خیال بچے بھی بعد ازاں اپنے دفاع میں استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں چنانچہ ایک طالب علم امتحان میں فیل ہوجاتا ہے تو وہ اس کا ذمہ دار اپنی تقدیر کو ٹھہراتا اور ان پڑھ ماں باپ اس کے اس خیال میں برابر کے شریک ہوجاتے ہیں اسی طرح جب کوئی روزگار کی خاطر کہیں دور چلا جاتا اور وہاں پر کسی حادثہ کا شکار ہوکر مرجاتا ہے تو دیہاتیوں کی زبان پر ہوتا ہے کہ اس کے نصیب میں وہاں پر فوت ہونا لکھا تھا۔

بری قسمت کا رونا زیادہ تر ناخواندہ غریبوں کو کرتے دیکھا جاتا ہے یہ خود کو بدقسمت کہتا ہے مگر کسی ٹھیکیدار، اعلیٰ آفیسر یا صاحب ثروث کی امارت اور اس کی شان و شوکت پر نگاہ ڈالتا ہے تو پھر اس کو خوش نصیب کے نام سے یاد کرتا ہے ایک دولت مند تو یہ جانتا ہے کہ اس کے پاس پیسہ کیسے اور کہاں سے آیا مگرایک ایسا غریب جس کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس کے مالک یا گاؤں کے وڈیرے کے پاس پیسہ کن ذرائع سے جمع ہوا ہے تو اس کا قسمت پر ایک سو ایک فی صد یقین ہوتا ہے چنانچہ جس انسان کا تقدیر، نصیب اور قسمت پر یقین ہوتا ہے اسے اکثر کسی زندہ پیر یا زیارت پر ماتھا رگڑتے اورمنت و زاری کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔

آج سے چند برس پہلے ناخواندگی کا چاروں اور راج ہوا کرتا تھا اور ایک بے کس انسان اپنے آس پاس جاگیردار اور سینکڑوں غریب محنت کشوں کو اپنی شب و روز کی مشقت کے باجودبدحال پاتاتھا تو یہ ماحول اور موازنہ اس کے قسمت پر یقین کے لئے کافی ہوتا تھا علاقہ کا مولوی، پیر ، میاں، نجومی یا پھر کوئی دوسرا مفلس یہی کہتا تو اس کے یقین محکم میں کوئی چیز مانع نہیں رہتی تھی علاوہ ازیں وہ امیروں کو نسل در نسل امیر اور غریبوں کو اسی طرح نسلاً غریب، بدحال اور مسائل سے پریشان دیکھتا چلا آرہا تھا چنانچہ لوگوں کے پرچار اور اپنے ارد گرد کے ماحول سے وہ یہ نتیجہ اخذ کرتا تھا کہ کچھ لوگوں کی قسمت اچھی اور کچھ کی بری ہوتی ہے۔

یہ تو ایک عام شہری کے تصورات تھے جو وہ ایک دوسرے کو منتقل کرتے رہتے تھے جبکہ عوام کی ناخواندگی اور سادہ لوحی سے مالی فائدہ اٹھانے کے خواہاں نصیب کا شعوری طور پر چار کیاکرتے تھے ان میں وڈیرہ،میاں اور پیر پیش پیش تھے وہ سادہ لوح عوام کے کانوں میں ڈالتے رہتے تھے کہ قسمت کو دعاؤں اور ان کے تریاقی تعویزوں سے ہی بدلا جاسکتا ہے وہ اپنے تعویزوں کی تعریف میں مثالیں پیش کرکے عوام کو الّو بنانے میں مہارت تامہ رکھتے تھے بہر حال جب تک جاگیرداری اور قبائلی نظام پوری آب و تاب سے قائم رہا جاگیردار اور کھیت مزدور کا رشتہ رہا دیہاتیوں کا اس طرز کے پرچار اور پروپیگنڈہ پریقین رہا اور وہ اپنی غربت اور مصائب کو اپنی قسمت یا اللہ کا لکھا کہہ کر سہتے اور برداشت کرتے رہے۔

قیام پاکستان سے قبل متحدہ ہندوستان میں مسلمان قائدین اپنے ہم مذہب بھائیوں کو یہ یقین دلاتے رہے کہ ہندو آپ کا استحصال کررہے ہیں انہوں نے اہم اور بنیادی محکموں کے عہدے خود سنبھال رکھے ہیں اور یہ ہمارے ازلی دشمن ہیں حتیٰ کہ مذہب کے بھی مخالف ہیں ان ہی نے انگر یزوں کو ہندوستان پر حملہ کرکے مسلمانوں کی حکمرانی ختم کر نے کی دعوت دی تھی اور جب تک ہندوستان پر برطانوی راج رہے گا آپ کی یہی غربت و بدحالی برقرار رہے گی لہٰذا اٹھو اور ان کے خلاف جدوجہد شروع کرو اور جب یہ جدو جہد اپنے عروج پر پہنچی تو ان ہی لیڈروں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ انگریز چلا گیا تو ہندو بنیا تم پر حکمرانی کرئے گا اور تمہاری اندھیری رات کا خاتمہ نہیں ہوگا۔

اس طرح مسلمان قائدین مسلمان عوام کو ان کی غربت و افلاس کا سبب متحدہ بھارت میں انگریز کی موجودگی اور ہندوؤں کو ٹھہراتے رہے ان حالات کو بدلنے کی کوشش میں کئی مسلمان لقمہ اجل بنے اور بالآخر پاکستان کی شکل میں ان کو ایک ملک ملا لیکن انہوں نے دیکھا کہ متحدہ بھارت میں ان کی تقدیر تو انگریز اور ہندو کی وجہ سے بری تھی مگر اس میں پاکستان بننے کے بعد بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی وہ آج بھی بدستور بری ہے حالانکہ اب تو ریاست کے ہر شعبہ کے ارباب اختیاران کے مسلمان بھائی ہیں جو ایک خدا اور ایک رسول ؐ پر ایمان رکھتے ہیں ۔

بری قسمت کے جواز میں کئی دلچسپ دلائل پیش کئے جاتے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو یکساں پیدا کرتا تو پھر محنت کون کرتا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کو بھلا کون یاد رکھتا یہ تفریق اور تقسیم تو اسی لئے ہے کہ دولت والا اپنی دولت کو دیکھ دیکھ کر اس کا شکریہ ادا کرتا رہے اور غریب اپنی بدنصیبی کو خوش نصیبی میں بدلنے کے لئے عبادت گاہوں، پیروں اور فقیروں کی درگاہوں پر جاکر ان کی دعائیں تلاش کرتا رہے۔

عام شہری کو اپنی قسمت بدلنے کا ایک موقع خودبرطانوی حکومت نے فراہم کیا اس نے ہندوستان کے طول وعرض میں سرمایہ دارانہ تعلیمی اداروں کاا جرا کیا تو وہ مکتبہ فکر جو عوام کو یہ یقین دلاتا رہتا تھا کہ غربت اور امارت ازل سے لکھے گئے ہیں جدید تعلیم کے خلاف صف آراء ہوگیا بھارت کے ان علاقوں میں جہاں انگریزی تعلیم کا خیر مقدم کیا گیا وہاں حالات بدلتے گئے غریب کا بیٹا پڑھ لکھ کر تھانے دار، ٹھیکیدار ،کسی محکمہ کا افسر اور بابو بھرتی ہوتا گیا تو اس کے ساتھ ہی پورے خاندان کی قسمت بھی بری سے اچھی ہونے لگی ان کی دیکھا دیکھی دیگرمحنت کشون کو بھی یہ محسوس ہونے لگا کہ ان کانصیب برا نہیں بلکہ پڑھ لکھ کر اسے بدلا بھی جاسکتا ہے چنانچہ ان دیہاتوں اور شہروں میں خواندگی میں اضافہ سے ترقی اور خوشحالی آتی رہی البتہ جن دیہاتوں، قصبوں ، شہروں اور گاؤں میں عوام اس کے پیچھے لٹھ لے کر پڑگئے تووہ پسماندہ رہ گئے۔

پاکستان میں اس نوعیت کے پرچار میں اس وقت کمی دیکھنے میں آئی جب وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو نے ملکی جلسہ و جلوس کے دوران اپنی گرجدار آواز میں افلاس اور ذلت کے مارے عوام سے کہا:
’’
یہ کہا ں لکھا ہے کہ غریب کا بچہ غریب اور دولت مند کا پیسے والا رہے گا‘‘

ان کے دور حکومت میں ملوں اور کارخانوں کے محنت کشوں کو ٹریڈ یونین سازی کی اجازت مل گئی بازار کے تاجروں اور ریڑھی بانوں نے اپنے لئے عہدیدار چنے اور اپنے ایکا اور اتحاد سے جاگیرداروں، انتظامیہ، بیورو کریسی اور دیگر ذمہ دار اور بااختیار مالکان کو یہ احساس دلایا کہ غریب عوام بھی ایک قوت ہے اس کے ساتھ ہی جب بھٹو نے عرب ممالک کا دورہ کرکے ان کو قائل کرلیا کہ ہمارے ملک کے محنت کش ان کی دولت اور خوشحالی میں مزید اضافہ کر سکتے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں غریب خاندانوں کے بچوں نے ان ریاستوں کارخ کیا اور وہاں کچھ عرصہ محنت مزدوری کرکے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو پیسہ بھیجنے لگے تو بری قسمت کا تصور پیچھے اور پیچھے ہوتا چلاگیا غربت کو غریب کی قسمت کہنے والوں کے منہ بھی بند ہوگئے وہ جانتے تھے کہ وہ پرچار کریں گے تو وہ جواب میں کہیں گے کہ غریب گل اور فقیر گل کا بیٹا سعودی عرب یا دبئی گیا تھا اور وہ اپنے ساتھ پیسہ کے علاوہ اپنے باپ اور بھائیوں کے لئے گھڑیاں اور کپڑے لایا ہے اور اپنی بہنوں یا بیٹیوں کی شادیاں اس دھوم دھام سے کرائیں کہ لوگ دنگ رہ گئے۔

اگرچہ بھٹو کے دور حکومت سے پہلے غریب اور امیر کے مابین جو طبقاتی تفاوت دکھائی دیتا تھا وہ ایک مرتبہ پھر دکھائی دے رہا ہے جنرل ضیاء الحق کے اسلامی دور سے یہ تقسیم مزیدبڑھ رہی ہے اور موجودہ حکومت میں عام آدمی کی قوت خرید اتنی نچلی سطح پر آگئی ہے کہ وہ چیزوں کو دیکھ تو سکتا ہے انہیں خرید نہیں سکتا ہے مگر اس کے باوجود وہ اسے اپنے نصیب سے نہیں جوڑتاکر تا ہے کیونکہ اس نے موجودہ نظام اور اپنی غربت کے مابین رشتے کو پالیا ہے اس نے اپنی قسمت کا رونا چھوڑ دیا ہے اور وہ جمہوریت، عدلیہ، صحافت کی آزادی ،ریاستی اداروں کے استحکام اور تعلیم کے فروغ اور عوام کے اختیارات کا خواہاں ہے اور نظام کی تبدیلی کے لئے تگ و دو بھی کررہا ہے۔

Comments are closed.