پاکستان درندوں کے شکنجے میں

انور عباس انور

آہ ۔۔۔! کیا لکھوں ۔۔۔ کیا کہوں
ایک اور معصوم کلی زینب مسل دی گئی
درندوں نے اس سے جینے کا حق چھین لیا
گھر سے وہ دینی تعلیم کے لیے باہر نکلی تھی
پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے قریب شہر قصور
ہاں وہیں قصور جو بلھے شاہ کا شہر ہے

ہاں وہیں قصور جہاں کے ایک نواب کے قتل کے الزام میں فخر ایشیا کو سولی لٹکا دیا گیا

سات سالہ معصوم زینب جس کے والدین اللہ کے حضور پیش تھے۔ عمرہ کے لیے مکہ اور مدینہ میں سربسجود تھے

ان بدقسمتی والدین کو کیا خبر تھی کہ جس وطن عزیز کو امن کا گہوارہ بنانے کی وہ دعائیں مانگ رہے ہیں

اسی وطن میں بسنے والے درندوں نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کے سکون کو اغواء کرلیا ہے۔ اور اس کے ننھے جسم کو بھیڑیے اپنی ہوس کے پنجوں سے نوچ رہے ہیں۔

سرزمین یثرب پر بھیگی آنکھوں سے جب انہوں ان کی ننھی پری زینب کے اغواء ہونے کی اطلاع ملی ہوگی تو ان پر کیا بیتی ہوگی؟ 

۔معصوم زینب کے ساتھ درندگی و زیادتی کا پہلا واقعہ نہیں 

گزشتہ ایک سال سے اب تک ایک درجن سے معصوم بچیوں کو اغوا کیا جاتا رہا اور انہیں درندے اپنی ہوس کا نشانہ بناتے رہے اور پھر ان معصوم کلیوں اور پھولوں کو موت کے گھاٹ اتار کر یوں گندگی کے ڈھیروں پر پھینکتے رہے۔

ان پھولوں اور کلیوں کے مالی حکمرانوں اور ان کے منظور نظر افسران کے سامنے سراپا احتجاج بنتے رہے انصاف کی دہائیاں دیتے رہے۔ ۔۔درندوں اور بھیڑیوں کو گرفتار کرنے کی التجائیں کرتے رہے۔ 
مگر
خود کو عوام کا خادم اعلی کہنے والے وزیر اعلی جو تاثر دیتے ہیں کہ وہ کامریڈ ہیں۔ جو انقلابی شاعر حبیب جالب کی نظمیں پڑھتے ہیں۔ ظالموں کو شہر لاہور کے بھاٹی چوک میں سرعام پھانسی لٹکانے کے دعوے اور وعدے کرتے ہیں۔

جویہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ وہ اس وقت تک چین کی نیند نہیں سوئیں گے جب تک ظالموں کو کیفرکردار تک نہیں پہنچالیتے۔ لیکن پنجاب کے خادم اعلی جو بات بات پر از خود نوٹس لینے کا عالمی ریکارڈ قائم کرچکے ہوں گے، قصور میں ایک سال سے سراپا احتجاج عوام کی پکار پر خادم اعلی نے از خود نوٹس لینے کی کیوں ضرورت محسوس ہوئی؟

قصور سے منتخب عوامی نمائندوں کے کانوں پر جوں کیوں نہ رینگی؟

قصور کی سڑکوں پر صدائے احتجاج بلند کرنے والے کیا انسان نہیں تھے؟ 

کیا اغواء ہونے والی بچیاں حکمرانوں کی بچیاں نہیں تھیں؟ معصوم زینب کی نعش ہفتہ بعد کوڑے کے ڈھیر پر سے ملی ۔ ان ایام میں خادم اعلی کو نیند کیسے آگئی؟ چند ماہ پیشتر ہی اسی قصور میں کمسن بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے اور ان کی وڈیوز بناکر فروخت کرنے کا کیس بھی منظر عام پر آچکا تھا اس میں ملوث ملزمان کو کیوں کر عبرتناک سزائیں دلوائی گئیں؟ اگر ایسا ہوجاتا ۔۔۔ اگر پہلی بچی کے اغواء کاروں کو قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا جاتا۔۔۔ چلو دوسری بچی۔۔۔پھر تیسری بچی کے گناہگاروں کو سرعام سولی پر لٹکانے کی سزا دیدی جاتی تو ۔۔۔!!!!

آج معصوم زینب درندوں ،بھیڑیوں کے ہاتھوں مسلے جانے سے محفوظ رہ جاتی۔ خادم اعلی نے گزشتہ روز ہی علماء و مشائخ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دین اسلام اور صاحب شریعت نبی مکرم کی پیروی کرنے اور انکا سچا غلام ہونے کے بلند وبالا دعوے کیے تھے۔

کیا خادم اعلی صاحب حضرت محمد صلعم کے جانشین حضرت عمر ابن خطاب کے یہ الفاظ بھول گئے کہ’’ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مرگیا تو روز محشر اللہ سبحانہ تعالی کے ہاں پکڑ ہوگی۔
کیا ان کی بادشاہت میں معصوم پھول کلیوں کا درندوں اور بھیڑیوں کے ہاتھوں مسلے جانے، انہیں ظلم و زیادتی کا شکار بنانے ، ان معصوموں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے والوں کو پکڑنے سے چشم پوشی کرنے، اپنے عوام کے حقوق سے غفلت برتنے پر روز محشر بارگاہ خدا وندی میں کیا جواب پیش کریں گے؟

خادم اعلی نے قصور کی ان معصوم بچیوں کو اپنی بچیاں کیوں نہ سمجھا؟ انہیں عباس شریف یا حمزہ اور سلمان شہباز کی بیٹیاں کیوں نہ خیال کیا گیا؟ان کے بڑے بھائی سابق وزیر اعظم نے قصور کی اغواء ہونے والی تمام بچیوں کو مریم نواز شریف تصور کرتے ہوئے انہیں ہوس کا نشانہ بنانے والوں کو سرعام عبرتناک انجام سے دوچار کرنے کے احکامات دئیے ۔

یہ ان کے لیے واضح پیغام ہے کہ متاثرین ان سے داد رسی کے لیے فریاد کرنے کی بجائے چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔۔۔ ان بچیوں کے غمزدہ والدین اسلام آباد کے ایوان اقتدار کے مکینوں اور تخت رائیونڈ کی جانب انصاف کے لیے دیکھنے کی بجائے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو پکار رہے ہیں۔

یہ عوام کا حکمرانوں پر عدم اعتماد ہے، جب عوام کا اعتماد اپنے حکمرانوں پر سے اٹھ جائے توحکمرانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ اقتدار کے دن ختم ہوگئے۔اللہ ان مظلوموں کے خون کا حساب ضرور ان سے لے گا۔ حکمرانوں ، ان کے وزیروں مشیروں اور دست و بازو شمار ہونے والے ادیبوں، دانشورونں، صحافیوں ،اینکرپرسزاور کالم مگاروں سے بھی جواب طلبی کی جائے گی باز پرس ہوگی کہ تم نے انہیں حالات کا آ ئینہ نہیں دکھایا تھا۔ 

آج لوگوں کی زبان زد عام ہے کہ یہ پاکستان نہیں جنگل ہے اور اس جنگل میں جنگل کا قانون ہے۔ لوگ برملا کہتے ہیں کہ اگر یہ زینب یا دیگر معصوم بچیوں کا تعلق اشرافیہ سے ہوتا۔۔۔کسی اعلی پولیس افسر کے خاندان سے کوئی رشتہ ناطہ ہوتا یا پھر کسی ارکان پارلیمنٹ کی بچیاں ہوتیں تو قاتل بھیڑیئے کب کے کیفرکردار تک پہنچ چکے ہوتے

2 Comments