اطلاعات کے مطابق صدربننے کے بعد مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ کا پہلا طبی معائنہ12 جنوری کو ہو رہاہے۔یہ وائٹ ہاؤس کے صدارتی قواعدوضوابط کے مطابق ایک معمول کی بات ہے، جیسے نئی گاڑی خریدنے کے چھ ماہ اور پھرسال بعد کمپنی کی طرف سے اس کے کَل پرزے ٹیسٹ کئے جاتے ہیں ۔
امریکہ کے کچھ ماہرین نفسیات نے طبی معائنہ کرنے والی ٹیم کو بالواسطہ اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کاتفصیلی دماغی اور نفسیاتی معائنہ بھی ضروری ہو گیا ہے۔ایک ماہر نفسیات نے تو چند ماہ قبل باقاعدہ ایک کتاب لکھ کرڈونلڈٹرمپ کونفسیاتی عوارض کا شکارقرار دے دیا تھا۔اسی طرح ایک سائکاٹرسٹ نے اسے شدیدقسم کی نرگسیت میں مبتلا مریض قرار دیاتھا۔اور پھرپچھلے ہفتہ منظر عام پہ آنے والی مشہورعالم متنازعہ کتاب (فائر اینڈ فیوری)میں بھی اسے بچگانہ اور نابالغ ذہن کا مالک قراردینے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شرافت ہے کہ اس نے ان تمام’’طبی فتوے‘‘دائرکرنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کو ضروری نہیں سمجھاحالانکہ اس سے قبل اس کا ایک صدارتی پیشرواسی نوعیت کا ایک مقدمہ جیت چکا ہے۔ویسے تو یہ بھی کسی منچلے نے کیاخوب کہا ہے کہ امریکہ کا صدر بننے کیلئے کسی نہ کسی حد تک خبطی اور جنونی ہونالازمی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح اس کے وہ قدامت پسند اور دائیں بازوسے تعلق رکھنے والے مذہبی پرستاربھی ان طبی فتووں کودرخوراعتناء نہیں سمجھ رہے جنہوں نے ٹرمپ کے صدرمنتخب ہوجانے کو خدائی نوشتوں کے عین مطابق اور اناجیلی پیشگوئیوں کاظہور قرار دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کو عہد حاضر کا’’سائرس اعظم ‘‘قرار دیا ہوا ہے۔
سائرس اعظم (پیدائش 600 قبل مسیح ( عظیم سلطنت فارس کاایک دانا،مشفق،دلیراورانسان دوست بادشاہ تھا۔وہ جبرواستحصال اور غلامی کاقلع قمع کرکے انسانی حقوق کو قائم کرنیوالا اور ہر قسم کی آزادی کاعلمبردارتھا جس میں آزادئ ضمیر اور آزادئ مذہب بھی شامل ہے۔اس کا ایک جاری کردہ شاہی فرمان ،جو ایک بیضوی سلنڈرپہ کندہ شدہ ہے، انسانی حقوق کا اولین چارٹرتسلیم کیا گیاہے۔اس کے حالات زندگی اور فلسفۂ حکومت ایک یونانی فلسفی و مؤرخ زینوفون (پیدائش 430 قبل مسیح )نے ’’سائروپیڈیا‘‘کے نام سے قلمبند کئے تھے جس کاانگریزی ترجمہ امریکی دارالصدر یعنی وائٹ ہاوس میں بھی آج سے کئی دہائی قبل صدرتھامس جیفرسن کے دور میں اہتمام کرکے رکھوایا گیا تھاجس کا مطالعہ کرنا تمام امریکی صدوراپنے لئے لازمی سمجھتے ہیں۔
کہاجاتا ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں ایک طرف سکندراعظم ایسے فاتح عالم تو دوسری طرف میکاؤلی جیسے معلمین تک سائروپیڈیاسے استفادہ کرکے اپنے شعور،بصیرت اور وجدان کی پختگی کے سامان کرتے رہے۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مشرق نے انسانی حقوق اور جمہوری اقدارکے حوالے سے دنیا کوکچھ نہیں دیا،اور وہ اپنے تئیں مذہبی تعلیمات کو بھی اس ضمن میں تشنہ کام سمجھتے ہیں ان کے لئے سائرو پیڈیا سے زیادہ مناسب اور کوئی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔
انتخابی مہم کے دوران مسٹر ڈونلڈٹرمپ اسقاط حمل ایسے حساس نوعیت کے معاملات کے مذہبی پہلواور اقدار کی پاسداری کی باتیں کرکے مسیحی عقیدتمندوں کی ہمدردیاں اور ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ان کی انتخابی مہم کے دوران ہی انہیں عہدحاضر کا سائرس اعظم قرار دئے جانے کی باتیں مشہور ہو چکی تھیں جس کا خودڈونلڈ ٹرمپ کو بھی علم تھا اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اسی حوالے سے ایرانی سال نو کے آغاز پر اپنے پیغامِ میں سائرس اعظم کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ وہ اس جشنِ نوروزپر ایرانی عوام کو سائرس اعظم کے الفاظ میں ’’ آزادی،عزت اور دولت‘‘کا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں۔
ایک امریکی بزنس مین نے کہا کہ صدارتی انتخابی مہم کے دوران انہیں ایک ’’خدائی آواز‘‘نے کہاتھا کہ بائبل کے عہدنامہ عتیق کی کتاب یسیعاہ کا باب نمبر 45 پڑھو۔جب انہوں نے اسے پڑھا تو اس کی پہلی آیت میں ہی ایرانی بادشاہ سائرس کا ذکر تھا۔واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے 45 ویں صدر ہیں۔
آیت اللہ مخالف ایرانی اورامریکی مسیحی دنیا کے علاوہ یہودی (صیہونی اورغیرصیہونی) حلقوں میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے جشن نوروز کا ساسماں اس وقت پیدا کردیاجب انہوں نے یروشلم کو اسرائیل کا ازلی اور حقیقی مرکزاور دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔اسرائیل کی خاتون وزیر انصاف آیلت شاکد نے ،جو مبینہ طورپر اسرائیل کے ہر ’’باغی‘‘ کو پھانسی پہ لٹکتادیکھناچاہتی ہیں، وفورجذبات سے لبریزہوکر فٹ سے ٹویٹ کیا کہ ٹرمپ عہد حاضر کے سائرس اعظم ہیں۔
بائبل کے عہدنامہ عتیق کے مطابق اس کاتاریخی پس منظر کچھ یوں ہے کہ کسی زمانہ میں بادشاہ نبوکدنصرنے حملہ آور ہوکراسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اوران کے معبد اور مقدس کتب خانوں کو تہس نہس کرنے کے بعد بے شمار یہودیوں کو ان کے مذہبی پیشواؤں سمیت غلام بنا کر بابل اور ایران لے گیا تھا جہاں ان سے بیگار میں کام کروائے جاتے۔ یہ بادشاہ اسرائیلی نبی حضرت دانیال ؑ کوبھی بے وطن کرکے اپنے ساتھ لے گیا تھا۔
بعد میں جب سائرس اعظم،جو مخصوص چارپروں اور چارسینگوں والی تصاویر کی وجہ سے بھی مشہور ہے، تخت نشین ہوا تو نہ صرف یہودیوں کوپروانۂ آزادی عطا کیا بلکہ کافی مال ومتاع اور تحائف دے کر باعزت واپس ارضِ مقدس میں لا آباد کیا۔اس نے انہیں اپنے ہیکل (معبد)کی ازسرنو تعمیرکی نہ صرف اجازت دی بلکہ اس غرض کے لئے سلطنت فارس میں دستیاب بہترین تعمیراتی سامان بھی فراہم کرکے دیا۔ اس وقت بائبل کے عزرا نبی،جنہیں حضرت عزیرؐ بھی کہا جاتا ہے، کا زمانہ تھا۔انہوں نے سائرس کی ہی ہدایت پر اپنے ساتھیوں کوجمع کرکے ازسرنو تورات،زبور وغیرہ کی تدوین کی۔
ا نہوں نے عہدنامہ قدیم میں شامل اپنی کتاب’’دی بُک آف عزراؔ ‘‘ میں سائرس کو یہودیوں کا منجی اورمسیحاقرار دیا۔موجودہ دور میں ہمیں جو بائبل دستیاب ہے وہ اسی دور کی مرتب شدہ ہے۔
قارئین کرام،سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیاصدر ڈونلڈ ٹرمپ، جس کی بیٹی نے بھی مسیحی مذہب ترک کرکے یہودیت اختیارکرلی ہے،واقعی اس عہد کاسائرس اعظم ہے یا بن سکتاہے؟۔
اس سوال کا جواب سوچتے ہوئے ہمیں یہ حقائق مدنظر رکھنے پڑیں گے کہ فی زمانہ آج کل کے یہودی کسی کے غلام نہیں بلکہ انہوں نے خود اس دور کی ورلڈسپرپاور کو ایک لحاظ سے اپنا غلام بنالیا ہوا ہے۔آج سے ستر برس قبلبرٹش مینڈیٹ کی عملداری میں بالفوراعلامیہ نے انہیں کسی سائرسِ زماں کی احتیاج سے ویسے بھی مبراکردیاتھا۔
جہاں تک ہیکل( معبد) کی تعمیر کا تعلق ہے تو یہ معاملہ اتنا آسان نہیں جتنا سائرس اعظم کے زمانہ میں تھا۔سائرس اعظم کے دور میں مسیحی اور مسلمان موجود نہیں تھے۔بائبل کی تعلیمات کی رو سے مسیحی بھی اس معبد جسے وہ ’’دی تھرڈٹیمپل‘‘کہتے ہیں،تعمیر کرنا چاہتے ہیں ۔لیکن مسیحی معبدکی تعمیر کا مطلب ان کے خداوند یسوع مسیح کی بادشاہت کا اعلان کرکے دنیا بھر میں موجودیہودیوں کو(جو منکرین یسوع مسیح ہیں)صفحہ ہستی سے معنوی یا ظاہری اعتبار سے نیست ونابودکرناہے۔تو ایسے میں جو یہودی خوشی سے ٹویٹ کرتے پھر رہے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہئیکہمسیحی بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا سائرسِ زماں مانتے ہیں۔
اب یہ تو ممکن نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ دونوں مذاہب کے ماننے والوں کا مشترکہ’’ سائرسِ اعظم‘‘بن سکے کیونکہ مسیحی گروہ کے موعودہ معبدکی تعمیریہودی گروہ کے لئے پیغامِ اجل کی حیثیت اور مقام رکھتاہے۔اس پر مستزادیہ موعودہ معبد تعمیر بھی اس جگہ کرناہے جہاں تیسرے مذہبی گروہ ،یعنی مسلمانوں نے مسجد اقصیٰ تعمیر کی ہوئی ہے اور جو ان کا قبلہ اول بھی ہے !۔
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
مجھے یقین ہے کہ اس صورتحال میں اگر سائرس اعظم خود بھی زندہ ہوکر آجائے تواس ’’یک نہ شد سہ شد‘‘ کی سی صورتحال کی تاب نہ لا کر ضرور کسی سائکاٹرسٹ یا ماہر نفسیات کی خدمات حاصل کرنے کے بارہ میں سنجیدگی سے غور کرے گا!۔
سائرس اعظم زبانی کلامی نہیں بلکہ عملاً اپنے زیر سایہ انسانوں کو آزادی،عزت اوردولت دیا کرتاتھا، سود در سود کے حامل قرضے دے دے کر انہیں نسل در نسل ذلیل غلام نہیں بناتا تھا۔نہ ہی چھوٹے ممالک کو اسلحے فروخت کرکر کے جنگوں کا بزنس کیا کرتا تھا۔سائرس اعظم انسانوں کی نقل وحرکت پہ قدغن لگا کران کے آزادنہ سفروحضر پہ پابندیاں بھی عائد نہیں کرتا تھا۔
پتہ نہیں احمقوں کی جنتیں بنا کرکے انہیں نام نہاد مقدس خوابوں سے سجانے والے کب بیدارہونگے؟۔
♦