ایوب کتا ہائے ہائے سے سقوط پاکستان تک کا سفر.2

اسلام مرزا

لیگل فریم ورک آرڈر جاری ہوتے ہی ایک لمبی انتخابی مہم کا آغاز ہوگیااور چند دنوں میں ہی چھوٹے چھوٹے قصبوں میں بھی لوگ انتخابی جلسوں میں بھرپور شرکت کرنے لگے ۔ نظریہ پاکستان کی ایجاد اور زبردست مشہوری کے بعد مولویوں نے یحییٰ خان کو نہ صرف مذہبی جماعتوں کی انتخابات میں کامیابی کا یقین دلایا بلکہ اسے مستقبل میں صدارت بھی یقین دہانی بھی کروا دی۔ مگر مجیب اور بھٹو کے جلسوں میں لوگوں کی والہانہ شرکت نے مولویوں کی امیدوں پر پانی پھیرنا شروع کردیا۔ اخباروں میں کئے جانے والے سروے غلط ثابت ہوتے نظر آنا شروع ہوگئے تو اس صورتحال سے نپٹنے کے لئے مولویوں نے مذہب کو استعمال کرنے میں دیر نہ کی۔

چنانچہ مولانا غلام غوث ہزاروی اور چند دوسرے علماء کے علاوہ پاکستان کے تمام علماء نے بھٹو اور مجیب کو کافر قرار دے دے دیا اور ان دونوں کو ووٹ دینے کی صورت میں لوگوں کو نکاح ٹوٹنے کی نوید سنا دی۔ اس سے بھی افاقہ نہ ہوا تو جماعت اسلامی نے لوگوں کے ایمان کو چیلنج کردیا ۔ امیر جماعت نے ایک جلسے میں ہاتھوں میں روٹی اور قرآن پکڑ کر پوچھا کہ کیا مسلمانوں کو روٹی چاہئے یا قرآن ۔ تاریخ میں شائد پہلا موقع تھا کہ پاکستانی مسلمان اس مذہبی بلیک میل کا شکار نہ ہوئے اور جواب دیا کہ قرآن تو ان کے پاس موجود ہے مگر روٹی نہیں اسلئے انہیں قرآن نہیں روٹی چاہئے۔

یہ حربہ بری طرح ناکام ہوا تو مولویوں کے لئے انڈونیشیا میں زہرہ فونا نامی خاتون کی صورت میں امید کی کرن نظر آئی ۔ زہرہ کا دعویٰ تھا کہ اس کے پیٹ میں مسلمانوں کا مہدی پل رہا ہے جوکہ پیٹ میں ہی اذانیں دیتا اور تلاوت کرتا ہے۔ چنانچہ زہرہ فونا کو سرکاری دعوت پر پاکستان بلایا گیا تاکہ آنے ولے مہدی علیہ السلام پاکستان میں اسلام کو خطرے سے نکالنے کا فریضہ انجام دے سکیں۔

انتخابی مہم عروج پر تھی اور انتخابات میں صرف چند ہی ہفتے رہ گئے تھے کہ بنگال تاریخ کے بدترین سیلاب کا شکار ہوگیا۔ لاکھوں افراد اور املاک پانی کی نظر ہوگئے۔ حالت یہ تھی کہ سیلاب کے بعد جگہ جگہ سیلاب کی زد میں آنے والے لوگوں کی نعشیں پڑی تھیں جن کی تصویروں کو بعد میں جنگی پراپیگنڈے کے لئے استعمال کیا گیا گوکہ جنگ میں مرنے والوں کی تعداد بھی کوئی کم نہ تھی۔اس صورتحال کے پیش نظر ریسکیو کا کام مکمل کرنے کے لئے انتخابات دو ماہ کے لئے ملتوی کر دئے گئے۔

سیلاب متاثرین کی بیرونی امداد کے علاوہ مغربی پاکستان میں سیلاب ٹیکس نافذ کردیا گیا جو کہ شائد آج تک ختم نہیں کیا گیا گوکہ اشیائے ضرورت پر سیلاب ٹیکس لکھنا بند کردیا گیا ہے۔ یحییٰ خان نے پورے بنگال میں متاثرہ علاقوں کا دورہ کیااور امداد میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس وقت تک بنگال میں یحییٰ خان کا امیج بہت اچھا تھا۔ اس صورتحال کو مجیب نے اپنے لئے اچھا نہ سمجھا تو اس نے انتخاب ملتوی کرنے کی مخالفت کردی جبکہ مولانا بھاشانی کا نعرہ تھا کہ پہلے روٹی پھر انتخاب۔ پہلے لوگوں کو مرنے سے بچاؤ انتخابات کہیں بھاگے نہیں جارہے۔ مولانا انتخابات کو سیلاب زدگان کی مکمل بحالی تک ملتوی کروانا چاہتے تھے مگر مجیب انتخابات کو دوماہ سے زیادہ دیر تک ملتوی کرنے کے لئے راضی نہ تھا۔ چنانچہ مولانا نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا ۔

سات دسمبر ۱۹۷۰کے دن ملک کی چوبیس سیاسی پارٹیوں نے انتخابات میں حصہ لیا ۔ جب ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو ملک کے دونوں حصوں کے شہری علاقوں میں گنتی کے ابتدائی نتائج جماعت اسلامی کے لئے خاصے حوصلہ افزا تھے۔ مگر مکمل نتا ئج نے مذہبی جماعتوں کے اسلام کو خطرے میں ڈال دیا جب کہ یحییٰ خان کی مستقبل میں صدارت بھی خطرے میں پڑ گئی۔

عوامی لیگ ایک سو باسٹھ میں سے ایک سو ساٹھ نشستیں جیت گئی اور تین سو کے ایوان میں عوامی لیگ نے عددی برتری حاصل کرلی جبکہ پیپلز پارٹی نے پنجاب اور اندرون سندھ میں حیران کن کامیابی حاصل کی جس کے نتیجے میں ملک آئینی بحران کا شکار ہوگیا ۔ اس بحران سے نکلنے کا کوئی طریقہ نہ تھا۔ کیونکہ یحییٰ خان اور اس کے حواری اس قسم کے نتائج کی توقع نہیں رکھتے تھے اس لئے ایسی صورتحال سے نپٹنے کے لئے لیگل فریم ورک آرڈر میں کوئی پیش بندی نہیں کی گئی تھی۔ 

دنیا بھر میں آئینی بل کی منظور ی کے لئے دوتہائی یا تین چوتھائی اکثریت کی شرط رکھی جاتی ہے مگر ایل ایف او میں آئینی بل کو پاس ہونے کے لئے صرف سادہ اکثریت کی شرط رکھی گئی تھی جوکہ مجیب کو حاصل ہوگئی جس کا صاف مطلب تھا کہ آئین بنانے میں مغربی پاکستان کا کوئی کردار نہ ہوتا گویا اور آئین پورے ملک کا متفقہ نہ ہونے کی وجہ سے وفاق کا نمائندہ آئین نہ ہوتا۔ اب ظاہر ہے کہ ایسی صورتحال میں بھٹو کا آئین کی تیاری میں کوئی حصہ نہ ہوتا۔

اب صورتحال یہ تھی کہ ایک طرف تو لیگل فریم ورک آرڈر اکثریتی جماعت کو اپنا بنایا ہوا ایک صوبے کا آئین پورے وفاق پر مسلط کرنے کی اجازت دے رہا تھا تو دوسری طرف یحیٰ خان کو اس آئین کو رد کرنے اور ساری اسمبلی کو گھر بھیجنے کی طاقت بھی فراہم کررہا تھا۔ جس کا مطلب تھا کہ اگر یحیٰ خان کو آئینی مسودہ پسند نہ آیا تو اس کی سزا پیپلز پاٹی کے علاوہ مغربی پاکستان کی دوسری جماعتوں کو بھی ملتی۔ 
اب ایک طرف تو ایک سو بیس دن میں آئینی بل نہ پاس کرکے صدر کی منظوری کے لئے پیش نہ کرنے کی صورت میں چھٹی اور اور دوسری طرف صدر کی طرف سے بل پر دستخط نہ کرنے کی صورت میں بھی چھٹی۔ اس صورتحال میں بھٹو نے مطالبہ کیا کہ اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے سے پہلے مذاکرات کے ذریعے آئین کے بنیادی خدو خال طے کئے جائیں جس کی یحییٰ خان نے اجازت دے دی اور اسمبلی کا اجلاس کسی سمجھوتے تک پہنچنے تک ملتوی کردیا ۔

ایک طرف مذاکرات شروع ہوئے تو دوسری طرف پراپیگنڈہ کے ذریعے ان مذاکرات کو اقتدار کے لئے رسہ کشی کے طور پر پیش کیا جانے لگا جوکہ آج تک جاری ہے۔جبکہ مذاکرات کا موضوع مجیب کے چھ نکات تھے۔ اب مزے کی بات یہ تھی کہ چھ نکات کا ماخذ قائد اعظم کے چودہ نکات تھے مگر ایل ایف او میں دی گئی شرائط پر پورا نہ اترتے تھے اس لئے چھ نکات کی بنیاد پر تیار کیا گیا آئینی بل یحییٰ خان کو کسی صورت بھی قابل قبول نہ ہوتا۔ 

یہاں لیگل فریم ورک آرڈر کے چیدہ چیدہ نکات کا دوبارہ ذکر ضروری ہے۔ 
اسمبلی میں آئینی بل کو پاس کرنے کے لئے ممبران کی اکثریت کی ضرورت ہوگی(دو تہائی یا تین چوتھائی کے الفاظ کی عدم موجودگی میں اس کا مطلب سادہ اکثریت ہی ہوسکتا تھا)۔
اسمبلی اپنے پہلے اجلاس کے بعد ایک سو بیس دن کے اندر آئینی بل کو صدر کے دستخطوں کے لئے پیش کرنے کی پابند ہوگی بصورت دیگر خود بخود تحلیل ہو کر گھروں کو پہنچ جائے گی۔
صدر آئینی بل کو ایل ایف او کے ہم آہنگ نہ ہونے کی صورت میں مسودے کو رد کر سکتا تھا اور ساتھ ہی اسمبلی کو تحلیل کرکے گھر بھیج سکتا تھا ۔ اسمبلی کو دوسرا موقع دینا تو دور کی بات اسے کسی عدالت میں داد فریاد کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ 

دستور ساز اسمبلی آئینی بل میں یہ بھی طے کرے گی کہ پاکستان میں مستقبل کی مقننہ دوایوانوں یعنی ایوان بالا اور ایوان زیریں پر مشتمل ہوگی یا صرف ایک ایوان پر۔ یعنی دوسرے لفظوں میں اس آئین میں ریاست کا بنیادی ڈھانچہ بھی طے کیا جانا تھا۔ اور تینوں بنیادی اداروں کے اختیارات کوبھی طے کرنا مقصود تھا۔ یہاں مزے کی بات یہ ہے کہ آئین ابھی بنا نہیں تھا اور جب تک آئین نہ بنتا ملک میں کسی قسم کی شراکت اقتدار ممکن ہی نہ تھی۔ جبکہ اسمبلی کا کام سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے بعد آئین بنا نا تھا نہ کہ حکومت بنانا۔ کاغذات نامزدگی میں حلف میں ایل ایف او کی پابندی کی شرط بھی شامل تھی جس میں واضح تھا کہ اس اسمبلی کا کام آئین سازی تھی جبکہ ایل ایف او میں حکومت سازی کا کوئی ذکر نہ تھا۔

مذاکرات لمبے ہوتے گئے اور آخر کار بدنام زمانہ آدھے نکتے پر رک گئے۔ اسی دوران مجیب بری طرح فرسٹریٹ ہوچکا تھا چنانچہ اس فرسٹریشن کا اظہار اس نے سات مارچ ۱۹۷۱ کے دن لاکھوں کی تعداد میں جلسے میں موجود لوگوں کے سامنے کیا۔

ماضی میں ہونے والی زیادتیوں کے ذکر کے بعد اس نے سول نافرنانی کا اعلان کردیا جس میں تا اطلاع ثانی مکمل ہڑتال کےاعلان کے ساتھ ساتھ کسی بھی قسم کے ٹیکس یا بل دینے سے منع کردیا گیا اس کے علاوہ بینکوں کو حکم دیا گیا کہ مغربی پاکستان کو رقوم کی ترسیل روک دی جائے۔ اس کے بعد چوبیس یا پچیس مارچ کے مذاکرات سے کچھ نتیجہ نکالنا بے معنی ہوگا۔ مجیب کی تقریر کا لنک مضمون کے آخر میں دیا گیا ہے۔ 

مارچ کے آخر میں آپریشن شروع ہونے کے ساتھ ہی البدر اور الشمس کی خبریں بھی آنے لگیں جن کا ذکر آج بھی بڑے فخر سے کیا جاتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ کیا یہ تنظیمیں راتوں رات وجود میں آگئی تھیں۔ ہرگز نہیں ۔ انہیں ۱۹۵۴ میں بنایا گیا تھا اور بنگالیوں کے قتل عام کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ ۱۹۵۴ میں دوشہروں کرنافلی اور کھلنا میں مرنے والوں کی تعداد ۱۴۰۰ سے زیادہ تھی۔ 

جب ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ کے دن یہ بحران بنگلہ دیش بننے کی صورت میں انجام کو پہنچا تو شام آٹھ بجے یحییٰ خان ے قوم سے جو خطاب کیا اس میں ہتھیار ڈالنے یا بنگال کے ہاتھ سے نکل جانے کا ذکر کرنے کی بجائے قوم کو یہ بتایا کہ ہم سٹریٹیجیکلی ایک محاذ سے پیچھے ہٹ گئے ہیںمگر ہم آخری دم تک لڑیں گےاور طے شدہ پرپروگرام کے مطابق ۲۰ دسمبر کو عوام کو ان کی امنگوں کے مطابق آئین دے دیا جائے گا۔ تقریر میں اسکے مستقبل کے بارے میں عزائم صاف نظر آرہے تھے ۔

تقریر ختم ہوتے ساتھ ہی سوا آٹھ بجے کی خبروںمیں بی بی سی کی اس خبر نے عوام پر سکتے کی کیفیت طاری کردی کہ پاکستانی فوج نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دئے ہیں جس کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں بدل چکا ہے۔
مجیب کی تقریر اور سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان

یحیٰ خان کی ۱۶ دسمبر کی شام ریڈیو پاکستان پر نشر ہونے والی تقریر کا ایک حصہ
https://www.youtube.com/watch?v=AQm8UbdNTSQ

One Comment