انور عباس
پاکستان میں شاید حسن ناصر شہید کا قتل پہلا قتل تھا جو ریاست کے ہاتھوں ہوا اور اسے خود کشی قرار دیکر معاملے کو دبانے کی کوشش کی گئی، لیکن عوامی سماجی اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے موثر کردار کے نتیجہ میں حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور تسلیم کرنا پڑا کہ حسن ناصر شاہی قلعہ کے عقوبت خانے میں قتل ہوا ہے۔ ان دنوں پاکستان پر پہلا مارشل لاء سایہ فگن تھا۔ حسن ناصر کون تھا ؟ اس کے متعلق شاید بہت سارے لوگ لاعلم ہوں۔
حسن ناصر شہید معروف رئیس محسن الملک کے نواسے تھے ۔انہوں نے حیدرآباد سے سنیئر کیمبرج کیا اور علی گڑھ یونیورسٹی سے اعلی تعلیم کی ڈگری حاصل کی۔حسن ناصر کا تعلق حیدرآباد دکن کے معروف قوم پرست گھرانے سے تھا۔ سرخ سویرے کے لیے انقلاب برپا کرنے کی تڑپ ان کے اندر موجزن تھی۔ قیام پاکستان کے بعد اپنی ساری جائیداد بے زمین کسانوں ہاریوں میں تقسیم کرکے خود پاکستان آگئے۔ یہاں انہوں نے اپنے خوابوں کی تعبیرپانے (سرخ سویرے کے لیے) کام شروع کردیا۔ اس مقصد کے واسطے حسن ناصر شہید نے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے پلیٹ فارم کا انتخاب کیا۔ وہ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سرکردہ راہنماؤ ں میں شمار ہوتے تھے۔
پاکستان کے عوام کو جبر و استبداد اور استحصالی نظام سے نجات دلانے کے لیے حسن ناصر کی جدوجہد نوزائیدہ مملکت پاکستان کے سیاسی و فوجی حکمرانوں کو ایک آنکھ نہ بھائی۔اس حوالے سے سول و سیاسی اور فوجی جنرل ایوب خان ایک پیج پر تھے ۔حیدرآباد دکن کے کھاتے پیتے خاندان کے چشم چراغ اور اعلی تعلیم یافتہ حسن ناصر کو قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ پاکستان کے جمہوری حکمرانوں کے ہاتھوں ایک سال کے لیے پاکستان بدر بھی رہے۔
ایک سال کی ملک بدری کے تکلیف دہ دن بھی سہنے کے بعد جب واپس پاکستان پہنچے تو چین سے ٹک نہ پائے اور اپنے مشن پر جت گئے۔۔ سرخ سویرے کے لیے ان کی جدوجہد مضبوط اعصاب والے مارشل لا ئی ایوب خان انتظامیہ نے گرفتارکرلیا اور لاہور کے شاہی قلعہ کے بدنام زمانہ عقوبت خانے میں ڈالدیا۔جہاں حسن ناصر کو تشدد اور اذیتیں دے دے کر موت کی نیند سلادیا گیا۔ حسن ناصر شہید کی موت ظلم کی آندھی کے ہاتھوں علم کے چراغ گل کرنے کی ابتدا تھی۔اس کے بعد تو چل سو چل رہی۔
آج اکیسویں صدی میں جب فوجی جنرل جمہوری نظام کو لپیٹ کر اقتداراپنے قبضہ میں لینے کی بجائے منتخب جمہوری حکومتوں کی سپر میسی تسلیم کرتے ہیں اور جمہوری حکومت کے تابع فرمان رہ کر سرحدوں کی حفاظت کرنے کے دعویدار ہیں۔لیکن درپردہ معاملات کو وہیں دیکھ رہے ہیں۔ خارجہ امور سے دفاعی معاملات میں سویلین حکمران دخل اندازی نہیں کر سکتے۔
منتخب جمہوری دور میں بھی لوگوں کو اٹھالیجانے کی مشق ستم پوری تندہی سے جاری ہے۔ آئین کی متعین کردہ حدود وقیودکے تابع رہ کر اپنے فرائض سرانجام دینے کی بجائے اپنی من مانیاں کی جا رہی ہیں۔فوجی وپولیس افسران لوگوں کواٹھارہے ہیں۔ یہاں تک تو درست ماناجاسکتا ہے۔کہ لوگ امن وامان کے لیے خطرہ ہوں گے، کچھ ملکی سلامتی کے حوالے سے بھی عوام کو گمراہ کرتے ہوں گے اور ایسی سرگرمیوں میں ملوث بھی ہوتے ہوں گے۔ایسے افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانا عین آئین و قانون کے مطابق قرار دیا جاسکتا ہے۔
پولیس اور دیگر قانون نافظ کرنے والے اداروں پر آئین یہ قدغن لگاتا ہے کہ زیرحراست افراد کو چوبیس گھنٹے کے اندر اندر عدالت کے روبرو پیش کیا جائے۔ اور عدالت کو اطمینان دلائے جائے اور مقدمہ درج کرکے ریمانڈ کے لیے گرفتار ملزمان کو پولیس و دیگر ادارے اپنی تحویل میں لینے یا رکھنے کا قانونی حق رکھتے ہیں۔ اب تو خیر رینجرز کو ناپسنددیدہ اور ملکی سلامتی کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث افراد تین مہینے تک اپنے پاس مہمان بناکے رکھنے کی قانونی اجازت ہے جیسے عزیر بلوچ، ڈاکٹر عاصم حسین وغیرہ رینجرز کے پاس رہے ہیں۔
لیکن ان سب سہولیات کے ہوتے ہوئے بھی لوگ دیکھتے ہیں کہ ابراہیم حیدری کے علاقے سے ایک سترسالہ فلاسفر کی لاش ملتی ہے۔لاش انکی گاڑی کی عقبی نشست پر پڑی ہوتی ہے۔چہرے اور گردن پر تشدد کی علامتیں موجود ہونے کے باوجود ڈاکٹر بتاتی ہے کہ کراچی یونیورسٹی کے فلسفہ کے سابق استاد پروفیسر حسن ظفر عارف طبعی موت مرے ہیں۔
کھلنڈری طبیعت رکھنے والے مگر اپنے نظریات اور خیالات کے باعث بائیں بازو کی سیاست کرنے والے حلقوں میں ’’سرخے ‘‘کی شہرت رکھنے والے پروفیسر حسن ظفر عارف کی موت پر استحصالی نظام اور طبقات کے مددگار میڈیا نے مکمل’’ بلیک آوٹ‘‘ کرنا اس بات کی دلالت ہے کہ ’’دال میں کچھ کالا‘‘ نہیں بلکہ دال مکمل کالی ہے۔
میری پروفیسر حسن ظفر عارف سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی ان کی کسی مجلس میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا۔ پھر بھی ان کی موت کی خبر سن کر دل پسیج گیا۔۔۔آنکھیں بھیگ گئیں شائد ان کی ڈیڈ باڈی کااس طرح ابراہیم حیدری سے ملنا تھا یا پھر اس عمر میں اس طرح اپنے خالق حقیقی کے ہاں جانا میرے دل کو افسردہ اور آنکھوں کو تر کرگیا۔
ابھی کراچی سمیت پورے ملک کے عوام زینب سمیت دیگر بچیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک اور پروفیسر حسن ظفر عارف کی سوالات سے بھرپور واقع ہونے والی اموات کے صدمے سے باہر نہیں آئے تھے کہ نقیب اللہ محسود کی پولیس مقابلے میں مارے جانے کی خبر نے ماحول کو سوگوار کردیا۔ نقیب اللہ مسعود پر لگائے جانے والے الزامات کو اسکی سوشل میڈیا پر سرگرمیاں جھٹلانے کے لیے کافی ہیں۔
نقیب اللہ مسعود کے جعلی پولیس مقابلے میں ’’ کراچی کے بدنام زمانہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار‘‘ کے ہاتھوں ’’پار‘‘ کیے جانے اور اس کی گھڑی کہانی حقائق سے مطابقت نہیں پارہی۔ نقیب اللہ کے قتل کی انکوائری کے لیے قائم کمیٹی نے اپنا کام مکمل کرلیا ہے اور بقول انکوائری کمیٹی کے سربراہ ڈی آئی جی ثناء اللہ عباسی’’ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگا۔ انصاف ہوگا بھی اور انصاف ہوتا ہوا دکھائی بھی دے گا‘‘۔
میرے سمیت ہر پاکستانی کی دعا ہے کہ اللہ کرے نقیب اللہ مسعود ،قصور کی زینب ،مردان کی عاصمہ ،لاڑکانہ میں درندگی کا شکار بچی کو انصاف مل پائے ۔انکوائری کمیٹی کے سربراہ اپنے پیٹی بند بھائی کو بچانے کے لیے’’لڑھک جانے سے محفوظ رہیں۔پولیس مقابلوں کے بارے میں مشہور یہی ہے کہ ان میں لوگوں کو پکڑ کر مارا جاتا ہے اور ہر پولیس مقابلے میں پولیس کے ’’جوان‘‘ مکھن میں سے بال کی طرح صاف بچ نکلتے ہیں۔پولیس مقابلوں میں پلسیوں کو خراش تک نہ آنا ان مقابلوں کا پردہ چاک کرنے اور انہیں جعلی ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
نقیب اللہ محسود کا طرز زندگی، رہن سہن بھی اسکے دہشت گرد نہ ہونے گواہی دیتے ہیں۔ لوگ سوچتے ہیں کہ کب تک پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے پاکستانی والدین کے لخت جگروں ، بڑھاپے کے سہاروں، بہنوں کی امنگوں اورامیدوں کے مرکز و محور بھائیوں اور ننھے بچوں کے سروں سے انکے باپوں کا سایہ ایسے جعلی پلس مقابلوں کی بھینٹ چڑھاتے رہیں گے۔
♦
One Comment