آصف جاوید
ڈیجیٹل ورچوئل کرنسی بٹ کوائن کے استعمال کے خلاف فتویٰ جاری ہوگیا ہے۔ یہ فتوی‘ مصر کے عالمِ دین اور مفتی اعظم کے عہدے پر فائز مفتی شوقی ابراہیم عبدالکریم علام نے نئے سال کی شروعات میں گذشتہ پیر کے دن کاروباری لین دین کے معاملات میں رقوم کی منتقلی کے لیے ڈیجیٹل ورچوئل کرنسی بِٹ کوائن کے بطور کرنسی استعمال کے خلاف جاری کیا ہے۔
فتویٰ میں مفتی اعظم شوقی ابراہیم عبدالکریم علام نے کہا ہے کہ مسلمانوں کو خرید و فروخت کے معاملات میں بِٹ کوائن کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ شریعت میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ مصر کے عالمِ دین مفتی شوقی ابراہیم علام نے یہ فتوی مسلمان ‘ ماہرینِ معاشیات و دیگر ماہرین سے مشاورت کے بعد جاری کیا ہے، مفتی شوقی ابراہیم نے فتوی‘ کے لئے جواز یا استدلال اس بنیاد پر قائم کیا ہے کہ بِٹ کوائن کا کوئی حقیقی جسمانی وجود نہیں لہذا یہ حرام ہے۔ مفتی صاحب کا کہنا ہے کہ ورچوئل یونٹس ٹھوس اثاثوں کی بنیا د پر نہیں ہوتے، لہذا ڈیجیٹل کرنسی کے لین دین میں نقصان کا احتمال، استعمال میں فراڈ اور دھوکہ دہی کا خطرہ موجود ہے اور اس کے تیزی سے اتار چڑھاؤسے کاروباری افراد ، اداروں اور ممالک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اپنے قارئین کی معلومات کے لئے بتاتے چلیں کہ الیکٹرانک تجارتی نظام ای کامرس میں ترسیلِ زر یا ادئیگیوں کے لئے ایک نئی اختراع ڈِ یجیٹل ورچوئل کرنسی بِٹ کوائن سنہ 2009 میں وجود میں آئی تھی۔ بٹ کوائن کوئی مادّی کرنسی نہیں ہے۔ نہ ہی بِٹ کوائن کو دنیا کے کسی مالیاتی ادارے ، بنک، یا حکومت نے کسی محفوظ سیکیورٹی کی ضمانت پر جاری کیا ہے۔ اور نہ ہی بِٹ کوائن کو مالیاتی نظام میں کوئی اتھارٹی ریگولیٹ کرتی ہے۔ جبکہ دیگر کرنسیوں کو باقاعدہ زرِ ضمانت اور ریگولیٹنگ اتھارٹی کے کنٹرول کے ذریعے مالیاتی نظام کا حصّہ بنایا جاتا ہے۔ بٹ کوائن کرنسی کا تصوّر دنیا میں پہلی بار ایک تحقیقی وائٹ پیپر کے ذریعے “ساتوشی ناکاموٹو” نامی فرضی شخصیت یافرضی گروپ کی جانب سے پیش کیا گیا تھا ۔
بٹ کوائن اپنی شناخت ظاہر کئے بغیر اشیاء و خدمات کے لین دین میں ترسیلِ زر یا ادائیگیوں کے لئے دو شخصیات یا دو اداروں کے درمیاں براہِ راست الیکٹرانک فائلوں کی ترسیل کا طریقہ کار ہے۔ بِٹ کوائن کلائنٹ کو والِٹ کہا جاتا ہے۔ ہر بِٹ کوائن ، والِٹ کے ساتھ ایک ایڈریس منسلک ہوتا ہے۔ اِس ایڈریس میں کیریکٹرز کی لمبائی انگریزی کے 34 حروف اور اعدادپر مشتمل ہوتی ہے ۔ ٹرانزیکشن یا بِٹ کوائن کو ایک والٹ سے دوسرے والِٹ میں منتقل کرنے کے عمل کو مائیننگ کہا جاتا ہے۔
مائیننگ کے عمل میں کمپیوٹر ایک مشکل و پیچیدہ ترین حسابی طریقہ کار سے گزرتا ہے اور 64 ڈیجٹس کے ذریعے مسئلے کا حل نکالتا ہے، اس طریقہ کار کو کرپٹو گرافی کہا جاتا ہے۔
ہر مسئلہ جو حل ہوجاتا ہے اس کے نتیجے میں ایک بلاک تشکیل پاتا ہے، جس کے نتیجے میں ایک بٹ کوائن بنتا ہے، اور ٹرانزیکشن عمل میں آتی ہے۔ ۔بٹ کوائن کی معلومات کو محفوظ رکھنے کے لئے کوئی رجسٹر نہیں ہوتا اس لیے لوگ اپنی شناخت چھپا کر ٹرانزیکشن کرنے اور اورخفیہ ترسیلِ زر کے لئے انہیں استعمال کرتے ہیں۔ بِٹ کوائن کی قدر کا تعیّن مارکیٹ میں بِٹ کوائن کے استعمال یعنی خریدو فرخت پر منحصر ہے۔
بٹ کوائن کے مستقبل میں ایکسچینج میں شامل کیے جانے نے اسے جواز بخشا ہے کہ یہ ملکیت ہے ، جس کی آپ تجارت کر سکتے ہیں۔ بِٹ کوائنز کی اس درجہ پذیرائی کے باوجود اشیاء و خدمات کے بدلے ترسیلِ زرکو دنیا کی کسی حکومت یا مالیاتی ادارے کی جانب سے کرنسی کا درجہ نہیں مل سکا ہے۔ بٹ کوائن جدید مالیاتی نظام میں بھی سوالیہ نشانات کی حامل ہے۔
جدید مالیاتی نظام میں بِٹ کوائن کے بطور کرنسی استعمال کا تعیّن تو بہر حال مارکیٹ عوامل ہی طے کریں گے، مگر جدید ٹیکنالوجی، نئی اختراعات اور جدید نظریات و خیالات کے خلاف مسلمان علماء کے فتوے کوئی نئی بات نہیں ہیں، ہمارا بچپن ریڈیو، ٹیلی ویژن ، لاؤڈ اسپیکر، کیمرے سے تصویر کھینچنے ، ریل گاڑی کے انجن ، اور تمام نئی ایجادات کے خلاف مسلمان علماء کے فتوے سنتے سنتے گذر گیا ہے۔
مجھے اچھّی طرح یاد ہے، 1971 میں جب میں میٹرک کا طالبعلم تھا، میں نے مائیکرو ویو اوون کے بارے میں ایک مولوی صاحب کا فتوی‘ کسی اخبار یا رسالے میں پڑھا تھا کہ ، چونکہ مائیکرو ویو اوون میں آگ یا شعلہ نہیں ہوتا، اور کھانا نظر نہ آنے والی لہروں یا شعاؤں سے پکتا ہے، لہذا اس طریقے سے پکا ہوا کھانا حلال یا طیّب نہیں ہوسکتا۔
دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے، نئی ایجادات، نئی اختراعات، نئے نظریات تیزی سے فروغ پا رہے ہیں، مسلمان علماء کو اپنے طرزِ فکر میں تبدیلی کی ضرورت ہے، زمانے کے ساتھ ساتھ چلنے ، نئی ایجادات، نئے افکار و خیالات کو اپنانے کی ضرورت ہے، ورنہ مذہب اسلام فرسودہ رسوم و روایات اور عبادات کی جکڑ بندشوں میں محبوس ہوکر رہِ جائے گا اور اس کی ذمّہ داری ہمارے علماء پر ہوگی۔
♥
One Comment