ظفر آغا
ملک اب اس افسوسناک مقام پر آ پہنچا ہے کہ جہاں سپریم کورٹ کے چار فاضل جج خود چیف جسٹس آف انڈیا کے خلاف کھلی بغاوت کر رہے ہیں۔ ہندوستان کی عدلیہ کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ یعنی سپریم کورٹ کے چار جج خود ایک پریس کانفرنس بلا کر موجودہ چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف الزام لگائیں۔ الزام بھی کیسا کہ چیف جسٹس کورٹ کے ضوابط کے مطابق کام نہیں کر رہے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ چار ججوں نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ الزام بھی لگایا کہ سپریم کورٹ میں ’سب ٹھیک نہیں‘ اور ’جمہوریت کو خطرہ‘ ہے۔اگر سپریم کورٹ میں سب ٹھیک نہیں تو پھر اس ملک کے شہری کو انصاف کہاں ملے گا! سپریم کورٹ کے ججوں کی پریس کانفرنس کے بعد سب سے بڑا سوال یہی ہے جو اس ملک کے سامنے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔
سچ تو یہی ہے کہ نوبت یہاں تک اس وجہ سے پہنچی کہ دو معاملات میں خود سپریم کورٹ کے ججوں کو یہ خدشہ پیدا ہوا کہ سپریم کورٹ میں سہی معنوں میں انصاف نہیں ہو رہا ہے۔ ایک معاملہ سی بی آئی جج جسٹس لویا کی موت کا ہے۔ جسٹس لویا بی جے پی کے موجودہ صدر امت شاہ کے خلاف ایک معاملے کی جانچ کر رہے تھے اور یکایک وہ ایک گیسٹ ہاؤس میں میڈیکل رپورٹ کے مطابق دل کا دورہ پڑنے سے مر گئے۔ دہلی کی ’کارواں‘ میگزین نے اس سلسلے میں ایک رپورٹ شائع کی جس کی روشنی میں جسٹس لویا کی موت مشتبہ حالات میں ہوئی تھی۔ اس معاملے پر جب سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تو کوئی تشفی بخش قدم نہیں اٹھایا گیا۔ دوسرا معاملہ لکھنو کے ایک میڈیکل کالج میں بدعنوانی کا ہے جس میں خود سپریم کورٹ کے ایک اعلیٰ جج پر آنچ آ رہی ہے۔
الغرض سپریم کورٹ کے چار فاضل ججوں نے پریس کانفرنس کر ملک میں سپریم کورٹ کے تعلق سے دو شبہات پیدا کر دیے ہیں۔ اولاً یہ کہ سپریم کورٹ حکومت کے دباؤ میں ہے۔ دوسرے یہ کہ عدلیہ کی سب سے بڑی عدالت میں خود انصاف خطرے میں ہے۔ اب اس شبہ کے بعد بھلا عام ہندوستانی کیسے نظام عدلیہ پر بھروسہ کر سکتا ہے۔ اگر سپریم کورٹ جیسی اعلیٰ ترین عدالت پر ہی بھروسہ ختم ہو جائے گا تو پھر جمہوریت خطرے میں نہیں تو پھر اور کیا سمجھا جائے گا۔لب و لباب یہ کہ اب سپریم کورٹ پر ایک سوالیہ نشان لگ چکا ہے اور یہ صورت حال ملک کے لیے سنگین ہے۔
ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ عدلیہ کسی بھی جمہوری نظام کا اٹوٹ حصہ ہوتا ہے۔ ملک کی عدلیہ پر سوال اٹھانے کے بعد پورے جمہوری نظام پر ایک سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ اب اس مسئلہ کو حل کرنے میں کوئی بھی کوتاہی عدلیہ کے ساتھ ساتھ ملک کی ساکھ کے لیے بھی خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لیے بغیر کسی کوتاہی کے سپریم کورٹ اور ملک دونوں کی ساکھ بچانا لازمی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ساکھ بچے تو بچے کیسے؟
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آخر یہ نوبت آئی کیوں کہ سپریم کورٹ میں چار سینئر ججوں نے چیف جسٹس آف انڈیا کے خلاف بغاوت کر دی! جیسا عرض کیا گیاکہ دو معاملات ہیں ، ایک کوثر بی اور پرجا پتی کے فرضی انکاؤنٹر معاملے کی سماعت کرنے والے جج جسٹس لویا کا جن حالات میں انتقال ہوا وہ حیرت ناک تھا۔ یہ معاملہ جب سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا گیا تو اس سے سینئر جج خفا ہوگئے۔
دوسرا معاملہ لکھنؤ کے ایک پرائیویٹ میڈیکل کالج میں رشوت کا ہے۔ افواہوں کے مطابق اس معاملے میں سپریم کورٹ کے ایک اعلیٰ جج تک آنچ پہنچ رہی ہے۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ میں چیف جسٹس اور سینئر وکیل پرشانت بھوشن کے درمیان کافی تو تو میں میں بھی ہوچکی ہے۔ اس معاملے کو بھی چیف جسٹس نے سینئر ججوں کو نظر انداز کر جونیئر ججوں کے آگے سماعت کے لئے بھیج دیا۔
صرف اتنا ہی نہیں دیگر حساس معاملات جن میں حکومت بھی اہم فریق ہے وہ معاملات بھی جونیئر ججوں اور بالخصوص مشرا نام کے ایک جونیئر جج کو سماعت کے لئے بھیجے جارہے ہیں۔
وہ چار جج جنہوں نے جمعہ کے روز ان معاملات کو لے کر بغاوت کردی وہ کافی عرصے سے چیف جسٹس کو سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہوں نے اس سلسلے میں چیف جسٹس کو خط بھی لکھا تھا۔ لیکن بقول ان چار ججوں کے جب پانی سر سے اونچا ہو گیا اور چیف جسٹس کسی طرح سینئر ججوں کی کوئی بات سننے پر راضی نہیں ہوئے تو ان ججوں نے تمام روایت کو توڑ تے ہوئے میڈیا کے سامنے با قاعدہ بغاوت کر دی۔
سپریم کورٹ میں جوکبھی نہیں ہوا تھا وہ ہوگیا۔ اب صرف محض چیف جسٹس پر ہی نہیں بلکہ پورے نظام عدلیہ پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ دنیا واقف ہے کہ اگر عدلیہ آزاد اور منصفانہ طور پر کام نہیں کر سکتی تو پھر سہی معنوں میں جمہوریت بھی نہیں چل سکتی ہے۔ بہ الفاظ دیگر اگر اس معاملے کو یوں ہی چھوڑ دیا گیا تو ساری دنیا میں ہندوستانی جمہوریت بد نام ہو سکتی ہے۔ اس لئے معاملے کو جلد ازجلد حل ہونا ملک کے مفاد میں ہوگا۔
اب اس کو حل کرے تو کرے کون! حکومت کے طور طریقے سے یہ لگتا ہے کہ حکومت اس معاملے میں کوئی قدم اٹھانے کو تیار نہیں ہے۔ اب صرف دو ہی طریقے بچتے ہیں۔ ایک معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس خود استعفیٰ دے دیں۔ اور اگر وہ اس کے لئے تیار نہیں ہوتے تو پھر پارلیمنٹ کا ایک خصوصی اجلاس بلاکر تمام سیاسی پارٹیوں کی مشترکہ رائے سے چیف جسٹس کو پارلیمنٹ بر طرف کردے۔ بہتر ہوگا کہ جمہوریت کی بقا اور عدلیہ کی ساکھ کو برقرار رکھنے کیلئے چیف جسٹس خود مستعفی ہو جائیں۔ یہی ملک کے مفاد میں ہوگا۔
روزنامہ سیاست حیدرآباد انڈیا