انیس زبیری۔ ٹورنٹو
گاڑی تیزی سے دوڑ رہی تھی ۔ میں خیالات میں گم اور نظریں کھڑکی سے باہر ۔ رام گڑھ کو چھو ڑ ے کتی مّدت ہوئی اب یاد بھی نہیں ۔ ”اب کب آؤ گے “ چلتے ہوئے میری ماں کا یہ کہنا مجھے آج تک یاد ہے۔ گھر سے نکلتے وقت چہرے پر بشاشی تھی سر کے بال سیاہ تھے اور نئی دنیا کو دیکھنے کا شوق۔ سوچتا ہوں جب کوئی ماں باپ کو یاد کرتا ہےتو ایک عنصر اپنے بچپن اور ور جوانی کو بھی یاد کرنے کا ہوتا ہے ۔ ” جوانی جن میں کھوئی تھی وہ گلیاں یاد آتی ہیں“ کہنے والے نے گورکھپور کی گلیوں کو کم اپنی گزری ہوی جوانی کو زیادہ یاد کیاتھا۔ حضرتِ انسان بھی عجیب شے ہیں حال سےہمیشہ غیرمطمئن اور ماضی کو یاد کرتے رہتے ہیں ۔ہاں !!! تو میری ماں کہتی تھیں کہ میں جب تک زندہ ہوں تم بچے رہو گے۔ میری فردِ حسابِ ماہ و سال دماغ کے پردہ سے یوں گزر رہی تھی جیسے گاڑی کے سامنے باہر درخت اور کہیں کہیں کچی آبادیاں رواں دواں تھیں۔
خیرجو بیت گئی سو بیت گئی اس وقت تو ایک ہیجانی کیفیت تھی ۔ میں نے تو اطلاع بھی نہیں دی تھی۔ کیا شاکرہ اور چچا گھر پر ہونگے، کیا وہ پہچان لے گی ۔ وہ کیسی ہوگی ۔ نہیں ! نہیں ! وہ بوڑھی نہیں ہوسکتی۔ مجھے شاکرہ سے کتنی باتیں کرنی تھیں ۔
ہم دونوں تقریباً ہم عمر تھے ۔ شاکرہ کے پیداہونے کے بعد دونوں بھائیوں میں میری اور شاکرہ کی زندگی کا فیصلہ ہوچکا تھا جس کی ہمیں بھی خبر نہ تھی ۔ گرمیوں کی دوپہربڑے تو سب سو جاتے بچے مل کر ناٹک کرتے ۔ نمعلوم کیوں مجھے اور شاکرہ ہی کو دولہا اور دلہن بنایا جاتا ۔ ہم دونوں معصوم تھے جب میں نے اس سے کہا تھا ”میری پیاری دلہن“۔ وقت تیزی گزرتا گیا ۔ سیانے ہوے تو یہ عالم ہی تھاکہ ”انھیں کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں“ ۔ ایک دوسرےکے بغیر چین نہ آتا تھا ۔ کاش میرے بابا اور میاں کا سا یہ سر پر رہتا اور ہم بچےرہتے۔
میاں علاقہ کے مشہور وکیل اور اور بابا تحصیل میں ملازم تھے۔ میں اکلوتا تھا اور چچا کے شاکرہ علاوہ دو بیٹے تھے ۔ بنّے بھائی مجھ سے چند سال بڑے تھے لیکن یوں رعب جماتے جیسے چچا یہی ہیں ۔ منظور میاں جن کو پیار سے منظورِ نظر کہتےسارےگھر کی آنکھ کا تارہ تھا ۔ بستی میں وبا پھیلی اور وہ اس کی نذر ہو گیا۔
میں نے سناتھا کہ دادا جان نےزمین چھوڑی تھی جہاں دونوں بھائیو ں نے برابر برابر مکان بنا لئےتھے ۔ شام کا کھانہ دونوں خاندان ساتھ کھاتے۔ میرے والد کو سب بابا اور چچا کو میاں کہتےتھے۔ بنّےبھائی ایسے انگلستان سدھارے کہ پھر نہ پلٹے ۔ میرے بابا کا انتقال نہ ہوتا تو کیا یہ ممکن تھا چچی یہ فیصلہ کرتیں ۔ نجانے کہاں سے انکے بھانجےٹپک پڑے اور شاکرہ پر لٹّو ہوگئے۔ چٹ منگنی پٹ بیاہ ہم دل مسو س کر رہ گئے ۔
شاکرہ کے میاں سُسرال میں رہنے لگے اور میاں کے ساتھ وکالت شروع کردی ۔ میں اتنا دل برداشتہ ہوا کہ رام گڑھ کو خیرباد کہا اور بمبئی پہنچا ۔ وہاں جا کر دنیا کے دروازے مجھ پر کھل گئے نمعلوم کہاں کہاں کی خاک چھانی ۔ نہ شادی ہی کی نہ کہیں چین سے بیٹھا ۔ جیسےمیری گاڑی ہمیشہ کے لئے پٹری سے اترگئی تھی۔
وہاں یہ ہوا کہ شاکرہ کے دو بیٹے ہوئیے جو اب پڑھ لکھ کر رام گرھ سےنکل کر دہلی جابسے۔ شاکرہ کے میاں دوسری شادی رچا کر الگ ہو گئے ۔ کیا اِسی لئے انہوں نے بے چاری شاکرہ سےشادی کی تھی کہ ہماری راہ میں کانٹے بچھا کر آگے بڑھ جائیں !! گیاوقت بھی کمان سے نکلا تیر ہے جوکبھی نہیں پلٹتا ۔
ایک جھٹکے سے گاڑی رکی اور خیالات کا سلسلہ ٹوٹا سا منے پتھر پربڑابڑا رام گڑھ کُندہ تھا ۔ میرا دل بَلیوں اُچھلا ۔ یہاں میرے با با اور میری ماں کی قبریں ہیں ۔ میری ماں جو میرا انتظار کرتے دنیاں سے رخصت ہوئی ، اور یہیں وہ گلیاں ہیں جہا ں میرا بچپن گزرا اور جوان ہوا ۔
سامان اٹھایا اسٹیشن سے نکلا اور تانگے والے سے کہاکتب خانے چلو ”حضور کتنےبرس کےبعدرام گڑھ آئے ہیں“ بوڑھے کوچوان نے پُوچھا اور میرے جواب دینے سے پیشتر بولا کتب خانہ تو حضور کب کا ختم ہواوہاں اب ایک مدرسہ ہے۔ لوگوں کواللہ رسول کے بارے میں بھی تو کچھ معلوم ہونا چاہیے ۔ بس مالک کا کرم ہے ۔ اچھا تو مدرسے کی طرف چلو میں نے کوچوان سے کہا ۔ لیکن کیاہوا کتب خانہ سلیمانیہ تو میرےدادا سلیمان علی خان نے قائم کیا تھا اور اپنی زاتی کتابوں کا زخیرہ کتب خانے کو عطیہ کردیا تھا ۔ بستی میں شاید ہی کوئی پڑھا لکھا ہوگا جس نےاس کتب خانے سےاستفادہ نہ کیا ہو ۔ کوچوان سے پوچھا کہ کتابوں کا کیا ہوا ۔ حضور ایسی آگ لگی کہ کچھ نہ بچا اور پھربستی والوں نے طے ہوا کہ وہاں مدرسہ بنا دیا جائے۔ آگ کس نے لگائی آج نہ معلوم ہوا۔
کوئی بھی تبدیلی نہ ہوئی تھی جیسےوقت رام گڑھ میں ٹھہر گیا تھا ۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ لال اینٹوں کی سڑک کے دونوں جانب پکی دوکانیں بن گئیں تھیں اور بستی میں بجلی آگئی تھی ۔ پرانے آثار نمایا ں تھے ۔ ننوا تیلی، خدا بخش قوال ،لال خان کی ٹال، اور چچا پرشاد کا چائے خانہ ۔ ہاں حکیم صداقت علی کا مطب ابھی تک اپنی جگہ تھااب شاید انکے بیٹے یا شاگردمطب کرتے ہونگے ۔
نمعلوم میاں کیسے ہونگے ۔ اپنے زمانے میں بہت ٹھّسے سےباہر نکلا کرتے تھے۔ کالی اچکن پہن کراور چھڑی ہات میں لیکر گزرتے تو لوگ جھک کر سلام کرتے ۔ آواز گرجدار تھی اور انداز شاہانہ لیکن ہمارے بابا کے احترام سے نیچی آواز میں بولتے ۔ بوا تو اب کہاں ہونگیں۔ سنا تھا کہ ماں کی گود میں دادا جان کے گھر آئیں تھیں اور پھر عمر بھر خاندان کی خدمت کرتی رہیں۔ وہ ہمارے گھر کا ایک فرد تھیں ۔جب میں نے بستی چھوڑی تھی تو انکے بال کھچڑی ہوچکے تھے۔ پھر خیال آیا اگر شاکرہ میاں کو لیکر اپنے بیٹوں کے پاس دہلی چلی گئی ہو تو میں رات کہاں گزاروں گا ۔
نمعلوم کیا بات ہے ہمارا گھر اسٹیشن سے اتنی دور تو نہ تھا ۔ خدا خدا کرکےمدرسہ سلیمانیہ کی تختی نظر آئی ۔ ہائے اب کس سے پوچھوں ”اس جگہ ایک میکدہ تھا کیا ہوا “ سامنے میاں کا گھر تھا کوئی بھی تو تبدیلی نہیں ہوئی تھی ۔ موٹی لکڑی کے کواڑ اور لوہے کا کُنڈہ جو ایک بار پھر میرے ہاتھ میں تھا ۔ دستک کے ساتھ دل کی دھڑکن بڑھ رہی تھی ”مدت کے بعد تازہ ملاقات کا عالم“۔ میاں تو بوڑھے ہونگے وہ دروازہ تھوڑی کھولیں گے یقیناً شاکرہ آئے گی ۔ کیوں نہ اس سے دل کی بات کہہ دوں ۔ مگر وہ میاں کو بڑھاپے میں چھوڑ کر کہاں جائےگی ۔ لیکن عندیہ لینے میں کیا حرج ہے شاید کوئی صورت نکل آئے ۔ کواڑ کُھلے اور لپسی حریرہ بُوا چھو ٹےمیاں کہہ کر لپٹ گئی اور زارو قطار رونے لگی جیسے ”خون“ کا رشتہ زور کر رہا تھا اور کہہ رہی تھی کہ ہمارے صبر میں خلل ڈالنے کیوں آئے ہو۔
چھوٹے میاں آجاؤکہہ کر مردان خانے میں بٹھا دیا ۔ یہ کہہ کر کر کمرہ سے نکلی کہ ابھی آئی ہانڈی چولہےسے اُتار دوں ۔ جہاں تیر سا گھر میں جاتا تھا آج مہمان خانہ میں بیٹھا تھا ۔ نظریں دوڑائیں تو کتنی چیزیں مانوس دکھائی دیں دیوار سے لگی چوکی اوپربوسیدہ قالین اور اُس پر گاؤ تکیہ۔ پرانی کرسیاں۔دیوار پر بارہ سنگےکا سر تھالیکن ایک سینگ غائب ۔ بےساختہ عینک لگائی اور وہ تصویر دیکھنےلگا جو ایک عید کے روز ہمارے برآمد ے میں لی گئی تھی۔ یہ وہی پڑوس کا مکان ہے جو میری ماں کے انتقال کےبعد بک گیا تھا۔ بابا، میاں ،چچی اور میری ماں کرسیوں پر بیٹھے ہیں ہم بچے آلتی پالتی مارے دری پر۔ جیب سے رومال نکال کر شیشہ صاف کرنے کی کوشش کی لیکن سیاہ و سفیدرنگ دُھندلے پڑ چکے تھے۔
بُوا مردان خانے میں داخل ہوتے ہوئے بولی چھوٹے میاں تمہیں یاد ہے میرے ہاتھ کی کونسی ہانڈی تمہیں پسند تھی اور جواب سے پہلے کہا کہ میاں کچھ عرصہ سے بیمار ہیں۔
اتنے میں برابر کے کمرہ سے کھانسنے کی آواز آئی۔ بواکس سے بات کر رہی ہو۔ارے چھوٹے میاں آئے ہیں ۔ نمعلوم کیا کہہ رہی ہو میں نہیں سمجھا ۔ ذرا ایک کٹورہ پانی کا دےدو میری دوا کا وقت ہوگیا ہے ۔ اب صبر کا یارانہ رہا ، دوڑکر سامنے کے کمرے میں گیا اور میاں سے لپٹ گیا ۔ جی چاہتا تھا آج دل بھر کر رولوں اور عمر بھر کا غبار چھنٹ جائے۔ مگر میں میاں کو دکُھ دینے تھوڑی آیا ہوں ۔ بوا کے ہاتھ سے کٹورہ لیکر میں نے پوچھاکہ شاکرہ کہاں ہے۔ بولی محلے کے بچوں کو قرآن پڑھارہی ہے ۔
کواڑ کے پیچھے سے جانی پہچانی آواز آئی ۔ میاں آپکے پاس کون ہے ۔
میاں نے نقاہت سے مسکرا کرکہا کہ شاکرہ اب پردہ کرنےلگی ہے اورتم تو نا محرم ہو نا ۔ بےساختہ میرے ہات سےکٹورہ چھوٹ گیا۔
One Comment