منیر سامی
گزشتہ ہفتہ سے پاکستان میں مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے نوجوان ’نقیب اللہ‘ کی ہلاکت کے بعد وہاں کے ایک پولیس افسر ’ راؤ انور‘ پر الزامات کا چرچا ہے۔ نقیبؔ اللہ کو اس الزام میں مارا گیا کہ شاید وہ دہشت گرد تھا یا ان کے دہشت گردوں سے تعلقات تھے۔ یہ خبر بھی عام ہے کہ اس نوجوان کو اس ہلاکت سے چند روز قبل ان کے گھر سے اٹھایا گیا تھا، اور پھر اس کی ہلاکت کی خبر ملی۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر انسانی حقوق کے عمل پرستوں کے احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پھر جس خون کو مقتل میں چھپانے کی کوشش کی گئی وہ کوچہ و بازار میں جا نکلا اور سڑکوں پر بھی عوامی احتجا ج شروع ہو گیا۔
اعلیٰ حکام کو ایک تحقیقاتی کمیٹی بنانی پڑی اور خود پاکستان کی سپریم کورٹ بھی اس معاملہ میں شامل ہوگئی۔ کمیٹی نے جلد ہی یہ اعلان کر دیا کہ نقیب اللہ دہشت گرد نہیں تھا، اور یہ اس کا قتل بادی النظر میں ’ماورائے عدالت قتل‘ ہو سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں انور راؤ کو تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے حکم دیئے گئے۔ انہوں نے صریح حکم عدولی کرتے ہوئے نہ صرف اس کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا بلکہ پولیس کے انسپکٹر جنرل اور انسانی حقوق کے ادارے کے سامنے بھی پیش نہیں ہوئی۔ ایک سرکاری افسر کی اس صریح حکم عدولی پر کیا تبصرہ ہو۔ ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ یہ پاکستان میں لا قانونیت اور مطلق العنانی کا استعارہ ہے۔
پولیس افسر راؤ انور جو فی الحال خبروں کی رونق ہیں، انہیں پولیس مقابلوں کا ماہر یا Encounter Specialist کہا جاتا ہے ، گویا یہ کوئی اعلیٰ اعزا ز و افتخار ہے۔ وہ سنہ اسی کی دہائی سے اعلیٰ افسران اور صاحبان اختیار کے منظورِ نظر ہیں۔ انہوں اعلیٰ افسروں کی حکم عدولی اور مختلف عدالتی تحقیقات میں صاف بچ نکلنے کا ہنر مبینہ طور پر با اختیار لوگوں کی خوشامد اور ان کے کام آکر سیکھا ہے۔ ان کے بارے میں جو کہانیاں پاکستان کے بعض بڑے اخبار لکھ رہے ہیں ، ان سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مبینہ طور محترمہ بے نظیر بھٹو، اور زرداری صاحب جیسے لوگوں کی حمایت سے اپنی من مانی کرنے کے قابل ہوئے۔ بعض اندازوں کے مطابق وہ اپنے دورِ اختیار میں ڈھائی سو سے زیادہ افراد کی پولیس مقابلوں میں ہلاکت میں بلا واسطہ یا بالواسطہ طور پر شامل رہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں ماورائے عدالت قتل روز کا واقعہ ہیں۔ یہ صرف کراچی یا راؤ انور کا معاملہ نہیں ہیں۔ ایسا سارے پاکستان میں ہوتا ہے، پنجاب ، سرحد، بلوچستان ،ا ور سندھ ، تقریباً ہر جگہ ایسا ہوتا ہے۔ اور یہ معاملے نہ مدعی نہ شہادت والا کھیل بن جاتے ہیں۔ اس کے بارے میں اعداد و شمار حاصل کرنا نا ممکن ہے۔ اکثر خبریں سینہ بہ سینہ نکلتی ہیں۔ بلوچستان میں مبینہ طور پر ہزاروں نوجوان اس ظلم کا شکار ہیں۔ سندھ میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ کراچی میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ پنجاب کا تو ذکر ہی کیا۔ یہ بات ہر ایک جانتا ہے کہ کھلم کھلا پولیس مقابلوں کا معاملہ پنجاب ہی میں شروع ہوا تھا، نواز شریف کی پنجاب کی وزارتِ عظمی میں پنجاب کی سڑکوں پر ڈاکوؤں کی لاشیں بچھائی جاتی تھیں ، تاکہ عوام عبرت پکڑیں۔
ہمارے ہاں اپنے سیاسی یا نظریاتی مخالفین کو ملک دشمن، غدار، دہشت گرد ، اور کافر قرار دے کر بر سر، عام قتل کر دینا روز کا معمول ہے۔ پاکستانی قوم اور عوام اب اس قدر بے حس ہو گئے ہیں کہ انہیں یا تو اس معاملہ پر کوئی دکھ نہیں ہوتا یا پھر ان کے ذہن اس طرح سے متائثر ہو چکے ہیں کہ وہ اس طرح کے قتل اور اموات کو انصاف گردانتے ہیں۔ یہ تو بالکل سامنے کی بات ہے کہ جب بھی کسی رکیک معاملے میں، جیسا کہ ابھی معصوم زینب کا معاملہ ہے، کسی پر ابھی الزام ہی لگایا جاتا ہے، فوراً مطالبہ شروع ہو جاتا ہے کہ ملزم کو بر سرِ عام پھانسی دی جائے یا اس کی لاش کے ٹکڑے چیل کوؤں میں بانٹ دیئے جائے ہیں۔ ایسا وہاں ہی ہوتا ہے جہاں لاقانونیت ہر سطح پر حدوں سے گزر چکی ہے اور ملک و قوم فسطایئت کا شکار ہو۔
ہماری نظر میں رکیک ترین ملزم کو بھی بغیر شفاف مقدمہ چلائے، چاہے وہ دہشت گردی کی عدالتوں میں ہو یا فوجی عدالتوں میں، قتل کرنا یا موت کی سزا وغیرہ دینا ، نا انصافی اور قتلِ عمد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی عدالتوں یا فوجی عدالتوں سے موت کی سزا پانے والوں میں سے ان کی سزائیں، جو اپیل کرنے کے قابل ہوتے ہیں، سپریم کورٹ میں عام طور پرمعطل کی جاتی ہیں۔ پھر بھی یہ مقدمے ساری زندگی چلتے ہیں، اور مبینہ نا انصافی امر ہو جاتی ہے۔
ہماری یہ رائے صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے۔ ہم نے یہ کھیل تیسری دنیا مثئلاً لاطینی امریکہ، افریقہ، کے اپنے ہی جیسے کئی بد قسمت ممالک سے سیکھا ہے، جو خود ایک طویل داستانِ ظلم ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ دنیا کے مہذب ترین ممالک بھی پولیس مقابلوں میں ہلاکتوں سے محفوظ نہیں ہے۔ ان کی خبر یا تو پھیلتی نہیں ہے، یا اعداد و شمار حاصل کرنے کی دشواری میں دب جاتی ہے۔ پاکستان اور تیسری دنیا کی طرح مہذب ممالک میں بھی پسماندہ طبقوں کے افراد ہی ہلاک ہوتے ہیں۔ اس میں نسلی اور معاشی تعصب مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہاں ہم چند مثالیں پیش کرنا چاہیں گے۔ کینیڈا میں مبینہ ظلم کے خلاف احتجاج کرنے والے ایک ادارے Killer Cops Canada کی ایک رپورٹ کے مطابق یہاں گزشتہ برس کم سے کم پینسٹھ افراد پولیس کے ہاتھوں ، کسی مکمل تفتیس یا مقدمہ کے بغیر ہلاک ہوئے۔ ان میں اکثریت غیر سفید فاموں یا ان افراد کی ہے جنہیں Natives کہا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ اصطلاح ہی نو آبادیاتی ہے۔ کینیڈا میں پولیس کے ہاتھوں ہلاک یا زخمی ہونے کے معاملات میں شعبہ جاتی تحقیقات لازم ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان معاملات میں زیادہ تر کو جائز قرار دیا جاتا ہے اور ایسا خال خال ہی ہوتا ہے کہ کسی پولیس والے کو کوئی سخت سزا دی جائے۔
امریکہ میں پولیس مقابلوں یا پولیس کی حراست میں ہلاک ہونے والوں کی تعدا د کا تخمینہ ہر سال ہزاروں میں ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ امریکہ میں اس قسم کے قابلِ بھروسہ اعداد و شمار آسانی سے حاصل نہیں کیئے جا سکتے۔ بعض آرا کے مطابق ریاستیں یہ اعداد و شمار جاری نہیں کرتیں یا گھٹا کر پیش کرتی ہیں۔ وہاں اب سے دو سال قبل جب گارجین اور واشنگٹن پوسٹ نے اس ضمن میں مختلف ذرائع سے تخمینے جمع کیے تو انداازہ ہو ا کہ ریاستوں کے فراہم کردہ اعداو شمار کل کا ایک تہائی بھی نہیں تھے۔
گارجین کے مطابق سنہ 2015 میں تقریباً ساڑھے گیارہ سو افراد پولیس کے ہاتھوں یا دوران حراست مارے گئے۔ جب کہ سرکاری طور پر بتائی گئی تعدا د صرف ساڑھے چار سو تھی۔ انسانی حقوق کے عمل پرستوں کے احتجاج اور دباؤکے بعد اب امریکہ کا محکمہ انصاف ریاستوں پر زور دے رہا ہے کہ وہ درست اور با قاعدہ اعداد و شمار فراہم کریں۔
اعداد و شمار کا معاملہ اہم ضرور ہے لیکن ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ پولیس کے ہاتھوں اموات کی تفتیش کتنی مکمل تھی، اور اس کے نتیجہ میں زیادتی کرنے والوں کو کیا سزا ملی۔یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ گزشتہ کئی سالوں میں پولیس کے ہاتھوں ہونے والی معروف ترین اموات میں بھی کسی کو کوئی سزا نہیں ملی بلکہ عام طور پر پولیس والے قانوناً بری الذمہ قرار دیئے گئے۔
پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت میں بھی حالات مختلف نہیں ہیں۔ جب بھی ایسی کوئی تحریر لکھی جاتی ہے، قوم پرست پاکستانی طعنہ دیتے ہیں کہ ہم جیسے لکھنے والے بھارت کے حوالے کیوں نہیں دیتے۔ بھارت میں بھی پولیس مقابلوں یا دورانِ حراست ہلاک ہونے والوں کی تعداد سینکڑوں یا ہزاروں میں ہیں۔ میڈیا ادار ے الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ2007 سے ، سنہ 2012 کے دوران پولیس کی حراست میں تقریباً بار ہ ہزار افراد ہلاک ہوئے، جن میں تقریباً ساڑھے تین ہزار افراد دوران حراست تشدد کے نتیجہ میں مارے گئے۔
دیگر ممالک کی طرح بھارت سے بھی اس ضمن میں اعدادو شمار حاصل کرنا مشکل ہے۔ لیکن خود سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وہاں ہر سال سینکڑوں افراد پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہوتے ہیں۔معروضی رائے دینے والے عام طور پر سرکاری اعداد و شمار کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ برطانیہ میں پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی تعدا د بہت ہی کم ہے۔ گارجین اخبار کے ایک اندازے کے مطابق وہاں گزشتہ چوبیس سال میں صرف پچپن افراد پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ اس کی وجہہ شاید یہ بھی ہو کہ برطانیہ میں پولیس عام طور پر مسلح نہیں ہوتی۔ وہاں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد گزشتہ چند سالوں میں پولیس کو اسلحہ فراہم کیا جا رہا ہے، اور اب ان اموات کی تعداد میں رفتہ رفتہ اضافہ ہورہا ہے۔
پاکستان کی بات کرتے وقت دوسروں سے مقابلہ تدریسی تو ہو سکتا ہے ، لیکن اس سے وہاں کے دگرگوں حالات پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حقیقت یہ ہے کہ چاہے پاکستان ہو یا کوئی اور ملک، پولیس کے ہاتھوں کوئی بھی موت جائز نہیں قرار دی جاسکتی۔ اور اگر یہ اموات اس وجہہ سے برپا کی گئی ہوں کہ ان پر شفاف مقدمہ نہ چل پائے تو یہ صرف قتلِ عمد ہی کہی جائیں گی۔
♦