سندھ میں ہندو تاجروں کا قتل اور تحفظ کا سوال

سجاد ظہیر سولنگی 

سندھ میں مقیم ہندو برادری کا وادی مہران کی تہذیب سے بڑا گہرا تعلق ہے، ہندو آبادی خود کو اس مٹی کا حقیقی باشندہ تسلیم کرتی ہے، جو کہ تاریخی اعتبارسے ایک حقیقی بات ہے۔ ہندو سندھ کے پرانے باسی ہیں۔ سندھ کے شہروں کو بنانے میں ان کا تعمیری کردار ہے۔پاکستان بننے سے پہلے سندھ کے تما م شہر وں میں یہ غیر مسلم برادری بڑی تعداد میں میں آباد تھی۔جب اس کا وجود عمل میں آیا تو ان قدیم باشندوں کو اپنی سرزمین سے الگ ہونا پڑا۔ تقسیم کی بناء پر بہت سے ہندو خاندانوں نے ہجرت کی،اور اس کے بعد جو غیر مسلم آبادی رہ گئی آج تک وہ اقلیت بن گئی۔

پاکستان کو بنے 70 سال سے زیادہ مدت ہو چکی ہے۔ مگر آج بھی حالات کے پیش و نظر یہ قدیم آباد برادری خود کو بچانے کے طریقے تلاش کرتی رہتی ہے۔کوئی بھی چھوٹا واقعہ اس برادری کے تمام باشندوں کو ڈر اور خوف میں مبتلا کردیتا ہے۔ اس ملک کے وجود میں آنے سے پہلے اس خطے میں روشن خیال سیاست مضبوط جڑیں پکڑ رہی تھی۔بنیاد پرست قیادت نے منزل مسجد گاہ جیسے وقعات پیدا کیے۔ اس کے پیچھے پس منظرماسوائے مسلمانوں کو بھڑکانے کے کچھ نہیں تھا۔ اس واقعہ کے بعد سندھ میں ہندو مسلم تضاد نے ایسا خون خوار رخ پکڑا کے سندھ لہولہاں ہونے سے بچ نہیں سکا۔

پاکستان بننے کے بعد اس کا اظہار جس شکل میں سامنے آیا یہ تاریخ کی ایک بے رحم حقیقت ہے۔ آج ہمارے ملک میں موجود ہندو آبادی جب کبھی بھی اپنے خلاف چھوٹا سا عمل دیکھتی یا محسوس کرتی ہے۔ ایک خوف میں مبتلا ہوکر رہ جاتی ہے۔ ایسے واقعات جن میں سندھ کے ان باشندوں کے ساتھی اغوا برائے تاوان کے واقعات، خواتین کی زبردستی مذہبی تبدیلی اور جبری شادیاں کرنے کے طریقے اور بھتہ نہ دینے پر کاروباری لوگوں کو قتل کرنا شامل ہے۔کم عمر بچیوں کی شادیاں کروانانے کا عمل اور اخبار میں مذہبی تبدیلی کی خبر کا آنایہ تمام واقعات اقلیت سے تعلق رکھنے والے قدیم باشندوں کو پریشان کردیتے ہیں۔

ایک ایسا ہی واقعہ پچھلے ہفتے ضلع تھرپارکر کے شہر مٹھی میں ہوا۔ تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ5 جنوری بروز جمعہ سندھ کے شہر مٹھی میں دلیپ مہیشوری اور راجندر مہیشوری جو کے گندم کے تاجر بتائے جاتے ہیں، جنہیں مقامی اناج منڈی میں ان کے دکان کے سامنے ان پرگولیاں برسائی گئی، ایک بھائی موقع پر ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا جبکہ دوسرابھائی ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں دم توڑ گیا۔ دونوں بیٹوں کی موت کی اطلاع باپ کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی اور وہ بھی صدمے سے انتقال کرگیا۔ سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے از خود نوٹس بھی لیا گیا گیا ہے، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ احمد علی شیخ نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تھرپاکر، سینئر سپرٹنڈنٹ پولیس، ڈپٹی انسپکٹر جنرل میرپورخاص کواس واقع کے متعلق رپورٹ پیش کرنے کے لیے اعلی ٰعدالت حاضرہونے کا حکم دیا ہے۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ۔ ماضی میں بھی ہمیں ایسے بے شمار واقعات ملیں گے ،جن میں کاروائی صرف ایف آئی آر کاٹنے تک محدود رہتی ہے۔ یا پھر وہ مقدمات اقلیت ہونے کی وجہ سے دبا دیئے گئے۔یہاں واقعہ کیا ہوا ہے ، یہ کوئی سوال نہیں ہے ، بلکہ سوال یہ ہے کہ یہ عمل کس کے خلاف ہوا ہے، اور وہ ہوتا بھی ایسی برادری کے ساتھ ہے ، جس کے پاس مزاحمت کرنے کے راستے بھی بند ہوتے ہیں۔ سندھ میں ہندو آبادی کی تعداد باقی صوبوں سے زیادہ ہے۔ اکثر بنیاد پرست رویے غیر مسلم برادریوں کے خلاف جاری رہتے ہیں۔ جس کا اظہار ایسے لوگوں کے اندر میں تو موجود ہوتا ہے ، لیکن وہ شدت پسند آئے دن موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ جن کی نظریات میں غیر مسلم آبادی کو پریشان کرنا شامل عمل ہے۔ جس میں زبردستی شادی، مندروں پر حملے اور پچھلے ہفتے ہونیوالے ان دو تاجروں کے قتل کے جیسے واقعات بھی شامل ہیں۔

بنیاد پرست جب اپنی سازشوں میں ناکام ہوجاتے ہیں تو پھر وہ مذہب کا ایسا سہارا لیتے ہیں ، جس میں اوباش نوجوانوں کے ہاتھوں ہندو برادری کی لڑکیوں کو اغوا کیا جاتا ہے۔جس میں کچھ گدی نشین بھی شامل ہیں۔ جن لڑکیوں کا مذہب تبدیل کیا جاتا ہے، جس کے لیے بعد میں یہ بیان آتے ہیں کہ انہوں نے اپنی مرضی سے قبول کیا ہے۔ ان کی عمریں زیادہ تر 13 سے لیکر 16 سال کے درمیان ہوا کرتی ہیں۔ اتنی چھوٹی عمر کی لڑکیاں اپنا فیصلہ کیسے کیا کرتی ہیں۔ ایسی مذہبی قبولیت کیسے ہوجاتی ہے ؟ جس کا کلائی میکس وہ پریم کہانی جس میں آگے چل کر زبردستی نکاہ سامنے آتے ہیں۔

ان لڑکیوں کے مقدمات کھلی عدالت کے بجائے ججوں کے ذاتی کمروں( چیمبرز) میں چلا کرتے ہیں جن کے فیصلے کا میڈیا اور والدین کو پہلے ہی سے اندازہ ہوتا ہے۔ فیصلے کے بعد ان لڑکیوں کو جنم دینے اور سالوں سال پالنے والے والدین سے ملاقات کروائے بغیر اُنھیں اُن شوہروں کے سپرد کیا جاتاہے، جن کے ساتھ دنوں کا تعلق بھی مشکل سے ہوتا ہے۔ میڈیا کے اندر وہ واقعات یا مقدمات سامنے آتے ہیں جو کہ ہائی پروفائل ہوا کرتے ہیں جو خبر کسی غریب غیر مسلم لڑکی یا مظلوم کم ذات کی ہوا کرتی ہے، تو ان مظلوموں اور محکوم لوگوں کے واقعاتوو مقدمات ایسے دبا دیئے جاتے ہیں۔ جیسے ہوئے ہی نہیں تھے۔ہندو برادری کی وہ لڑکیاں جو کہ کسی نہ کسی دن میڈیا کی خبر بنی رہتی ہیں ، پتا نہیں کیوں ایسی لڑکیوں کے بیان آدھے ٹینڈر کی طرح پڑھے جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال رنکل کماری جو بعد میں فریال بن گئی۔ وہ اس وقت کیسی ہے کچھ معلوم نہیں ہے۔ 

سات7 نومبر 2011 ء کو شکارپور کے علاقے چک میں تین ہندو ڈاکٹر وں کو قتل کردیا گیا تھا۔ ۔ واقعہ کی بنیادکچھ الگ سی بتائی گئی تھی۔ شرپسند عناصر کی جانب سے بنیاد پرستوں کو طیش دلوانے کی وجہ سے ان ڈاکٹر کو ان کے کلینک پر قتل کیا گیا۔ پولیس نے اپنا کام اور تحفظ درست طریقے سے فراہم نہیں کیا ، نتیجے میں شدت پسندوں کی کاروائی سے تیں مسیحا مارے گئے۔ آج ملک جن طالبانی گروہوں میں جکڑ چکا ہے۔ وہ اسی طالبانی ہتھکنڈوں کی دین ہے اورغیر مسلم برادری کے ساتھ ہونے والے اسی سلوک کی نشانی بھی ہے۔ ترقی پسند قوتوں کے خلاف جبری اقدام بھی اسی عمل کا حصہ تھے، تاکہ جب غیر مسلم برداری کے خلاف شدت پسندی بڑھے تو احتجاج کرنے والی کوئی قوت ہی سامنے نہ رہ پائے۔ایسی قوتوں کو ملک کے حکومتی نظام میں شمولیت کروائی گئی، نتیجہ یہ حاصل ہوا کہ ملک شدت پسند قیادت کے ہاتھوں میں چلا گیا۔

ہماری نصابی کتب میں ایسے جملے شامل ہیں اور وہ بنیاد پرستی میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ یہ بنیاد پرستی ہمارے بچوں میں منتقل ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے ہمارا سماج بنیاد پرستی اور پسماندگی کا شکار ہوتا ہے۔ ایسے واقعات نے غیر مسلم برادری کو ہجرت کرنے پر مجبور بھی کیا ہے، ہندؤں نے اپنے قدیم گھروں کو آہوں اور اور سسکیوں میں الوداع کیا ہے۔ جو کہ ایک دردناک عمل ہے۔ سندھ میں ہندو برادری کا مذہبی استحصال ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا ہے۔ اگر دیکھا جائے سندھ کی اعتدال پسند روایات نے ہمیشہ تمام عبادت گاہوں کی حفاظت کی ہے۔

اب جب کے سندھ ہائی کورٹ ان مقتولوں کے قتل کا از خود نوٹس لے چکی ہے، لیکن اس آگے سوچنے کی ضرورت ہے ،وہ یہ کہ اس پر ایک کمیشن بنانے کی ضرورت ہے جو کہ ماضی ، حال اور مستقبل کے پیش و نظر اہل سندھ کے اِن قدیم باشندوں کی بچیوں سے جبراًً مذہبی تبدیلی، ان کے مال و ملکیت پر قبضہ کرنے جیسے تمام اقدام ، ان کو ڈرانا دھمکانا جیسے ہتھکنڈوں کے حوالے سے کوئی تحفظ فراہم کرنے میں بروقت کردار ادا کرے ۔ اور ان کے ساتھ ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کی تلافی بھی کی جائے۔ ملک میں بسنے والی غیرمسلموں کی عبات گاہوں جن میں مندروں، گرجا گھروں اور گردواروں کی حفاظت کے لیے تحفظ کے مزید عملی اقدام کیے جائیں۔

سندھ میں ترقی پسند اور اعتدال پسند تنظیموں کو باہمی امن قائم رکھنے لیے بھی غیر مسلم برادری سے رابطے بڑھانے چاہیے۔ہمیں اپنی امن پسند روایات کی حفاظت کرنی چاہیے۔ نفرت کے نام پر پلنے والی درسگاہوں کو بند کرنا ہوگا۔قلم کارو اور دانشوروں کو ایسی قوتوں کے خلاف جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے ، انہیں اپنے قلم کو ایسے ادب کی تخلیق کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔جوایسے بنیاد پرست اور طالبانائزیشن اقدام کو روکنے میں مددگار ثابت ہو۔ گلوکاروں کو اپنے سُنگ(گروپ) بناکر مہران کی موجوں کی طرح انسانی ذہنوں امن کی پکار کو بیدار کرنا ہوگا۔ آئیے ملکر وادی مہران جو کہ اس ملک کی پہچان ہے اس میں بسنے والی اقلیتی برادری کی حفاظت کے اگے آئیں۔ یہی ہماری فتح ہوگی۔

♦ 

Comments are closed.