اکیس 21جنوری کو ترکی کی فوج ، ترکی کی سرحد سے ملحق شمالی شام کے شہر عفرین پر بمباری کر کے ٹینکوں کے ساتھ داخل ہوئی ہے۔ وجہ اس کاروائی کی ترکی نے یہ بتائی ہے کہ اس شہر میں کردوں کی ڈیموکریٹک یونیں پارٹی کے دھشت گرد جن کو بشار الاسد کی حکومت سے نبرد آزما مخلوط افواج اسلحہ فراہم کر رہی ہیں اور مالی مدد دے رہی ہیں ، سرحد پار کر کے ترکی کے علاقہ میں کاروائی کر رہے ہیں۔ ترکی کو شبہ ہے کہ عفرین کے ان کردوں کو پس پردہ امریکیوں کی بھی امداد حاصل ہے۔ ترکی کا کہنا ہے کہ اس نے یہ کاروائی کرد دھشت گردوں کا قلع قمع کرنے اور اپنے دفاع کی خاطر کی ہے۔
تاریخ کی یہ ستم ظریفی ہے کہ صلاح الدین یوسف بن ایوب ، جنہوں نے آٹھ سو سال قبل صلیبی جنگ میں عیسائیوں کو شکست دے کر یروشلم اور پورے فلسطین کو فتح کیا تھا اور مصر ، شام ،عراق ، حجاز ، یمن اور شمالی افریقہ کے وسیع علاقہ پر محیط اپنی مملکت قائم کی تھی، ان کے تین کڑوڑ پچھترلاکھ ہم نسل ، کرد آج چار ملکوں،ترکی،عراق، شام اور ایران میں بکھرے ہوئے ہیں ۔ یہ قوم ایران سے شام تک پھیلے ہوئے اس علاقہ میں آباد ہے جسے کرد کردستان کہتے ہیں۔ اس علاقہ میں کرد تین سو سال قبل مسیح سے آباد ہیں۔
ساتویں صدی میں کرد مشرف بہ اسلام ہوئے تھے اور انہی میں سے صلاح الدین ایوبی ابھرے تھے جنہوں نے صلیبی جنگوں میں اپنی فتوحات سے بڑا نام پیدا کیا ۔ اسی مسلم فاتح کی یہ قوم آج چومکھی جبر و تشدد کا شکار ہے۔
پہلی عالم گیر جنگ سے پہلے کرد اس علاقہ میں سلطنت عثمانیہ کے تحت خانہ بدوشوں کی زندگی گذارتے تھے۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد مشرق وسطی میں کئی نئی آزاد مملکتیں وجود میں آئیں لیکن آزاد خودمختار مملکت کے بارے میں کردوں کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا حالانکہ 1920 کے سیورے کے معاہدہ میں جس کے تحت عراق شام اور کویت کی آزاد مملکتیں وجود میں آئیں کردوں کی ایک آزاد مملکت کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن ترکی میں مصطفی کمال اتاترک کے بر سراقتدار آنے کے بعد ترکی نے اور اس کے ساتھ ایران اور عراق نے کردوں کی آزاد مملکت تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔
گو شمالی عراق میں کردوں کی آبادی ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہے لیکن سب سے زیادہ تعداد ان کی ترکی میں ہے جہاں یہ ایک کروڑ اسی لاکھ کے قریب بتائے جاتے ہیں۔ شام میں ان کی تعداد اٹھائیس لاکھ ہے اور ایران میں اڑتالیس لاکھ کے قریب ہیں۔ایران میں کردوں کی اکثریت آذربائی جان اور ہمدان کے علاقہ میں آباد ہے جسے ایرانی کردستان کہا جاتا ہے ، کرد اسے مشرقی کردستان کہتے ہیں۔
ایران میں کردوں کے خلاف کاروائیوں کا سلسلہ سترویں صدی سے شروع ہوا تھا جب شاہ عباس نے کردوں کو بڑے پیمانہ پر زبردستی خراسان میں منتقل کردیا۔ پھر 1946 میں قاضی محمد کی قیادت میں بغاوت ہوئی اور کردوں نے مہا آباد جمہوریہ کے نام سے ایک علیحدہ مملکت قائم کی جو زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔ قاضی محمد کو آخر کار کھلے عام پھانسی دی گئی۔
رضا شاہ پہلوی کے دور میں کردوں کی زبان پر پابندی عائد کی گئی۔ اور سنہ79 کے اسلامی انقلاب کے بعد آیت اللہ خمینی نے کردوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اور بڑے پیمانے پر کرد علاقوں میں فوجی کارروائی کی گئی، آخر کار کردوں کو گھٹنے ٹیک دینے پڑے۔
ادھر شمالی عراق میں کردوں نے سنہ1960سے 1975 تک مصطفیٰ برزانی کی قیادت میں بغاوت کی جس کے نتیجہ میں انہیں خود مختاری حاصل ہوئی لیکن 1991 میں کردوں کی بغاوت کے بعد صدام حسین کی حکومت نے اس علاقہ پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور کردوں پر سخت مظالم توڑے۔
عراق میں گو صدام حسین کے زوال کے بعد کردوں کو نئے آئین کے تحت خودمختاری حاصل ہو گئی تھی اور ان کی علاقائی پارلیمنٹ بھی تسلیم کر لی گئی تھی ۔عراق کی جنگ کے بعد امریکیوں نے ان کے تیل سے مالا مال علاقہ کی وجہ سے ان پر دست شفقت رکھا تھا لیکن نہ جانے پھرکیوں ہاتھ کھینچ لیا۔پچھلے دنوں کردوں نے اپنی آزاد خود مختار مملکت کے قیام کے لئے ریفرینڈم کا بھی انعقاد کیا تھا جسے عراقی حکومت نے مسترد کردیا اور فوج کشی کر کے کردوں کی آزادی کے سارے خواب چکنا چور کر دئے۔
یہی وجہ ہے کہ کردوں کی تاریخ ایران اور عراق میں بغاوتوں سے عبارت ہے۔ ترکی میں کردوں نے انیس سو پچیس میں شیخ سعید کی قیادت میں بغاوت کی تھی جس کے بعد ترکی کی حکومت نے کردوں کے خلاف نہایت سخت گیر پالیسی اختیار کی اور ان کی زبان اور ثقافت ختم کرکے پہاڑی ترک قرار دیا۔ پہاڑی ترک قرار دے کر انہیں ترک معاشرہ میں ضم کرنے کی مہم شروع کردی۔
سنہ1978 میں ترکی کے کردوں نے جب آزادی اور خود مختاری کی تحریک شروع کی تو بڑے پیمانہ پر ترکی کی حکومت اور کردوں کے درمیان معرکہ آرائی بھڑک اٹھی ۔ اس تحریک میں علیحدگی پسند تنظیم کردستان ورکرز پارٹی PKK پیش پیش تھی ۔یہ تحریک ترکی کی معیشت کے لئے بے حد تباہ کن ثابت ہوئی ۔ اس دوران ترکی کی معیشت کو 450ارب ڈالر کا خسارہ ہوا ۔ آخر کار اس تحریک کے قائد عبداللہ اوجلان نے 2015 میں تحریک ختم کرنے کا اعلان کیااور یہ معرکہ آرائی ختم ہوئی ۔
کر دستان کے علاقہ کے باہر پوری دنیا میں ایک کروڑ سے زیادہ کرد پھیلے ہوئے ہیں ان میں زیادہ تر وہ ہیں جنہوں نے ترکی، عراق اور ایران میں ظلم و ستم سے فرار ہو کر پناہ لی ہے۔ان کردوں کا کہنا ہے کہ یہ کس قدر حیرت اور تاسف کی بات ہے کہ ان کے کرد قائد صلاح الدیں ایوبی نے تو ایران سے لے کر شمالی افریقہ تک ایک بڑی تعداد میں ملکوں کو آزادی کی نعمت سے سرشار کیا ، لیکن ان کی قوم ابھی تک اپنی آزادی کے لئے تڑپ رہی ہے۔
♦