قاتل قاتل مشرف قاتل

عظمیٰ ناصر

دس برس قبل 27دسمبر کو محتر مہ بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ راولپنڈی میں شہید کر دیا گیاتھا یہ قتل بے نظیر کا نہیں جمہوریت کا کیا گیا تھا یہ وہی جگہ تھی جہاں اس سے قبل لیاقت علی خان کو بھی ایک جلسہ کے دوران گولی مار کر قتل کیا گیا تھا اور اسی جگہ سے چند فرلانگ کے فاصلے پر محترمہ کے والد اورعظیم لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو ایک جھوٹے مقدمے میں ایک ڈکٹیٹر نے پھانسی پر لٹکا یا تھا۔ بد نصیبی سے یہ تینوں واقعات راولپنڈی کی حدود میں ہوئے ۔یہ تینوں غیر فطری اموات پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ کھیلے جانے والے کھیل کا خلاصہ بیان کرتی ہیں۔

اس کھیل کے پس پردہ بہت سی تلخ سچائیاں ہیں مگر ان سچائیوں کو سامنے نہ آنے دینے کیلئے بہت سی قوتیں مزید سازشی جال بنتی رہتی ہیں اس کھیل کو رچانے والے منظر پر اپنی تیار کردہ کچھ کٹھ پتلیاں سٹیج پر لاتے ہیں جو ان کے لکھے ہوئے سکرپٹ کے مطابق کھیل رچاتے ہیں اور وہ قوتیں پس پردہ رہتے ہوئے ان کٹھ پتلیوں کی ڈوریں ہلاتے ہوئے اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں۔لیاقت علی خان ،ذوالفقار علی بھٹواور محترمہ بے نظیر بھٹو بھی انہیں قوتوں کی سازشوں کا شکار ہوئے ۔

بیشک ان اموات کے اثرات صدیوں نہ صرف ملکی سیاست بلکہ ملکی ترقی اور سلامتی پر بھی اثر انداز ہوں گے ۔ محترمہ بے نظیربھٹو کی شہادت کے بعد ملک ایک غیر یقینی سیاسی ہلچل کا شکار ہوا،اور سازش کرنے والو ں کا خیال تھا کہ محترمہ کی شہادت کے بعد علاقائی لسانیت بڑھے گی مگر اس وقت آصف علی زرداری کی وسعت نظری اور سیاسی فہم و فراصت نے اس آگ کو جلنے سے پہلے بجھا دیا انہوں نے اس نازک موڑ پر پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر تمام سازشوں کا راستہ روک دیا ۔

محترمہ کی جمہوریت کیلئے لازوال قربانی ہمیشہ کیلئے تاریخ کے اوراق پر رقم ہوگی بے نظیر بھٹو کو ایک سوچ نے قتل کیا ایسی سوچ نے جنہوں نے پاکستان کو ایک جمہوری اور پروگریسو ملک کے طور پر قبول ہی نہیں کیا ، محترمہ کو اس سوچ نے قتل کیا جو اس ملک کو محض ایک اپنی کالونی سمجھتے ہیں جہاں صرف ان کی لاٹھی اور ان کی بھینس ہو مگر وہ بھول گئے کے بی بی شہید کا وارث آج پھر اپنے نانا اور اپنی ماں کی طرح ان قوتوں کو للکار تا ہوا سیاست کے میدان عمل میں موجود ہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے شعوری طور پہ موت کو قبول کیا وہ ایک بزدلی کی زندگی جینے سے زیادہ بہادری کی موت کو پسند کرتی تھیں یہ سوچ انہیں اپنے والد سے ورثہ میں ملی تھی۔

ذوالفقار علی بھٹو کو بھی وقت کے آمر نے بار بار فرار کا محفوظ راستہ دینے کی پیش کش کی کیونکہ وہ جانتا تھاکہ بھٹو مر کر امر ہو جائے گا مگر انہوں نے آمریت کو للکارا اور للکارتے للکارتے اپنی جان نذر کر دی ۔پھر ان کی جانشین ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو بھی اسی راستہ پر چل نکلی اور آمریت اور دہشت گردی کے آگے ایک دیوار بن کے کھڑی ہوئی وہ اپنے ملک کومستقبل کے گولہ بارود سے نکال کر جمہوریت اور علم کے راستوں پہ لانا چاہتی تھیں انہیں پتہ تھا کہ اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی انہیں مار دیا جائے گا۔ 

سانحہ کارساز سے پہلے وہ کچھ دیرینہ ساتھیوں کے ساتھ سفر کر رہی تھیں اچانک بی بی نے گاڑی رکوائی اور نیچے اتریں انہوں نے فروٹ خریدنا شروع کر دیا۔ بی بی فروٹ فروشوں سے گپ شپ بھی کرتی جا رہی تھیں بی بی کے ساتھ جولوگ سفر کر رہے تھے جن میں خورشید شاہ صاحب بھی موجود تھے انہوں نے کہا کہ بی بی آپ کیا کر رہی ہیں آپ کی جان کو خطر ہ ہے تو وہ مسکر ا دیں کہتی ہیں میں جانتی ہوں اپنے قاتل کو پریشان کر رہی ہوں وہ جمہوریت کے راستے میں آنے والی تمام رکاوٹوں سے ٹکرانا چاہتی تھیں۔ انہوں نے اپنے والد سے کیا ہوا وعدہ نبھایا ۔اور اپنی جان اس دھرتی کی نذرکر دی ۔
سنہ1977کے مارشل لاء کے بعد ماں کی سرپرستی میں نظر بندی جھیلتے ہوئے جمہوریت کیلئے بڑے استحکام کے ساتھ تحریک چلائی پھر 1984سے 1988تک کا عرصہ جلاوطنی میں گزارا اور اس دوران بھی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں اور ان مشکلات نے بی بی کے اندر کے عظیم اور نڈر لیڈر کو جنم دیا۔1985میں یورپین پارلیمینٹ سے اپنے خطاب کے دوران بھی انہوں نے پاکستان میں آمریت کے نتیجے میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ظلم بربریت کے خلاف آواز اٹھائی۔ 1988میں واپس آئیں اور پھر سازشوں کا سلسلہ تھما نہیں چلتا رہا اور بی بی کا قافلہ بھی نہ وہ ڈریں نہ ان کے ساتھ چلنے والے ان کے جا ں نثار۔

اور آج بی بی کی شہادت کو 10بر س بیت گئے مگر قافلے پھر رواں دواں ہیں بی بی کا لخت جگر اس قافلے کی رہنمائی کر رہا ہے ۔شاید بھٹو خاندان کے قاتل بھول جاتے ہیں بھٹو عزم کا نام ہے پورے خاندان کی قربانی بھی ان کے ارادے بدل نہیں سکی یہ جنون کا سفر ہے یہ عشاق کا قافلہ ہے یہ رکے گا نہ جھکے گا اس وقت تک چلے گا جب تک اس ملک میں اصل جمہوریت نہیں آجاتی جمہوریت جب تک طاقتور نہیں ہوجاتی یہ قافلہ چلے گا سر پر کفن باندھے جان ہتھیلی پہ رکھے بی بی کی دسویں برسی پر بی بی کے قاتل آزاد ہیں اور کچھ فرار۔

کیا اس ملک کے ادارے اتنے مضبوط ہیں کہ جیسے ذوالفقار علی بھٹو کو ایک جھوٹے مقدمہ میں پھانسی دے دی گئی تھی ویسے ایک سابقہ جنرل کو بی بی کے قتل کیس میں ملک میں لا کر ٹرائل کریں عدلیہ آج اپنے پہ لگے ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کے دھبہ کو بی بی کے کیس میں انصاف کر کے دھو سکے گی ۔ کیا پرویز مشرف جو اپنی بے گناہی کا واویلہ بیرون ملک بیٹھ کر مچا رہا ہے اور اس ملک کے آئین اور قانون کو سوائے ایک کاغذ کے ٹکڑے کے کچھ بھی نہیں سمجھتا وہ پاکستان میں آکر محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقدمہ کا سامنا کر سکے گا ؟کیا ملکی ادارے محترمہ کو انصاف دے سکیں گے اور اپنی غیر جانبداری ثابت کر سکیں گے یا محض الزام اور دشنام تراشی سے ہی کام لیا جائے گا اور بی بی کے جاں نثاروں کو اسی سوال میں الجھائے رکھا جائے گا کہ پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سالہ دورے اقتدار میں بی بی کے قاتلوں کو کیفر کردار تک کیوں نہیں پہنچایا ۔

مگر بی بی کے عقیدت مند جانتے ہیں کہ بی بی کے قتل میں ملوث قوتوں کو کیفر کردار تک پہنچانا آصف علی زرداری کیلئے اتنا آسان نہ تھا مگر انہوں نے بارہا ان قوتوں کی نشان دہی بھی کی اور انہیں للکارتے بھی رہے دیکھنا یہ ہے کہ پرویز مشرف کو کٹہرے میں لایا جائے گا یا اس ملک کا نظام عدل کٹہرے میں آئے گا اس سوال کا جواب آنے والے برسوں میں ملے گا۔

Comments are closed.