امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں ہونے والے حالیہ دہشت گردانہ حملوں کے تناظر میں کہا ہے کہ امریکا طالبان کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گا۔ کابل میں ہفتے کے روز ہونے والے ایمبولینس بم حملے میں 103 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
پیر 29 جنوری کو وائٹ ہاؤس میں ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بالکل مختلف لڑائی جاری ہے اور طالبان دائیں اور بائیں معصوم لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔
افغان دارالحکومت کابل میں ہفتے کے روز ہونے والے ایک خودکش ایمبولینس بم دھماکے کے نتیجے میں 103 افراد ہلاک جبکہ 235 دیگر زخمی ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی تھی۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق افغان دارالحکومت کابل میں صرف رواں ماہ یعنی جنوری میں ہونے چار مختلف حملوں کے نتیجے میں مجموعی طور پر 154 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں سے دو حملوں کی ذمہ داری طالبان نے جبکہ دو کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
افغانستان میں ہونے والے ان حملوں میں شدت ایک ایسے موقع پر آئی ہے جب امریکا پاکستان کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر میں سختی لا رہا ہے اور پاکستان پر دباؤ بڑھا رہا ہے کہ وہ اپنے ہاں موجود عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ کرے۔ امریکی حکومت اسی تناظر میں پاکستان کی امداد بھی معطل کر چکی ہے۔
امریکا کو یقین ہے کہ کابل میں ہفتے کے روز ہونے والے ایمبولینس بم دھماکے کے پیچھے افغان طالبان کے حامی حقانی نیٹ ورک کا ہاتھ ہے۔ یہ بات امریکی سربراہی میں قائم اتحاد کی طرف سے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتائی گئی ہے۔ اس بم دھماکے کے سبب 103 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ افغانستان میں سرگرم نیٹو مشن کے امریکی ترجمان کیپٹن ٹام گریس بیک کے مطابق، ’’ہمیں پورا یقین ہے کہ ہفتے کے روز 103 افراد کی ہلاکت کے پیچھے طالبان کے حقانی نیٹ ورک کا ہاتھ ہے۔‘‘۔
ایک اور امریکی اہلکار نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ واشنگٹن کو یقین ہے کہ کابل میں ہونے والا ایمبولینس بم دھماکا حقانی نیٹ ورک کا کام ہے۔ حقانی نیٹ ورک کے بارے میں واشنگٹن حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کی محفوظ پناہ گاہیں پاکستان میں ہیں۔
اقوام متحدہ میں افغانستان کے سفیر نے حملوں کا ذمہ دار پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی ٹھہرا یا ہے اور کہا ہے آئی ایس آئی طالبان کی پشت پناہی کر رہی ہے جو کابل پر حملے کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ حکومت پاکستان کا موقف ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا مطلب انہیں اقتدار میں شریک کرنا ہے۔ جو کہ پاکستانی ریاست کی سٹرٹیجک ڈیپتھ پالیسی کی بنیادی شق ہے۔
جبکہ طالبان افغانستان کی منتخب جمہوری حکومت کو بھی تسلیم نہیں کرتے اور جمہوریت کا کفر کا نظام قراردیتے ہیں اور شریعت نافذ کرنے کا مطالبہ کرتےہیں۔
DW/News Desk