طارق احمدمرزا
اصل ناول تو تامل زبان میں ’’مادھروبھاگن‘‘ کے نام سے بھارت میں 2010 میں شائع ہوا تھا جبکہ اس کا انگریزی ترجمہ 2015 میں’’ون پارٹ وومن‘‘ یعنی ’’ ایک حصہ عورت‘‘کے عنوان سے پینگوئن بکس نے شائع کیا جسے گزشتہ برس بہترین ترجمہ شدہ کتاب کے ایوارڈ کے لئے نامزدکیاگیا۔
مصنف پیرومل موروگن نے اس ناول میں برصغیر کے ایک بہت ہی عام لیکن سلگتے ہوئے گھمبیرمسئلہ اور اس سے جڑے ہمارے پیچ درپیچ منفی معاشرتی رویوں اورغیر منتقی،بے بنیاد اقدار کی طرف ایک اچھوتے اور منفرداندازمیں توجہ دلائی ہے۔
اور وہ اس طرف توجہ دلاتاہے ایک بے اولادبہو(پوناؔ ) کی ساس کے الفاظ میں جس کے کلیجے میں اپنی اس بہو کی باقاعدگی سے آنے والی ماہواری(مخصوص ایام) ہرماہ ایک چھرابن کر لگتی ہے اور وہ ہربار اس کا پتہ چلتے ہی کھاجانے والے انداز میں پوچھتی ہے کہ تیراپاؤں اس بار بھی بھاری نہیں ہوا؟۔
یہ سوال تو شادی کے بعد آنے والی پہلی ماہواری سے ہی ہوناشروع ہوگیا تھا جس کا علم جب ساس کو ہوتا ہے تو وہ پوناؔ کے سامنے آتے ہی نفرت،غم اور غصے سے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیتی ہے۔
اس’ کم بخت منحوس‘ ماہواری کو بذریعہ حمل بند کرانے کی ہر کوشش،ہرجتن،ہر ٹونہ ٹوٹکاناکام ونامرادہی ثابت ہوا تھا حتیٰ کہ پوناؔ کی نہ بند ہونے والی ماہواریوں کے اس سلسلہ کو پہلے دس پھر بارہ اور پھر پندرہ برس کا طویل عرصہ ہونے کو آجاتا ہے لیکن افسوس کہ یہ بہواپنی کوکھ سے سسرال کاکوئی وارث پیدا کرنے میں ناکام ہی رہتی ہے۔اس کا پاؤں توبھاری نہیں ہوپاتا البتہ اس کے نہ بند ہونے والے مخصوص ایام اس کی زندگی کے ایام کوضروربھاری کردیتے ہیں۔
اتنا بھاری کہ اسے اپنا وجود اس درخت سے بھی کہیں کمترمحسوس ہوناشروع ہوجاتا ہے جسے اس نے اپنی شادی کے معاًبعدصحن میں ایک ننھے پودے کی حیثیت سے لگایا تھا اور اب دیکھتے ہی دیکھتے وہ سایہ دار تناور ا ور پھلداردرخت بن چکا تھاجبکہ اس کے اپنے درختِ وجود کی شاخوں پہ آج تک ایک کونپل بھی نہ پھوٹ سکی تھی۔
اسی طرح وہ خود کو اپنی اس گائے سے بھی کہیں کمتراور نامراد سمجھنے لگ گئی تھی جسے وہ ضدکرکے اپنے باپ کے گھر سے ان دنوں لائی تھی جب وہ ایک کم عمربچھڑی تھی اور اب اس کی کوکھ سے سات یا آٹھ بچھڑے پیداہوکرجوان بھی ہو چکے تھے۔وہ ہر آنے والے دن حسرت بھری نگاہوں سے اس درخت اوراس گائے کو دیکھ کر کڑھتی اور سوچتی کہ مجھ بدقسمت کوکھ جلی سے تویہ نباتات اور حیوانات بھی بہترہیں۔
ان تمام تر طویل ترین سالوں میں ہر حربہ اور ہرٹوٹکہ کے ناکام ہو جانے کے بعدبالآخر بہو کے میکے والے اور سسرال والے ملکر ایک عجیب سا فیصلہ کرتے ہیں۔یہ ایک ایسافیصلہ ہوتا ہے جو ان دونوں میاں بیوی کے اعصاب پر ،جو اولاد کی نعمت سے محروم ہونے اور نہ ختم ہونے والے روزروزکے طعن وتشنیع کے باوجود ایک دوسرے سے بے پناہ پیارکرنے کے باعث اب تک قائم ودائم چلے آرہے ،ایک بجلی بن کر گرتا ہے۔
فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ پوناؔ اس مرتبہ گاؤں کے مندر میں لگنے والے ایک روایتی مذہبی میلے کی ایک مخصوص رات جس میں مبینہ طورپر بلا روک ٹوک اور بلااحساس جرم وگناہ ہر مردوزن کو ایک دوسرے میں مدغم ہوجانے یعنی جماع بالرضا ،باالفاظ دیگر ’’فری سیکس‘‘ کی اجازت ہوتی ہے ،میلے کے ہجوم میں کسی غیر مردکے ساتھ جنسی ملاپ کرے ،کیا پتہ دیوتاکی مہربانی سے اس کی گودہری ہوجائے۔
یہ میلہ اردھیِ ناری شو ارہ نامی دیوی کے نام پر منعقد ہوتا ہے جس کا مجسمہ آدھی عورت اور آدھے مردکی صورت ڈھلاہوتاہے۔بعض مجسموں میں اوپر کا دھڑ نسوانی(پاروَتی )اور نچلامردانہ (شیوا) اور بعض تصاویر میں د ایاں حصہ نسوانی اور بایاں مردانہ دکھایا گیا ہے۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ عورت مردکے جسم کا محض ایک اضافی حصہ یا عضوہوتی ہے اور اسی حوالہ سے ناول کا نام مادھروبھاگن یعنی ’’ ون پارٹ وومن ‘‘رکھا گیاہے۔لیکن اس کا ایک اور پس منظریہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ پاروَتی نامی یہ دیوی اپنے خاوند دیوتا شیواجی پہ شک کیا کرتی تھی کہ اس نے کسی اوردیوی سے بھی تعلقات قائم کئے ہوئے ہیں ۔شیوا جی پاروَتی کے اس شک کاازالہ اس طرح سے کرتا ہے کہ ہر وقت پاروَتی کو اپنے جسم کے ساتھ اس طرح چمٹائے رکھتا ہے گویا وہ اس کے جسم کا ہی ایک حصہ ہے یوں یہ دونوں مل کر ایک نئے وجود ارد ھی نار ی شوارہ میں ڈھل گئے ۔
یہ مجسمہ بارآوری کی بھی علامت سمجھا جاتا ہے،اور بے اولاد جوڑے اس سے مرادیں مانگتے ہیں۔ کچھ گہری اور فلسفیانہ سوچ رکھنے والے اس مجسمے کو ایک پیغام کی حیثیت دیتے ہیں کہ مرد اور عورت ایک ہی وجودکے دو نام ہیں،ان کی تکمیل ایک دوسرے سے جدا رہ کر نہیں ہو سکتی جبکہ’’ سطحی‘‘ سوچ رکھنے والوں کو یہ دیوی اور دیوتا ہمہ وقت سیکس کرنے میں ہی مصروف نظرآتے ہیں۔
ناول نگار نے اردھی ناری شوارہ کی اس دیوی کا انتخاب اس کے شک کرنے والی صفت کے حوالے سے بھی کیاکیونکہ پوناؔ کوہمہ وقت اندر ہی اندر یہ غم بھی کھائے جاتا ہے کہ بے اولاد ہونے کی وجہ سے اس کا خاوند(کالی) اس سے متنفر تو نہیں ہوتا جا رہا۔اس کے دوست وغیرہ اسے دوسری شادی کی تجاویز بھی وقتاًفوقتاً دینے لگ گئے تھے۔ پونا ؔ کایہ غم اور شک اس وقت اور بھی گہرا ہوگیا جب کالیؔ اپنی ایک بانجھ گائے کو بیچ ڈالنے کی بات کرتاہے۔مصنف نے ان تمام نفسیاتی کیفیات اور تفکرات کے اظہار کے لئے مذکورہ دیوی کے مجسمے کو ایک علامت کے طور پر کمال مہارت اور خوبی سے استعمال کیا ہے ۔
دوسری طرف کالیؔ اپنی بیوی کو بھاگ نہ لگاسکنے کی وجہ سے خود اپنے طور پربھی شکوک ،کم مائیگی اورتذبذب میں مبتلارہتا ہے۔پونا کے جسم اور اس سے جسمانی ملاپ کا تصورکرتے ہی اس کے اعصاب اور فطری جذبات پہ پونا کابانجھ پن ایک عجیب سی اداسی اور انجماد طاری کردیتاہے۔واضح رہے کہ ناول میں جو زمانہ ظاہر کیا گیا ہے وہ ایک صدی پراناہے جب بے اولادی سے متعلق جدید ٹیسٹ اورعلاج وغیرہ دستیاب نہ تھے ۔آج کل یہ جدید سہولیات تو دستیاب ہیں لیکن ہمارے معاشرے کے سماجی رویئے ہنوز وہی چلے آرہے ہیں جو ایک صدی قبل ہوا کرتے تھے۔
بہرحال اس مرحلہ پہ مصنف کے متعارف کردہ اس ڈرامائی سنسنی خیزکلائمکس سے بہت سی پیچیدہ کیفیات اورہیجانات اور ان کے پس منظرسے منسلک بحثیں جنم لیتی ہیں جو ناول کے کرداروں کے علاوہ خود مصنف کی اپنی حقیقی زندگی پہ بھی ایک بجلی بن کر گریں اور مصنف کی اپنی زندگی کوبھی ایک ناول کا روپ دے گئیں ،جس کی طرف ا س تحریر کے عنوان میں اشارہ کیاگیاہے۔
ان باتوں کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ اول توناول کے مرکزی کرداراپنی اپنی جگہ سوچتے ہیں کہ دونوں خاندانوں کے اس متفقہ فیصلے (میلے میں کسی اجنبی مردکے ساتھ ملاپ)پر ہاں کہناان دونوں کے لئے کیا معنی رکھے گا اورچاہے اولاد ہو یا نہ ہوکیا ان دونوں کے درمیان پہلا والا پیار،اعتماد اور خلوص برقراررہے گا یا نہیں۔کیا بیوی کو جنسی تسکین حاصل کرنے کے لئے ایک نیا رستہ نہیں دکھا دیاجائے گا؟،وغیرہ۔
مصنف نے ناول کا اختتام اسی گہری ذہنی کشمکش ،فیصلے کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے دوراہے ،اوران گنت ادھورے سوالوں پہ لا کر کردیا گویا کہانی کے کلائمکس کو سسپنس ہی رہنے دیا۔اس قسم کا لاینحل یا گنجلک قسم کاسسپنس اشفاق احمد کی لکھی کہانیوں میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے جو قاری کو ایک ایسے چوراہے پہ لا کراسے اکیلا چھوڑدیتا ہے جہاں سے بظاہرکوئی بھی رستہ کہیں بھی نہیں جاتاحالانکہ ہر سمت کو جا رہا ہوتاہے!۔
مصنف کا اصل مقصد ایک تو صدیو ں سے چلے آنے والے فرسودہ لیکن ظالمانہ رویوں کی مذمت کرنا تھا جو بے اولادی کو ایک نحوست بلکہ ایک ناقابل معافی جرم اور گناہ عظیم سمجھتے ہیں ۔مبینہ طورپربعض قدیم ہندو کتب کے مطابق جہنم کا ایک حصہ صرف بانجھ عورتوں کے لئے مختص ہوگا چنانچہ اس بنا پر بانجھ عورتوں کی زندگیاں بھی ایک جہنم میں تبدیل کردی جاتی ہیں۔ان فرسودہ جاہلانہ رویوں کو اب ترک کردینا چاہئے ۔
دوسرے یہ کہ مصنف نے ناول میں آشرموں،مندروں،اور مذہبی میلوں ٹھیلوں کی نام نہاد ’’برکتوں‘‘ اور’’ معجزوں‘‘ کا پول بھی کھولاہے ۔ معاشرے کو پتہ چلنا چاہئے اور اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ ان’ ’معجزوں‘‘کا اصل راز کچھ اورہوتا ہے۔ضعیف الاعتقاد،غریب اور مجبور بے اولاد جوڑے معاشرے کی لعن طعن سے اتنے عاجز اورتنگ آچکے ہوتے ہیں کہ اپنی عزتوں کی بھی پروا کئے بغیر انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبورہوجاتے ہیں۔بچے کی پیدائش کیسے ہوئی؟ بس کہہ دو کہ فلاں مندر کے فلاں میلے میں گئی تھی تو وہاں معجزہ ہوگیا تو لوگوں کے منہ بند ہو جائیں گے۔
پوناؔ کی ساس بھی اسے کچھ یوں ہی سمجھاتی ہے کہ زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں۔میلے کی رات جو مرد بھی تمہیں خدانما نظر آئے اسی کو اپنے لئے خدا کا ظہور سمجھنا اور بس !۔
لیکن پونااس قسم کے’’ معجزے ‘‘پہ راضی ہونے کی بجائے اپنے خاوندکالیؔ کی منتیں کرتی ہے کہ بہتر ہے کسی کا بچہ گود لے لیتے ہیں تاکہ اس گھرانے کو اس کا وارث مل جائے خواہ یہ بچہ کسی نیچ یا اچھوت عورت کا ہی کیوں نہ ہو اور اگریہ ممکن نہ ہو تو کوئی بچہ خرید کر ہی لے آؤ ۔
برصغیرپاک وہند میں اولاد،خصوصاً نرینہ اولاد خاندان کا نام چلانے کے علاوہ جائیدادکو بھی بچانے کے کام آتی ہے۔اگر خاندان کا کوئی وارث نہ ہو تو جائیداد ’’شریکوں‘‘یا غیروں کے قبضے میں چلی جاتی ہے۔پوناؔ کی ساس کو جائداد کا غم بھی ستاتاتھا۔کالیؔ کوپوناکی یہ تجویز اچھی تو لگتی ہے لیکن وہ سوچتا ہے کہ بچہ گود لے لینے سے لوگوں کے منہ توپھر بھی بند نہ ہونگے۔
پورے ناول میں صرف ایک کردار ایساہے جوپونا ؔ اورکالیؔ کا ہمدرد ہوتا ہے اور وہ ان کے ایک ایسے انکل کا ہے جو ناول کے پیش کردہ سو ڈیڑھ سوبرس پہلے کے زمانہ میں بھی لبرل،سیکولر اور روشن خیال نظریات کا حامل ہوتا ہے اوروقتاً فوقتاً اس جوان جوڑے کو ہر قسم کی دقیانوسی تنقید کی پروانہ کرنے اورزندگی کومثبت طریقے سے گزارنے کے ڈھنگ سکھاتارہتاہے۔صاف ظاہر ہے یہ ’’انکل‘‘خود مصنف کے دماغ اورسوچ کاترجمان ہے۔
جب یہ ناول تامل زبان میں شائع ہوا تھاتو اس پر پبلک کی طرف سے کوئی غیرمعمولی ردعمل وغیرہ ظاہرنہیں کیا گیاتھاتاہم چارسال بعداس کے انگریزی ترجمہ کا شائع ہونا تھا کہ اچانک ملک بھر میں گویا ایک قیامت مچ گئی۔ایک طرف اس اعلیٰ ذات کی ہندوبرادری نے مصنف (جس کا تعلق ایک کم ذات کی ہندو نسل سے ہے) کے خلاف احتجاجی جلسے جلوس نکالے جن سے ناول کے دونوں مرکزی کرادروں پونا ؔ ،کالیؔ اور ان کے خاندانوں کا تعلق ظاہر کیا گیاہے دوسری طرف انتہا پسند ہندومذہبی تنظیمیں مثلاًآر ایس ایس نے مصنف کو توہین مذہب کا مرتکب قرار دے کر اسے بدترین اور عبرت ناک سزا دینے اور اس کی کتابوں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا،جلوس نکالے،دکانوں سے اس کے ناول لوٹ کر سڑکوں پہ جلائے اورناول کے پبلشرز، سٹاک رکھنے والے کتب فروشوں کو مزیدسنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دیں۔
مظاہرین کادعویٰ اور اصرارتھا کہ کسی بھی مندر کے کسی بھی میلے میں فری سیکس وغیرہ کی کوئی رسم نہیں پائی جاتی اور یہ کہ مصنف نے اس قسم کی بات کرکے ہندو دھرم اور اس سے تعلق رکھنے والوں خصوصاً ہندو خواتین کی شدید ترین توہین کی ہے۔
نتیجۃً ناول نگار پیرومَل مُورُوگن بیچارے کو اپنی جاب ،گھربار حتیٰ کہ اپنا شہر تک چھوڑ کر کہیں اور روپوش ہونا پڑگیا اور پھر جب دیکھاکہ اس کی کتاب کی مذمت کرکے ملک بھر کی سیاسی جماعتوں،خصوصاً شدت پسند ہندومذہبی سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی سیاست چمکاناشروع کردی ہے اور اب کوئی بھی سرپھرااس کو بیدردی سے قتل کرکے ایک ہیروکامقام حاصل کر سکتا ہے تو اس قسم کی نوبت آنے سے پہلے ہی اس نے ان ہنگاموں کا یہی حل سوچا کہ خود اپنی ہی موت کا اعلان کرڈالے !۔
چنانچہ اس نے اپنی نوعیت کا ایک انوکھااعلان کیا جو ہندوستان کے نام نہاد سیکولراور لبرل معاشرے کے منہ پہ ایک اور زبردست طمانچہ تھا، ایک ایسامعاشرہ جہاں رجعت پسندی، عدم برداشت اور انتہا پسندی نہ صرف یہ کہ اچھی طرح رچی بسی ہوئی ہے بلکہ اس میں مزیداضافہ ہوچکا ہے۔
پیرومَل مُوروُگن نے اعلان کیا کہ تمام لوگوں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ میرے اندر کا لکھاری پیرومل موروگن آج مر گیا۔وہ آج ہمیشہ ہمیش کے لئے اس دنیا سے رخصت ہوگیا ۔وہ اب زندہ نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ خدا نہیں۔وہ اب کسی اور جنم میں بھی اس دنیا میں دوبارہ نہیں آئے گا۔میں اپنے اندر کے اس فوت شدہ لکھاری کی تمام کتابیں بشمول اس متنازعہ ناول کے واپس لیتا ہوں۔ جملہ پبلشرز،پرنٹرز،کتب فروشوں وغیرہ کا اس کے نتیجے میں جو بھی نقصان ہوگاوہ میں اپنی جیب سے بھرونگا۔ جہاں تک میرا تعلق ہے آپ لوگ مجھے محض مسٹر پی۔موروگن کی حیثیت سے جانیں گے جومحض ایک ٹیچر ہے لکھاری ہرگزنہیں۔
بعد میں ایک اور بیان میں انہوں نے کہا کہ وہ محض ایک چلتی پھرتی لاش ہیں اور بس۔
یہ افسوس ناک اعلان کارگر رہا،اس کو پیرومَل کی طرف سے معافی نامہ سمجھ کرقبول کرلیا گیا اور سب ہنگامہ آرائی ٹھنڈی پڑ گئی۔کتاب کے پبلشرز اورکتب فروشوں نے البتہ ان تمام احتجاجوں اور مصنف کے اس ’’ اعلانِ انتقال بزبانِ خود‘‘ کو مسترد کردیا اور جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناول سے لاتعلق ہوجانے یااس کی فروخت سے دستبردارہونے سے بھی انکار کردیا۔ادھر بھارتی قلمکاروں کی تنظیموں نے بھی ان سارے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اگر احتجاج کرنے والوں کو اپنی ذات برادری اور دھرم کی اتنی ہی غیرت تھی تو اس کے بیدار ہونے میں چار سال کیوں لگ گئے ؟۔
قلمکاروں کا کہنا ہے کہ اس ہنگامہ آرائی کے پیچھے ممکنہ طورپربی جے پی اور یقینی طورپر آر ایس ایس کا ہی ہاتھ تھا جو سیاست میں مذہب کا کارڈ استعمال کرناخوب جانتی ہے۔افسوس اس بات کا ہے کہ یہ کارڈ اب تخلیق کاروں کے خلاف بھی استعمال ہونے لگ گیا ہے۔
چندماہ قبل مدراس ہائیکورٹ نے ایک مقدمہ میں جناب پیرومل کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے ان کی تصانیف پر عائد ہر قسم کے سنسرشپ کو،خواہ وہ جبری ہو یارضاکارانہ،ناجائزقرار دے دیا اورانکی آزادئ ضمیر اور آزادئ اظہار کو بحال کرکے ان کے اندر کے لکھاری کو ایک نیا جنم دینے کی نوید سنائی۔دیکھنا یہ ہے کہ برصغیر کی یہ پرانی تہذیب ان کے اس نئے جنم کوکس حد تک گواراکرپائے گی؟۔
♣