شبانہ نسیم
ہمارے ہاں ریپ جیسے موضوع کو اب گلی محلے اور دوستوں کی محافل میں زیر بحث لایا جانے لگا ہے ،لیکن جنسی کھلونے کی درآمد یا استعمال کے حوالے سے بات کرنا انتہائی ناگوار خیال کیا جاتا ہے ۔اگر میری کہی بات پر یقین نہ آئے تو بے شک کسی کے سامنے ایسی نامعقول بات کرکے ردعمل کا عملی نمونہ ملاحظہ کر لیجئے اگر سامنے والے نے آپکو بے شرموں کی سب سے اونچی مچان پر نا بٹھا یا اور توبہ استغفار کا وردنہ سنایا تو بے شک نام بدل دیجئے گا بندہ ناچیز کا۔
سہانے سپنے سجاکر احمقوں کی جنت میں رہنا تب بے حد ناگوار لگنے لگتا ہے جب حقیقت کی دنیا اپنی بھیانک صورت ہمیں دکھاتی ہے۔ہمارے ہاں خواتین و حضرات کے سامنے اگر یہ بات کی جائے کہ ملک میں ریپ جیسے جرائم کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے تو کچھ اس قسم کے جواب سننے کو عام ملتے ہیں ۔پرانا زمانہ اچھا تھا تب تو ایسے واقعات نہیں ہوتے تھے۔تو جناب پرانے وقت میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ بھی نہیں تھے کہ کسی واقعے کی خبر چند سیکنڈز میں جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیلتی وگرنہ پرانے لوگ بھی بچے پیدا کرنے کیلئے وہی عمل کیا کرتے تھے جو آج کا انسان کرتا ہے۔
دوسرا اہم ترین جواب خواتین مناسب پردے کا اہتمام نہیں کرتیں جس کے باعث مردوں کے دل میں شہوت زدہ خیالات ابھرتے ہیں اور وہ اپنے جذبات سے مغلوب ہو کر ایسے اقدامات کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔یہاں اس امر کا ذکر کرنا شاید غیر مناسب نہ ہو کہ سعودیہ عرب میں خواتین پر مکمل پردہ لازم ہے لیکن ریپ کی شرح تو وہاں بھی اچھی خاصی ہے۔دوسری بات وطن میں عزیز میں صرف خواتین ہی نہیں بلکہ کم سن بچے ،بچیاں ،نو عمر لڑکے لڑکیاں بھی اس ظلم کا شکار ہو رہے ہیں۔
چند روز قبل میری نظرسوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ایک خبر پر پڑی جس میں یہ معلومات فراہم کی گئی تھیں کہ مسجد کے عین بیچوں بیچ ایک8سالہ بچے کو جنسی ہوس کا نشانہ بنا نے کے بعد پھانسی دے دی گئی ، مذکورہ خبر پر ہی کسی نے تبصرے کیلئے مختص جگہ پر ایک لنک شیئر کر رکھا تھا جس میں ایک اور خبر تھی جس میں ایک چھ سالہ بچی کو دو پڑوسیوں نے کھیتوں میں ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
چلیں اگر مان بھی لیا جائے کہ خواتین ہار سنگھار کر کے بے پردہ ہو کر گھومتی ہیں جس بنا پر یہ جرم بڑھ رہا ہے ،لیکن سوال یہ ہے کہ ایک آٹھ سال کا بچہ جسے شاید فحاشی جیسے لفظ کا مطلب بھی نہ پتا ہو وہ مسجد جیسی پاک جگہ پر اس کا مرتکب کیسے ہو سکتا ہے؟دوسری جانب ایک چھ سالہ معصوم سی دبلی پتلی بچی جس کے جسمانی خدوخال بھی بالکل چھوٹی سی پری کی طرح ہوں بھلا دو ہٹے کٹے مردوں کو لبھانے کیلئے کیا چکر چلاسکتی تھی؟
آخر یہ قاری صاحب، پڑوسی انکل ،گھروں میں کام کرنے والے بچوں بچیوں کے مالک اور مالکائیں، خوبرونوعمر لڑکے لڑکیوں کے نام نہاد باسز کب تک اپنی بے رہ روی کو چھپانے کیلئے ایسی غیر منطقی توجیحات پیش کرتے رہیں گے اور ہم کسی معصوم کی زندگی کے یا عزت کے خاتمے کی خبریں پڑھ کر پل دو پل کیلئے دکھی ہو کر پھر سے اپنی روزمرہ مصروفیات میں الجھ جائیں گے۔ اگر ہم ایسے ہی بے حس بنے رہیں گے تو وہ وقت دور نہیں جب یہ آگ ہمارے گھروں تک بھی پہنچ جائے۔
مگر ایک اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ آخر یہ کون لوگ ہیں جن میں جنسی ہوس اس قدر بڑھ چکی ہے کہ انھیں کسی کی زندگی تک کی پرواہ نہیں رہتی۔قوانین کو سخت سے سخت دکھانے میرا مطلب ہے بنانے کے باوجود آخر اس جرم میں اضافہ ہی کیوں ہوتا جا رہا ہے ؟اگرچہ ہمارے ہاں پاکستان میں لو گ سیکس جیسے موضوع کو زیر بحث لائے ہوئے لجاتے ہیں تاہم اس کے باوجود اس حقیقت سے کسی صورت منہ نہیں موڑا جا سکتا کہ جنسی تعلق ایک فطری عمل ہے اور ہر انسان کی ضرورت بھی۔
لیکن کیا ہم وطنوں کی یہ ضرورت پوری نہیں ہو پا رہی جو وہ غیر انسانی حرکات کے مرتکب ہو رہے ہیں اور معصوم بے بس افراد کا استحصال کر ر ہے ہیں۔اگر ایسے افراد جن میں بڑی تعداد مردوں بلکہ نیک مردوں کی ہے جنھیں اچھے خاصے ڈھکے ہوئے زنانہ،نر اور مادہ بچگانہ اجسام کہیں بھی بہکا دیتے ہیں اب وہ مسجد ہو کھیت ہو یا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ایسے نام نہاد معصوم لوگوں کیلئے میری حکومت وقت اور علماءکرام سے التجا ہے کہ وطن عزیز میں جنسی کھلونے درآمد کرنے اور ان کے آسان حصول کو ممکن بنایا جائے ۔تاکہ ان کے وقت بے وقت آجانے اور حاوی ہوجانے والے شیطان سے معصوم لوگوں کی زندگیاں اور عزتیں محفوظ رہ سکیں ۔
♦
4 Comments