شفیق شاہق غزنی
آدمی سماج میں اپنی ایک خوبصورت تصویر دیکھنا چاہتا ہے۔ اور اس کیلئے وہ اپنی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ کہ لوگ اس سے عزت اور وقار کی نظر سے دیکھیں۔ اس کی محنت و مشقت اور ساری کوششش ایک با عزت زندگی کا حصول ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ آدمی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کا ر لا کر اپنے معزز ہونے پر مہر لگاتا ہے ۔ اور سماج میں بحیثیت فرد اپنا کردار آدا کرتاہے۔ غرض انسان میں یہ فطری خوبی ہے، کہ وہ امن و خوشی، محبت، اور اعلی انسانی اقدار کا عاشق ہوتا ہے۔ اور ایک با وقار زندگی کا آرزو مندہوتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ پھر آدمی جرم کیوں کرتا ہے؟ حالانکہ وہ خود کو ایک مجرم کے طور پر دیکھنا پسند نہیں کرتا ۔ لیکن پھر بھی وہ جرم کا مرتکب ہوتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ جب کوئی قانوں کو توڑتا ہے اور قانوں کے بر خلاف کوئی عمل کرتا ہے تو وہ مجرم کہلاتا ہے، جبکہ قانوں ان اصولوں کو گھیرے ہوئے ہے جو ایک گروہ یا ریاست اپنے لوگوں کیلئے منتخب کرتا ہے۔
چونکہ ریاست میں قانون بنانے والے لوگ ہی ہوتے ہے، جو لوگوں کے منتخب کردہ یا غیر منتخب کردہ ہوتے ہے۔تو کیا قانون میں ایسی کمی یا غلطی ہے اور اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر ریاست کا عمل دخل ہوگا کہ وہ عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھے ہوئے ہے۔ کیو نکہ جب آدمی کو اس کا حق نہیں ملتا تو وہ اس قول کے بمصداق عمل کرنا شروغ کردیتا ہے کہ “جہاں حق نہ ملے وہاں لوٹ ہی سہی“ اور اگر اس کا جواب بھی مندرجہ بالا صورت میں ہو۔ تو پھر آخر وہ کیا وجوہات ہے جن سے آدمی مجرم بنتا ہے؟
بد قسمتی سے ہم جس سماج کا حصہ ہے یہاں پر سڑکوں پہ بیٹھے گداگروں سے لے کر ایوانوں تک بیٹھے لوگ دھوکے باز ہے۔ ہم سب ایک دوسرے سے جھوٹ بو ل رہے ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کا حق کھا رہے ہوتے ہیں۔
ریاست کے نمائندے اپنی مفادات اور طاقت کے کھیل میں مگن ہے۔ اور اداروں میں بیٹھے کرپٹ لوگ غرض ہر سطح میں لٹیرے موجود ہوتے ہیں۔ اور یوں آدمی پر ظلم کی کہانی قائم و دائم ہے۔
عرض یہ ہے صاحب کہ آدمی برا نہیں ہوتا اور آدمی جرم نہیں کرتا ۔ بلکہ اسے حالات مجرم بنا دیتے ہیں۔ جب وہ بے بس ہوتا ہے اور طاقت کے آگے وہ خود کو لاچار اور بے یارومددگار محسوس کرتا ہے۔ تو وہ جرم کا مرتکب ہوجاتا ہے۔ جب زندگی کے کھیل میں اس کو کوئی راستہ نظر نہیں آتا تو وہ ان عناصر کا ہتے چڑتا ہے جن سے انتشار ، دہشت اور مایوسی مقدر ہوتی ہے۔
بے شمار ایسے واقعات ہیں جو کہ ظلم اور حق کی جنگ لڑنے اور قانوں کے ناجائز استعمال سے واقع ہوتے ہے۔ جن سے مخلوقات میں اعلی درجے کی نمائندگی کرنے والا اشرف المخلوقات غیر انسانی فعل سرانجام دیتا ہے۔ ایک مجرم کو دیکھنے سے پہلے کہانی کے پیچھے کہانی کو ضرور دیکھیئے۔ اور اگر ہم انسانیت، محبت اور مدد کا عنصر عام کریں گے تو شاید مجرم نہیں بلکہ محبت اور خلوص سے بھر پور انسان دیکھنے کو ملیں۔
♦
2 Comments