بارہ جنوری کو مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں قتل ہونے والے جنوبی وزیرستان کے 27 سالہ نقیب محسود کا نمازہ جنازہ جمعرات کو ٹانک میں ادا کیا گیا۔ نقیب محسود کو اس کے آبائی گاؤں میں بروز جمعہ سپرد خاک کیا جائے گا۔
نقیب محسود کا تعلق جنوبی وزیرستان کے گاؤں بہادر خان کلے سے ہے۔ انہوں نے دس سال پہلے اپنے گاؤں میں اپنے رشتہ داروں میں ہی شادی کی اور اس کے تین بچے تھے۔ 43 سالہ معراج الدین نقیب محسود کے چچازاد بھائی ہیں۔ معراج نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نقیب نے چند روز قبل ہی فون کرکے اپنی بیٹیوں نو سالہ نائلہ، سات سالہ علینہ اور بیٹے دو سالہ عاطف کو کراچی لانے کے لیے کہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ نقیب اپنے بیٹے کو آرمی میں افسر بنانے کا خواہشمند تھا۔ معراج نے مزید کہا کہ نقیب کے 60 سالہ والد محمد خان کو عمر کے ایسے وقت میں بیٹے کی جدائی کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس میں والدین کو نوجوان بیٹے کی میت کو کندھا دینا مشکل ہوتا ہے۔
نقیب محسود کا اصل نام نسیم محسود تھا اور اس کے دو بھائی اور چھ بہنیں تھیں۔ نقیب محسود کے بھائی فریداللہ دبئی میں کام کرتے ہیں۔ جیسے ہی انہیں نقیب کی ہلاکت کی خبر ملی تو وہ فوری طور پر اپنے آبائی گاؤں پہنچ گئے۔ ان کا چھوٹا بھائی عالم شیر طالب علم ہے۔ 4 بہنیں شادی شدہ اور دو غیر شادی شدہ ہیں۔ نقیب کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بہنوں کی شادی میں اپنا حصہ ڈالے اس لیے اس نے کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں کپڑے کی دکان کھولنے کا ارادہ کیا تھا۔
مقامی میڈیا کے مطابق ملیر کے ایس ایس پی راؤ انوار نے مبینہ طور پر نقیب کو 3 جنوری کو تین بجے سہراب گوٹھ سے اٹھایا اور 12 جنوری کو مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں قتل کر دیا۔ نقیب کے ورثاء اس کی لاش کو 5 دنوں سے ڈھونڈ رہے تھے جو بالآخر چھیپا کے ایک سینٹر سے ملی۔
ایس ایس پی راؤ انور کے مطابق نقیب کا تعلق دہشت گرد تنظیم سے تھا اور وہ کئی ایک مقدموں میں پولیس کو مطلوب تھا۔ ان کے مطابق نقیب بلوچستان میں بھی کارروائی کرتا رہتا تھا۔ نقیب کی ہلاکت کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
رحمت محسود اسلام آباد میں آزاد صحافی ہیں اور اس کا تعلق نقیب کے علاقے سے ہی ہے۔ وہ گزشتہ اٹھارہ برس سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ رحمت نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نقیب محسود تو خوبرو نوجوان اور ماڈلنگ کا شوقین تھا اگر وہ محفوظ نہیں ہے تو پھر قبائلی بالخصوص وزیرستان کے لوگ بالکل غیر محفوظ ہیں۔
تحریک انصاف کے ایم این اے شہریار آفریدی نے نقیب محسود کی ہلاکت کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا کہ اس مبینہ ماورائے عدالت قتل پر انکوائری کی جائے اور جو لوگ اس میں ملوث ہیں، انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ شہریار آفریدی نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ وہ دو دن سے اسی کوشش میں ہیں کہ وہ قومی اسمبلی میں اس پر بات کریں لیکن انہیں بولنے کا موقع نہیں دیا جا رہا۔
تحریک انصاف کے ہی ممبر سندھ اسمبلی خرم شیر زمان نے سندھ اسمبلی میں مذمتی قرارداد بھی جمع کرائی ہے، جس میں نقیب محسود کی ہلاکت کی مذمت کی گئی ہے۔ ساتھ ہی اس میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان نقیب کیس کو ٹیسٹ کیس بنائیں۔ ادھر بلاول بھٹو زرداری نے نوٹس لیتے ہوئے وزیر داخلہ سندھ کو اس معاملے کی انکوائری کے احکامات جاری کیے ہیں اور ڈی آئی جی ساؤتھ آزاد خان کو انکوائری افسر مقرر کیا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے بیشتر علاقوں میں آج بروز جمعرات مظاہرے ہوئے۔ بنوں، لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، ہنگو اور اسلام آباد میں صحافی، سول سوسائٹی کے فعال ارکان اور اساتذہ سمیت سکول اور کالجز کے طلباء نے بھی پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ یہ مظاہرین نقیب کے حق اور پولیس ایس ایس پی راؤ انور کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔
ثنا اعجاز پشاور میں سماجی کارکن ہیں۔ وہ اس شہر کی ان چند خواتیں میں شامل ہیں جو ملک میں ماورائے عدالت قتل کی وارداتوں کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں۔ ثنا اعجاز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس ریاست کا ایک آئین ہے پر یہاں ریاستی ادارے ہی اس پر عمل نہیں کرتے۔ اگر نقیب پر کوئی الزام تھا تو قانونی کارروائی کی جاتی۔ اسے عدالت لے کر جاتے، پر یہاں تو دن دیہاڑے ایک نوجوان کو لے جایا جاتا ہے اور نامعلوم مقام پر رکھا جاتا ہے، اور کچھ دن بعد اس کی مسخ شدہ لاش پھینک دی جاتی ہے۔ اس ریاست میں جنگل کا قانون ہے۔ ریاستی ادارے ہی ریاست کے آیئن کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ نقیب محسود کے کیس میں پولیس ملوث ہے یا سکیورٹی ایجنسیاں، ان سے پوچھ گچھ اور انکوائری کے بعد انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے‘‘۔
DW
One Comment