منیر سامی
سالِ نو کے پہلے ہی دن امریکہ کے صدر ڈونلڈٹرمپؔ نے سوشل میڈیا پر ٹویئٹ Tweet کے ذریعہ ایک مختصر پیغام بھیج کر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ہلچل مچادی۔ پیغام یہ تھاکہ پاکستان ’ایک ناقابلِ اعتماد حلیفـ ہے ، اور یہ کہ امریکہ اس سے تعلقات پر نظرِ ثانی کر رہا ہے۔ اس پر تفصیل سے بات کرنے سے پہلے بہتر ہے کہ ہم ایک بار یہ دیکھ لیں کہ سوشل میڈیا پر ٹویئٹ کا وسیلہ ہے کیا اور اس کے ذریعہ پیغام رسانی کرنے والے کے مقاصد اور فوائد کیا ہیں۔
بنیادی طور پر ٹویئٹر کے ذریعہ سے لوگ اپنے پیروکاروں کو جو خود بھی یہ ذریعہ استعمال کرتے ہیں، بڑی سرعت کے ساعت ایک مختصر سا پیغام بھیج سکتے ہیں۔ اب سے پہلے یہ پیغام صرف ایک سو چالیس 140 حروف یا ہندسوں تک محدود تھا۔ اب کہیں کہیں حرفوں کی تعداد ، 280 کر دی گئی ہے۔ ابلاغ کے اس وسیلہ سے فائدہ اٹھانے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ ٹوئیٹر پر آپ کے پیرو کار بڑی تعد ا د میں موجود ہوں، اور پھر وہ اس پر اپنے ردِّ عمل کا اظہار بھی کریں۔
اس وقت اس وسیلہ پر جو لوگ بڑی تعداد میں پیروکار رکھتے ہیں، ان میں بڑے کھلاڑی، فلمی ستارے، عوامی شخصیات، سیاست دان، سرکار ی ادارے ، اور کاروباری ادارے شامل ہیں۔ یہ لوگ اس وسیلہ کو اس لیے استعمال کرتے ہیں کہ اس طرح ان کا پیغام ان تک بہ سرعت پہنچ جاتا ہے جن تک وہ یہ پیغام پہنچانا چاہیں۔ یوں آپ اخباروں، دیگر ذرایع ابلاغ، پریس کانفرنسوں، یا اشتہاروں کے محتاج نہیں رہتے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ پیغام صرف آپ کے پیروکاروں تک محدود نہیں رہتا ، بلکہ اگر آپ کے پیروکار اس پر کسی بھی ردِّ عمل کا اظہار کریں تو وہ ان کے پیروکاروں تک پہنچ جاتا ہے۔
آیئے اب یہ دیکھیں کے امریکہ کے صدر ٹرمپ کے کتنے پیروکار ہیں۔ٹویئٹر کے ادارے کے مطابق اس وقت ٹرمپ کے اس وسیلہ پر چھیالیس ملین یا تقریباً پانچ کروڑ پیروکار ہیں۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کے پیغام کی رسائی کتنی وسیع ہے۔ آپ کی دلچسپی کے لیئے یہ بھی عرض کریں کہ امریکہ کے سابق صدر اوباما کے ٹوئٹر پر پیروکاروں کی تعداد تقریباً دس کروڑ ہے۔
صدر ٹرمپ دیگر سربراہانِ ریاست کے مقابلہ میں ٹویئٹر کا استعمال اس لیے کرتے ہیں کہ ان کے خیال میں امریکی ذرائع ابلاغ ان کے حمایتی نہیں ہیں اور ان کے پیغام کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ وہ اس وسیلہ کا استعمال اپنے ثقہ پیروکاروں تک اپنی بات پہنچانے کے لیئے کرتے ہیں جو پھیل کر کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے، اور ان کے مخالف اس کا جواب سوچتے ہی رہ جاتے ہیں۔
یہاں یہ بھی سمجھنا چاہیئے کہ اگر امریکہ صدر اپنے پانچ کروڑ پیروکاروں سے یہ کہیں کہ پاکستان ایک ’ناقابلِ اعتماد ‘ حلیف ہے، یا ایسا حلیف ہے کہ جو حریف بھی ہے حلیف بھی ہے، یا یہ کہ پاکستان دہشت گردی کا منبع ہے، تو ان کی بات میں کیا اثر ہوگا۔ سو آپ اس کے منفی اثرات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اپنے ثقہ پیروکاروں کے ساتھ ساتھ ان کا پیغام دنیا بھر کے سربراہانِ مملکت اور پالیسی سازوں، اور ذریع ابلاغ میں بھی پھیل جاتا ہے۔ یہاں یہ بھی ذہن میں رہے کہ دنیا بھر میں چین سمیت یہ خیال عام ہے کہ پاکستان مذہبی دہشت گردوں کا منبع ہے ۔ ایسی صورت میں پاکستان کو اپنی پگڑی سنبھالنا محال ہو جاتا ہے۔
ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ امریکی صدر تو ٹویئٹر کے ذریعہ شوشہ چھوڑ دیتے ہیں لیکن ان کے معتمد اسی وسیلہ کو استعمال نہیں کرتے بلکہ انتہائی سنجیدگی سے وہی بات عام میڈیا میں اور دنیا بھر میں اپنے ہم عہدہ داروں تک پہنچادیتے ہیں۔ اس وقت یہ سب عہدے دار اپنے صدر کے بیان کی تفصیلی توثیق کر رہے ہیں۔
آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ امریکی صدر کے ٹویئٹ کے جواب میں پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصفؔ نے بھی ٹویئٹ پر پیغام داغ دیئے۔
امریکی صدر کے مقابلہ میں خواجہ آصف کے صرف دس لاکھ پیروکار ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے فوجی ادارے ISPRکے تقریباً تیس لاکھ پیروکار ہیں، جو خود بھی پیغام رسانی کے مقابلوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ یہاں یہ قیاس کرنا مشکل نہیں ہے کہ خواجہ آصفؔ اورآئی ایس پی آر کی رسائی زیادہ تر اپنوں ہی میں ہو گی۔ سو ان کا ٹویئٹ پر امریکی صدر سے مقابلہ، ’دلِ ناتواں ‘ کا مقابلہ ہی کہا جاسکتا ہے۔
اگر ہم پاکستانی میڈیا کی عمومی ہاہا کار کو سنیں تو اندازہ ہوگا کہ ان میں سے اکثر ہماری مقتدرہ کی ہم نوائی کے علاوہ ان معاملات کا سنجیدگی سے تجزیہ نہیں کرتے ۔ہمیں یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہماری مقتدرہ پر ہمیشہ عسکریت کی برتری رہی ہے۔ امریکہ کا ،بلکہ دنیا کے اکثر بڑے ممالک کا جن میں دوست دشمن سب شامل ہیں متفقہ خیال یہ ہے کہ پاکستان مذہب کے نام پر شدت پرستی، اور دہشت گردی کا نا صرف شکار ہے بلکہ اس قسم کے شدت پرست گروہوں، اور دہشت گردی کرنے والوں کو اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کرتا ہے۔ اور یہ کہ اس قسم کی دہشت گردی اس بدقسمت ملک میں پہلے کشمیری جہاد کے نام پر شروع ہو گئی تھی۔
پاکستان کے بارے میں یہ خیال بھی عام ہے کہ پاکستان امریکہ کی ایک طفیلی ریاست یا Client State ہے۔ بدقسمتی سے یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ارباب ِ اقتدار نے جن میں ہمارے طاقت ور عسکری ادارے پیش پیش ہیں یہ مقام اپنی مرضی اور اپنی دانش سے حاصل کیا ہے۔ یہ معاملہ صرف کشمیر سے ہی نہیں شروع ہوا تھا۔ اپنی دانش میں لادین کمیونسٹوں کو نیچے دکھانے کے لیئے ہم اپنی مرضی سے اب سے تقریباً ستّر سال پہلے کوریا کی جنگ میں امریکہ کے حلیف بنے۔ پھر کمیونسٹوں کے خلاف امریکہ ہی کے ساتھ SEATO اور CENTO میں حلیف بنے۔
اور آخرِ کار ہم نے مذہبی فوجی رہنما ، جناب ضیاالحق ؔ کی رہنمائی میں پوری قوم کو روس سے لڑنے کے لیے افغان جہاد میں شامل کر دیا۔ ہم نے جب بھی ایسا کیا اپنے عسکری مقاصد کو سامنے رکھ کر کیا۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ایک تو ہم کمیونزم کے خلاف لڑائی میں امریکہ کی طفیلی ریاست بنے، لیکن دوسری جانب اس وقت کی ایک مکمل کمیونسٹ طاقت چین کو اپنا یار گردانتے رہے۔ کیا ناطقہ سر بگریباں نہیں ہے؟
جو بھی ملک اپنی صوابدید اور منشا سے طفیلی ریاست کا درجہ حاصل کرلیتا ہے وہ ہمیشہ اپنے طاقت ور آقا یا حلیف کا محتاج اور طابع ہوتا ہے ، اور اسے ہمیشہ اسی طاقت ور کا دست نگر اور زیر دست رہنا ہوتا ہے۔ جب تک ہم یہ نہیں سمجھیں گے ، ہمیشہ امریکہ کی زیادتیوں کا رونا رہتے رہیں گے۔ اب ذرا یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہماری مقتدرہ نے جس میں عسکری مقتدرہ شامل ہے اس سارے معاملہ میں عوام کے لیئے کیا حاصل کیا۔ بقولِ فیض ؔ ہم تو ’جاں بیچنے کو آئے تو بے دام بیچ دی کی ‘ مجسم تصویر ہیں۔
دنیا کے اہم جریدے گارڈین کے مطابق قیامِ پاکستان سے2010 تک امریکہ نے پاکستان کو تقریباً چالیسؔ ارب ڈالر کی معاشی امداد فراہم کی، اور قریباً تیسؔ ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کی ۔ فوجی امداد میں 2010 تک تقریباً نوارب ڈالر کی صرف وہ امداد شامل ہے جو افغانستان میں امریکہ سے تعاون کے طور پر 2002 سے شروع ہوئی۔ امریکی کانگریس کے ایک تحقیقاتی ادارے کے مطابق سنہ 2011 سے سنہ 2016تک پاکستا ن کو فوجی مدوں میں تقریباً ساتؔ ارب ڈالر، اور معاشی امداد کی مد میں تقریباً ڈھائی ارب ڈالر کی امداد دی گئی۔ یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ یہ براہِ راست امداد ہے جو امریکہ نے پاکستان کو فراہم کی۔ اس میں قرضوں کی مد میں وہ رقوم اور مراعات شامل نہیں ہیں جو پاکستان عالمی اداروں سے امریکہ کی مدد سے حاصل کرتا رہا ہے۔
یہ اعداد و شمار شاید آپ پر واضح کریں کہ دنیا کا کوئی بھی دیگر ملک جس میں چین شامل ہے پاکستان کی اس طرح مدد نہیں کرتا۔ سی پیک کی مد میں چین کا پاکستان سے سارا تعاون مہنگے قرضوں کی بنیاد پر ہے۔اب شاید آپ کو اندازہ ہو گا کہ امریکہ سے غیر دوستانہ ترکِ تعلق ہمارے لیے کیا مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔
اگر آپ غور کرنا چاہیں تو آپ پر یہ تلخ حققیت بھی عیاں ہو گی کہ قیامِ پاکستان سے اب تک پاکستان اپنے دفاعی اخراجات کے لیے امریکہ کا محتاج رہا ہے اور جب سے اب تک اس نے امریکہ سے مختلف دفاعی شقوں میں تقریباً سینتیسؔ ارب ڈالر حاصل کیے ہیں۔اور تقریباً اتنی ہی رقم اسے معاشی مد میں امریکہ سے ملی۔
پاکستانی عوام اپنا پیٹ کاٹ کر دفاعی اخرجات پر جو خرچ کرتے ہیں وہ الگ کہانی ہے۔ معاشی امداد کی شق میں بھی پاکستان نے امریکہ سے اپنے قیام سے اب تک تقریباً ساڑھے بیالیسؔ ڈالر بھی حاصل کیے ہیں۔ یہ ساری رقوم حاصل کرنے کے بعد بھی ہم ایک نسبتاً ترقی یافتہ ملک بھی نہیں بن پائے، بلکہ امریکہ کی جنگوں میں آلہ کار بن کر، اپنے اربابِ حل وعقد کی غیر دانشمندانہ ترجیحات کے نتیجہ میں خود شدید ترین مذہبی شدت پرستی اور دہشت گردی کا شکار بن گئے۔
ہمارے خیال میں اوپر فراہم کیے گئے اعداد و شمار کی روشنی میں ، کسی کو بھی یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے کہ ایک طفیلی ریاست بن کر پاکستان امریکہ سے خطیر رقوم حاصل کرتا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں اس کا مفاد ہوگا۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ رقوم فراہم کرنے والا امداد دہندہ، امریکہ جو ایک بڑا سرمایہ دار ملک ہے اپنے مفاد کو کسی وقت بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ہمیں متفقہ طورپر یہ سوچنا ہوگا کہ امریکہ کی ہر سیاسی جماعت اور رائے عامہ آج پاکستان سے کیوں نالاں ہے۔
ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ کیا ہم بڑی بڑی بڑھکیں مار کرر ستمِ زماں بن جائیں گے، یا ایسی پالیسیاں اپنائیں گے جو ہمیں کسی کی بھی زیر دستی سے محفوظ کریں ، اور ہمارے عوام کو فلاح اور ترقی نصیب ہو۔ ہم پر یہ سوچنا بھی لازم ہے کہ کیا ہم ان دفاعی اخراجات کے متحمل ہو سکتے ہیں جن کے لیئے ہم غیر وں کے محتاج ہیں۔ یا ہم ان دفاعی اخرجات کا بار اس قوم پر ڈالنے پر تلے رہیں گے جس کا بال بال قرض اور غیر ملکی امداد میں جکڑا ہے۔ آخر ہم کب تک گھاس کھاتے رہیں گے۔
♦