الطاف حسین
تحریک انصاف کی رہنما اور شعلہ بیان مقرر شیریں مزاری کی بیٹی ایمان زینب حاضر مزاری نے اپنے ٹویٹس سے کافی ہلچل مچائی ہوئی ہے ۔ چونکہ ان کی تنقید کا نشانہ پاکستان کے مقدس ادارے ہیں لہذا پاکستانی میڈیا میں اسے کوئی پذیرائی نہیں ملی۔ ان ٹویٹس میں وہ بتاتی ہیں کہ کیسے فوجی ایسٹیبلشمنٹ سوشل میڈیا اور مختلف بین الاقوامی فورمز پر اپنے پراپیگنڈے کے لیے لکھاریوں، صحافیوں اور بلاگرز کو استعمال کرتی ہے۔
ایمان مزاری کی ٹوئٹر پر گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیسے ریاستی ادارے رائے عامہ کو کنٹرول کرتے ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں اور میزبانوں کا آئی ایس آئی سے تعلق کوئی ڈھکا چھپا نہیں۔ لیکن اب وہ سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کی اپنی سی کوشش کررہے ہیں جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہیں۔ پاکستان میں سائبر کرائم آرڈیننس کی بدولت لوگ احتیاط سے کام لیتے ہیں لیکن بیرون ملک رہنے والے ان کے قابو میں نہیں آرہے۔
ایمان زینب حاضر مزاری کا کہنا ہے کہ وہ سکیورٹی اداروں کے خلاف اس لیے بولتی ہیں کیونکہ یہ اپنی کٹھ پتلیوں کے ذریعے اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف مہم چلاتے اور ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
ٹوئٹر پر ایمان مزاری نے لکھا میں سمجھتی تھی کہ پاکستان کی سب سے بہترین چیز یہاں کی فوج ہے ، اگر آپ ماضی میں میری جانب سے لکھی گئی کوئی چیز پڑھ لیں تو آپ کو ضرور حیرت ہوگی کہ آج میں اس نہج تک کیسے پہنچی۔جب میری بھی برین واشنگ ہوئی تو مجھے فوج کے ساتھ اندھی محبت ہوگئی، اور اسی محبت میں میں نے ان کے ایک میڈیا میں کام کرنے والے بندے سے رابطہ کیا اور کہا کہ میں کس طرح آپ لوگوں کی مدد کرسکتی ہوں، میری تحقیق میں مہارت ”ملکی خدمت“ میں کافی کام آسکتی ہے۔
ایمان مزاری نے کہا جب میں نے اس شخص سے رابطہ کیا تو اس وقت میں بہت چھوٹی تھی اور میں نے بھی پاکستان کی وہی تاریخ پڑھ رکھی تھی جو سب لوگوں کو پڑھائی جاتی ہے جس کی وجہ سے قوم پرست پراپیگنڈے میں آگئی تھی اسی لیے مجھے ملک کی خدمت کرنے کا اس سے بہتر طریقہ نہیں آتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب میں نے اس میڈیا کے بندے سے رابطہ کیا تو اس کے بعد اگلے کچھ ہفتوں کے دوران مجھے بعض ای میلز کے ذریعے مواد بھجوایا گیا جسے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے شیئر کرنے کی ہدایت کی گئی،بعض اوقات کچھ تبدیلیوں کی بھی ہدایت کی جاتی تھی۔ اپنی اندھی قوم پرستی کے باوجود میں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا کیونکہ کچھ نہ کچھ گڑ بڑ تھی اس لیے میں نے کبھی بھی وہ چیزیں پوسٹ نہیں کیں۔
پہلے کام سے انکار کے باوجود میں نے دوبارہ کوئی دوسرا کام کرنے کی آفر کی، شاید میں کشمیر پر کچھ کام کرسکوں؟ جس پر مجھے بتایا گیا کہ ”وہ“ کچھ پاکستانی طلبہ کو کشمیر پر ہونے والی مختلف کانفرنسز میں شرکت کیلئے بھیجنا چاہتے ہیں، یہ سن کر میں بہت خوش ہوئی اور تیاریاں شروع کرنے کی اجازت طلب کی۔
لیکن مجھے جواب دیا گیا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ مجھے کہا گیا کہ آپ کو ایک سکرپٹ دیا جائے گا جس پر سختی سے عمل کرنا ہوگا، مجھے اس سے اتفاق نہیں تھا اس لیے انکار کردیا۔
ایمان مزاری نے کہا سکرپٹڈ کٹھ پتلی بننے کیلئے کئی لوگوں کو اس طرح کی آفرز کی جاتی ہیں اور آج وہی سکرپٹڈ کٹھ پتلیاں مجھے ٹوئٹر پر نظر آتی ہیں، آج ان کے داؤپیچ ذرا تبدیل ہوگئے ہیں، یہ لوگ صحافیوں کو معلومات فراہم کرتے ہیں اور صحافیوں کو لگتا ہے کہ وہ بہت سپیشل ہیں، جس کے بعد وہ بھی انہی نوجوانوں کی طرح ’جنہیں اختلاف رائے کرنے والوں پر باضابطہ حملہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہوتی ہے‘ برتاؤ کرتے ہیں۔اگر کسی کے خلاف ایک مہم ناکام ہوجائے تو کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ ان کے پاس معلومات کے بہت سے فولڈر ہوتے ہیں جنہیں غلط طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
شیریں مزاری کی بیٹی نے کہا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے خاموشی کے ساتھ سالوں تک لوگوں کو خوفزدہ کیا ہے اور وہ کبھی بھی رکنے والے نہیں ہے۔ انجم کیانی بھی ایک ایسا ہی شخص ہے جس کے ذریعے نہ صرف مجھے بالواسطہ طور پر دھمکیاں دی گئیں بلکہ بیہودہ پیغامات بھی بھجوائے گئے، اور اسی شخص نے اب مجھے شیطان کی پیروکار ہونے کا بھی طعنہ دے دیا ہے۔
ایمان مزاری نے کا کہنا تھا میں یہ سب اس لیے کہہ رہی ہوں کیونکہ آپ لوگوں میں سے بھی بہت سے ایسے ہوں گے جنہوں نے اس طرح کی گھٹیا مہم جوئی کے نتیجے میں اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالا ہوگا۔اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ مہم جوئی کے نتیجے میں پیچھے ہٹ جانے سے ان کا مقصد پورا ہوجائے گا، اگر آپ اس نہج تک پہنچ چکے ہیں تو برائے مہربانی انہیں خود کو خاموش نہ کرانے دیں۔
ایمان مزاری کی گفتگو بنیادی طور پر ان لبرل لکھاریوں پر گہرا طنز ہے جو ان حقائق پر جانتے بوجھتے گفتگو کرنے کے لیے تیارنہیں۔ پاکستان کی فوجی اشرافیہ، جمہوریت سے لے کر بنیاد پرستی اور لبرل ازم کو کنٹرول کر تی ہے ۔ اب ضروری نہیں کہ تمام لبرل لکھاری اور صحافی ریاست کے دیے گئے ایجنڈے کو فالو کریں۔ جو سمجھدار اور کاری گر ہیں یعنی جو مزاج شناس رسول ہیں اور وہی بات کرتے ہیں جس سے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔
ہاں ماضی کے قصے کہانیاں بیان کیے جا سکتے ہیں، انقلابی شاعری سنائی جا سکتی ہے لیکن بلوچستان اور سندھ میں گمشدگیوں پر احتجاج نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ملک میں دندنانے والے طالبان کے ساتھیوں اور بین الاقوامی دہشت گردوں کی سرگرمیوں پر بحث ہو سکتی ہے۔ ان کی فلاح انسانیت پر مبنی سرگرمیوں کا پرچار کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتےاور اسے ان کا مثبت کردار گردانتے ہیں۔ ان کے ہاں دہشت گردی کے خلاف فوجی آپریشنوں کی تعریف و توصیف بھی ملے گی ۔ کبھی کبھار سیکولر ازم کے پرچار کے لیے قائداعظم کے کندھے پر بندوق بھی رکھ کر چلا لیتے ہیں۔
ٹوئٹر اکاونٹ پر ان کی گفتگو دیکھی جا سکتی ہے۔@ImaanZhazir
Daily Pakistan online/ Web desk
♦