شبانہ نسیم
چند روز قبل نام نہاد مارننگ شوز جن کا مقصد ہی شاید صبح سویرے ست رنگیا زرق برق ملبوسات میں لپیٹی خواتین کو کریم کیک جیسے سجے چہرے دکھانے کا ہے ،میں ایک اپنی طرز کے انوکھے نئے نویلے دولہا دولہنوں کے جوڑے کو بڑے اہتمام سے دکھانے کا بندو بست کیا گیا۔اس جوڑے کی انوکھی بات یہ تھی کہ ملتان شہر سے تعلق رکھنے والے 23سالہ دولہا میاں ایک نہیں بلکہ دو دو دولہنوں کے ساتھ مذکورہ شوز میں تشریف فرما تھے۔
اگرچہ ہمارے ہاں مرد حضرات کو بیک وقت چار خواتین کے ساتھ شادیاں رچانے کی اجازت حاصل ہے تاہم اس کے باوجود خواتین میں سوتن نامی چیز کو بخوشی قبول کرنے کا رواج مقبولیت نہیں پا سکا شاید اس کی وجہ اس عمل کا انسانی فطرت سے ہم آہنگ نہ ہونا رہا ہو ۔
آپ مذکورہ واقعہ کی ویڈیوزانٹرنیٹ کی وساطت سے دیکھ سکتے ہیں جس میں مارننگ شوز کی ہوسٹس اور میڈیا رپورٹرز اس جوڑے سے مختلف سوالات کرتے نظر آئیں گے۔ ان ہی ویڈیوز میں بیوی نمبر ایک جو کہ عمر میں خاوند اور بیوی نمبر دو سے بڑی دکھائی دیتی ہیں،انہیں خاصی چرب زبانی کا مظاہرہ کرتے بھی دیکھا جا سکتا ہے کے بقول وہ اپنی سہیلی اور حالیہ سوتن سے بے حد محبت کرتی ہیں ۔
ایک ماہ قبل جب اس کی شادی ہوئی تو وہ سہیلی کو بھی اپنے ساتھ ہی سسرال لے آئیں کیونکہ وہ اس سے جدائی برداشت نہ کر سکتی تھیں۔بیوی نمبر ایک نے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی سہیلی کے والدین نہیں ہیں اور انکا بیشتر وقت اس ہی کے ساتھ گزرا لہذا وہ اسے سسرال بھی ساتھ ہی لے آئیں ۔انکا کہنا تھا کہ سسرال میں سہیلی کو ساتھ رکھنا انکے لئے خاندانی مشکلات کا باعث بن رہا تھا تو انھوں نے آخر کار اپنی پہلی محبت کو ہمیشہ ساتھ رکھنے کیلئے اپنے ہی خاوند سے اس کی شادی کرانے کا فیصلہ کیا اور فیصلہ کرنے کے بعد شوہر کو اس سے آگاہ کیا۔
بعد ازاں شوہر نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور یوں سہیلی نے دلہن کا جوڑا پہن کر اسی گھر میں مستقل رہنے کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرلیا۔لیکن دوسری جانب دولہا میاں کا کہنا ہے کہ انھیں لڑکیوں کے گھر والوں کی جانب سے جان سے مار دینے کی دھمکیاں مل رہی ہیں اور اس نے سیکیورٹی دینے والے اداروں سے اپنے اور اپنی دو عدد بیگمات کیلئے تحفظ فراہم کیے جانے کی اپیل بھی کی ہے۔
یہاں کئی ایک سوالات اٹھتے ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔پہلا سوال لڑکیوں کے گھر والے دولہا کو جان سے مار دینے کے در پے کیوں ہیں اس نے کونسا کوئی خلاف شرع یا خلاف قانون عمل کیا ہے ۔دوسرا لڑکیوں کے باہمی پیار و محبت نے انھیں مجبور کیا اور انھوں نے ایک شخص کو دولہا چن لیا اور ان کے والدین اس پر سیخ پا ہیں لیکن لڑکے کے خاندان والے کہاں ہیں؟
کیا اس کے والدین کو اس بات کا ذرا بھر بھی احساس نہیں ہواکہ نو عمر فراز جسے ویڈیو میں اپنی بیگمات کے ساتھ، چڑیا اڑی کوا ،اڑا کھیلتے دیکھا جاسکتا ہے وہ دو عورتوں کے اخراجات کہاں سے پورے کرے گا؟ ایک اور اہم نقطہ مرد ہو یا عورت شوہر یا بیوی کی شراکت خوامخواہ برداشت کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں اور جہاں ایسا ہوتا ہے وہاں عموماًدوسرا رشتہ باہمی تعلق سے بلندی پر ہوا کرتا ہے۔
سننے میں آیا ہے کہ اس ٹرائی اینگل جوڑے کے وجود میں آنے کے پیچھے بھی دو سہیلیوں کی ۔۔۔۔قربت کا ر فرما ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے اگر دونوں خواتین کسی قریبی تعلق میں منسلک تھیں تو ایک مرد کو درمیان میں لانے کی کیا ضرورت تھی ؟ تو جناب یاد رہے گزشتہ برس کے اواخر میں پنجاب ہی میں دو سہیلیوں کے آپسی بیاہ کے بعد انھیں جیل کی ہوا کھانے کے ساتھ ساتھ نیک معصوم میڈیا رپورٹرزکے چھبتے ہوئے سوالات جنھیں سن کر کوئی بھی انسان خود کو دنیا کے سامنے بے لباس محسوس کر سکتا ہے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ایسے میں ٹرائی اینگل جوڑے کا وجود میں آنا یا لایا جانا قدرے بہتر انتخاب ہے۔
واضح رہے پاکستان میں ریپ ، محرم رشتوں کے ساتھ جنسی تعلق کے ساتھ ساتھ ہم جنس پرستی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے شاید اس کی وجہ نوجوانوں کی ضروریات کو نظر انداز کرکے ان پر جبری پابندی عائد کرنا رہا ہو۔
♦