پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی نوعیت تاریخی ہے۔
ان تعلقات کا آغاز 1947 میں قیام پاکستان سے ہی ہوگیا تھا۔ ان کا آغاز بانی پاکستان محمد علی جناح نے کیا تھا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد محمدعلی جناح نے امریکہ کو درخواست کی تھی کہ پاکستان ایک نوزائیدہ ملک ہے جو چاروں اطراف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے اور اسے اپنے دفاع کے لیے ہتھیاروں کی اشد ضرورت ہے۔ امریکہ نے کوئی لفٹ نہ کرائی۔لیکن حکمرانوں نے اپنی کوشش جاری رکھی۔
سنہ 1954 میں امریکہ نے پاکستان کو فوجی امداد دی جس کے بعد پاکستان نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔پچھلے ساٹھ سالوں سے پاکستان امریکہ سے فوجی امداد لیتا رہا ہے۔ امریکہ نے پاکستان کو عوامی بھلائی کے منصوبوں کے لیے بھی امداد دی لیکن پاکستانی ریاست کا زور ہتھیاروں کے حصول پر ہی رہا ہے ۔
دونوں ملکوں کے درمیان یہ دوستی مختلف ادوار میں اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے ۔ لیکن دونوں کے درمیان دوستی کا بہترین دور افغانستان میں کمیونسٹوں کے خلاف جنگ کا دور تھا جسے پاکستان نے جہاد کا نام دیا تھا۔ جہاد اس مذہبی جنگ کو کہتے ہیں جو اسلام کے غلبے کے لیے لڑی جاتی ہے۔ ’’غیر مہذب‘‘ لوگ ہتھیاروں سے لڑ رہے ہیں اور’’ مہذب ‘‘ قلم کے ذریعے جہاد کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
اس جنگ میں سعودی عرب اور امریکہ نے اپنے اپنے مفاد کے لیے پانی کی طرح پیسہ بہایا جس کی بدولت فوجی افسروں اور مُلاؤں پر مشتمل نودولتیوں کا ایک نیا طبقہ وجود میں آیا ۔ عائشہ صدیقہ اپنی کتاب ’’ ملٹری ان کارپوریٹڈ‘‘ (جس کا اردو ترجمہ خاکی کمپنی کے نام سے ہوا ہے) میں لکھتی ہیں۔ امریکی امداد کا سب سے زیادہ فائدہ فوج نے اٹھایا۔ وہ جنگ تو کبھی جیت نہ سکی لیکن امداد میں ملنے والی رقم ہوٹل ، رئیل اسٹیٹ اور شاپنگ مالز جیسے کاروبار میں انوسٹ کی۔
کمیونسٹوں کے خلاف یہ جنگ مذہب اسلا م کے نام پر لڑی گئی تھی اور جنگ لڑنے والے پاکستان کے اسلامی مدرسوں کے طالب علم تھے ۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کے طول و عرض میں مدرسوں کا جال بچھایا گیا بلکہ عرب اور دوسرے اسلامی ممالک سے نوجوان جہاد کے لیے پاکستان آتے جہاں انہیں تربیتی کیمپوں میں پاکستان آرمی گوریلا جنگ کی ٹریننگ دیتی تھی۔
افغانستان سے روسی فوجوں کے نکلنے کے بعد جب ان جہادیوں کی بڑی کھیپ فارغ ہو گئی تو پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی، آئی ایس آئی، نے اس جہاد کو دوسرے ممالک میں ایکسپورٹ کرنا شروع کردیا۔ ان کی بڑی تعداد اپنے اپنے ممالک کو لوٹ گئی جہاں انہوں نے شریعت نافذ کرنے کا بیڑا اٹھایا جبکہ پاکستانی مجاہدین کو کشمیر میں دھکیل دیا ۔ دنیا بھر میں پھیلے انہی جنگجوؤں کے وجود سے القاعدہ کا وجود عمل میں آیا جسے سعودی حکومت نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔
نائن الیون کا واقعہ جہاد ایکسپورٹ کرنے کی ایک واضح مثال ہے۔ اس واقعے کے بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان لو اینڈ ہیٹ کا تعلق شروع ہوا۔ امریکہ نے پاکستان کو دھمکی دی کہ اب وہ ان جنگجووں کی پشت پناہی کرنا بندکردے اور ان کے خاتمے کے لیے امریکہ سے تعاون کرے جسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا۔
پاکستانی ریاست نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں ایک بار پھر پاکستان کو فوجی امداد ملی۔ لیکن پاکستانی ریاست نے اس جنگ میں دوغلا کردار ادا کرنا شروع کردیا جو اب تک جاری ہے۔ پاکستان ایک طرف دہشت گردوں کے خلاف کاروائی بھی کرتا ہے مگر دوسری طرف طالبان قیادت کی پشت پناہی کرتا چلا آرہا ہے۔
یہی وجہ تھی کہ امریکہ نے قبائلی علاقوں میں موجود طالبان کو ختم کرنے کے لیے ڈرون حملوں کا آغاز کیا۔ جس میں طالبان کی ایک بڑی تعداد ماری بھی گئی لیکن طالبان کی اعلیٰ قیادت کو پاکستانی ریاست نے اپنی حفاظت میں لیے رکھا۔ جس کا پتہ اس وقت چلا جب ابیٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف کاروائی کی گئی۔طالبان کے امیر مُلا عمر جو کراچی کی سبزی منڈی میں آلو بیچتا رہا اور بعد میں کراچی کے ہسپتال میں ہی جان دی جبکہ طالبان کا نیا امیر مُلا منصور کوئٹہ کے نزدیک ڈرون حملے میں مارا گیا۔
امریکی حکومت نے بارہا پاکستان سے جنگجوؤں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا ۔۔۔ جسے ڈو مور کہا گیا۔۔۔ پاکستان کا موقف تھا کہ وہ ڈو مور ہی کررہا ہے ۔ پاکستان آرمی نے طالبان کے خلاف تین بڑے آپریشن سوات، جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان میں کیے۔ لیکن طالبان کی اعلیٰ قیادت کو چھیڑا نہیں گیاجو افغانستان میں جمہوری حکومت کے خلاف دہشت گردی کی کاروائیاں کر تے رہے۔
پاکستان ، اپنی افغان پالیسی کو سٹریٹجک ڈیپتھ (تزویراتی گہرائی ) کا نام دیتا ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی کٹھ پتلی حکومت چاہتا ہے تاکہ اس کے ذریعے بھارت کو، جو پاکستان کا ازلی دشمن ہے، ناکوں چنے چبوا سکے۔ اسی مقصد کے لیے وہ افغانستان کو باربار طالبان سے مذاکرات کرنے کا مطالبہ کرتا ہے اور جب طالبان کو مذاکرات کی ٹیبل پر لایا جاتا ہے۔تو یہ مذاکرات طالبان کے سخت گیر موقف کی وجہ سے ناکام ہو جاتے ہیں۔ طالبان جمہوریت کے خلاف ہیں اور وہ اپنے ساتھ کسی دوسرے گروہ کو حکومت میں شریک کرنے کے لیے تیار نہیں۔
لیکن پاکستان آرمی کی سٹریٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی کا نقصان نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ اس خطے کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
پاکستان میں ہزاروں اسلامی مدرسوں سے لاکھوں فارغ التحصیل ہونے والے طالب علم سماج میں انتہا پسندانہ سوچ کو پروان چڑھا رہے ہیں۔جس کا نشانہ پاکستان کی اقلیتوں کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی بن رہے ہیں۔ پاکستانی فوج کی جنگجو پالیسیوں کی بدولت پاکستان کے وسائل بڑا حصہ جو عوام پر خرچ ہونا چاہیے ہتھیاروں کے حصول میں چلا جاتا ہے۔ پاکستانی عوام تعلیم صحت اور سماجی انصاف سے محروم ہے اور ایک بڑی تعداد غربت کی سطح سے نیچے زندگی گذار رہی ہے۔
ڈیمو کریٹس اور ریپبلکن کے اندازسیاست میں بہت فرق ہے۔ ریپبلکنز کا اندازسیاست جارحانہ ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے خلاف سخت پالیسی اختیار کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے بارہا پاکستان کو طالبان کے خلاف کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا لیکن پاکستان مسلسل ٹرخاتا چلا آرہا ہے۔کوئی دو ماہ پہلے امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے سینٹ کی آرمڈ کمیٹی میں کہا تھا کہ ’’ ضروری ہے کہ ہم ایک بار پھر پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کوشش کریں اور اگر اس کے باوجود بھی ہم کامیاب نہ ہوئے تو صدر ٹرمپ ہر ضروری اقدام اٹھانے کے لیے تیار ہیں‘‘۔ اسی کمیٹی میں چئیرمین جائنٹ چیف آف سٹاف نے بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی ایس آئی کے دہشت گردوں سے رابطے ہیں۔
چند ہفتے پہلے امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستان کو سخت الفاظ میں تنیبہ بھی کی تھی اور کہا تھا کہ امریکہ پاکستان کو دہشت گرد ی کے خاتمے کے لیے 33 بلین ڈالر دے چکا ہے جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ لہذا مزید کاروائی سے پہلے اس کی فوجی امداد تو بند کی جائے ۔
پاکستانی حکام نے حسب معمول اس بیان کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ پاکستان نے اس جنگ میں بے شمار قربانیاں دی ہے جس کا امریکہ اعتراف کرنے کو تیار نہیں۔ اصل مسئلہ امداد کی بندش نہیں بلکہ دہشت گردی ہے۔ کیا پاکستان دہشت گردوں کی پشت پناہی سے باز آجائے گا؟ اس کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ امریکی حکومت نے ایک بار پھر اپنے مطالبات کی ایک لسٹ اسلام آباد کو دی ہے ۔ پاکستان کی دہشت گردوں کی مسلسل پشت پناہی سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان ابھی باز آنے کے لیے تیار نہیں۔اور کوئی بعید نہیں کہ پاکستانی ریاست امریکہ کووقتی طور پر پھر جل دینے میں کامیاب ہو جائے۔
♦
(مندرجہ بالا مضمون اس گفتگو کا خلاصہ ہے جو کینیڈا کے ریڈ ایف ایم93.1 ریڈیوکے ساتھ کی گئی)