اسرائیلی فوج کے ایک ریٹائرڈ میجر اِیلی اَوِیدارقطر میں اسرائیلی تجارتی مشن کے سابق سربراہ،فلاڈیلفیا میں وائس کونصلر اورہانگ کانگ میں اسرائیلی سفیررہ چکے ہیں۔آپ کوکچھ عرصہ اسرائیلی وزارت خارجہ کے شعبہ بین ا لمذاہب (انٹرفیتھ ڈیپارٹمنٹ) کے سربراہ کے طورپر تاریخی نوعیت کی کارکردگی دکھانے کا موقعہ ملا۔آپ کے ذمہ خصوصی طور پر ان مسلم اکثریتی ممالک سے عوامی اور غیررسمی روابط استواراور قائم کرنا تھا جن کے ساتھ اسرائیل کے دوطرفہ سفارتی تعلقات قائم نہیں۔ ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔
مصر میں پیدا ہونے والے یونانی النسل یہودی اِیلی اوِیدار عبرانی ، عربی اور انگریزی زبانوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ وزارت خارجہ سے سبکدوش ہوجانے کے بعد آج کل ایک پرائیویٹ کمپنی کے اعلیٰ عہدہ پہ فائزہیں ،فارغ وقت میں لکھتے لکھاتے ہیں۔آپ نے اپنی ایک کتاب
The Abyss: Bridging the divide between Israel and the Arab World.
کے چھٹے باب میں ایک دلچسپ ذیلی عنوان ’’مولاناقادری کا سُوٹ‘‘ کے تحت اسرائیل کا دورہ کرنے والے ایک پاکستانی وفدکا حال بیان کیا ہے جس کی میزبانی کافریضہ اسرائیلی حکومت کی طرف سے انہیں تفویض کیاگیا تھا۔
واضح رہے یہ بات نوے کی دہائی کے نصفِ آخر کی ہے جب پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کی بحثیں چھڑی ہوئی(یا چھیڑی گئیں)تھیں۔
ایلی اوِیدار لکھتے ہیں کہ: اسرائیلی وزارت خارجہ نے اطلاع دی کہ ایک پاکستانی مذہبی رہنما مولانااجمل قادری نے لندن میں اسرائیلی سفارت خانہ سے رابطہ کیا ہے۔یہ خبر ہمارے لئے نہایت اہم تھی کیونکہ اس سے قبل ہمارا رابطہ پاکستان کے سیاسی سربراہان سے ہی ہوا کرتا تھا جن کی بھنک پڑنے پر پاکستانی عوام کی طرف سے شدید غم وغصے کا اظہارکیاجاتا تھا۔پاکستان کی کسی مذہبی پیشوائیت سے ہمارا پہلے کبھی رابطہ نہیں ہوا تھا ۔مولانا قادریؔ کا رابطہ اور دورہ اسرائیل اس پہلو سے ہمارے لئے انتہائی کارآمد ثابت ہو سکتاتھا کیونکہ وہ جمیعۃ العلمأ اسلام کے ممبربھی ہیں اور مصالحت آمیزشخصیت بھی۔
اس لئے میں نے فوری طور اس پر کام کرنا شروع کردیا کہ قادری ؔ کے لئے اسرائیلی ویزہ ایسی حکمت عملی کے تحت جاری کیاجائے جس کا پاکستانی عوام میں منفی رد عمل پیدا نہ ہو۔ہمیں میڈیا کے ذریعہ علم تھا کہ جمیعۃ العلمأ کے افغانستان میں طالبان کے ساتھ بھی رابطے ہیں اور یہ کہ پاکستان میں ان کی جماعت نے ہزاروں مدرسے بھی قائم کر رکھے ہیں۔
چنانچہ مولانا قادری کو ان کے ہم وطنوں کی لعن طعن سے بچانے کے لئے میں نے اسرائیل میں قائم ایک اسلامی کالج سے رابطہ کرکے اس کی انتظامیہ کی طرف سے ایک باضابطہ دعوت نامہ جاری کروایا جو انہیں کالج کی لائبریری کی ایک تقریب میں شرکت کی خصوصی دعوت پر مشتمل تھا۔ان کا ویزہ کالج کی اس تقریب کے حوالے سے تھا لیکن دیگر ساتھیوں سمیت ان کا قیام وغیرہ اسرائیلی وزارت خارجہ کے سرکاری مہمان کی حیثیت سے کیا گیاتھا۔ان کے دورہ کے تینوں دن میں نے خود ذاتی طورپر ان کے مہماندارکے طور پر ڈیوٹی سرانجام دی۔ان کی رہائش کا انتظام یروشلم کے ’’لے روم ‘‘ہوٹل میں کیا گیا تھا۔
دورہ کے دوران مولانا قادری نے مجھے ایک ایسی بات بتائی جو میرے لئے انتہائی حیران کن تھی۔انہوں نے بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھی قیام پاکستان کے مخالف تھے۔ان کے نزدیک ہندوستان کی تقسیم برصغیر کے مسلمانوں کے لئے نقصان دہ تھی۔اگر ہندوستان متحد رہتا تو اس کا بڑا فائدہ مسلمانوں کو ہوناتھا۔
کالج لائبریری کی تقریب سے فارغ ہونے کے بعد میں نے ان کاتعارف اسلامک لاء پڑھانے والے بعض پروفیسروں کے علاوہ یہودی ربی بخشی ڈوروؔ ن سے کروایا۔بعد میں ان دونوں مذہبی رہنماؤں کی باہمی ملاقات یروشلم میں چیف ربی کے دفترمیں ہوئی ۔اس ملاقات کی خبر پاکستان میں شدیدتنقید کا نشانہ بنی۔
چیف ربی سے ملاقات کروانے کے بعد ہم مولانا کو الاقصیٰ مسجد لے گئے۔مولانا نے مجھے مسجد کے اندرآنے کی دعوت دی لیکن میں نے ان کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ کہ یہ مسلمانوں کی مقدس جگہ ہے بہتر ہے آپ مسلم وقف کے ممبران کے ہمراہ مسجدکے اندر جائیں۔
بعد میں قادری نے مجھے بتایا کہ مسجد کے اندر وقف کے اراکین ان سے لگاتاریہ گلے شکوے کرتے رہے کہ کس طرح وہاں کے مسلمانوں کو اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنایاجارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ تنگ آکر آخر میں کھڑا ہو گیااور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں کہہ دیاکہ میرا مشورہ ہے کہ آپ ذرا آنکھیں کھول کر باقی عالم اسلام پہ بھی نظر دوڑائیں تو آپ کو سمجھ آجا ئے گی کہ مذہبی جارحیت اصل میں کہتے کسے ہیں!۔
قادری نے مسکراکر کہا کہ میری یہ بات سنتے ہی وقف کے سارے ممبران انہیں چھوڑکر اِدھراُدھر کو ہولیئے اور یوں ہمیں مسجد اقصیٰ کے اندر یکسوئی اور توجہ سے عبادت کرنے کا موقعہ نصیب ہواجو ایک طرح سے ان کا ’’عمرہ ‘‘تھا۔
مصنف لکھتا ہے کہ اگلے روزقادری کے دورہ اسرائیل کی خبریں پاکستانی پریس نے چھاپ دیں۔پاکستانی وزیر خارجہ نے سخت بیان جاری کیا کہ قادری کو وطن واپسی پہ گرفتارکرلیا جائے گا حالانکہ بقول قادری انہوں نے اپنے دورہ اسرائیل کی تفصیلات باقاعدہ طور پر ان کے ساتھ بالمشافہ ملاقات میں پہلے سے طے کی تھیں۔ایک اور اخبار نے مولانا قادری سے یہ بیان منسوب کیا کہ آج کے دور میں فلسطینی مسئلہ کے حل کے لئے ضروری ہے کہ عالم اسلام اسرائیل کو پورے طورپر تسلیم کرلے۔
میں نے قادری کی جان کوخطرے میں پاکر اپنی تشویش کا اظہارکیا لیکن انہوں نے کہا کہ شوروغوغاتو بہت ہے لیکن یہ سب کچھ وقتی ہے۔مجھے معلوم ہے میں کیا کر رہا ہوں۔بڑے کام کاآغاز ایک چھوٹا قدم اٹھانے سے ہی ہوتاہے۔
اگلے روز قادری صاحب ڈائریکٹ فلائٹ پکڑکر لندن روانہ ہوگئے اور بعدہ سویڈن میں چندماہ قیام کرکے وطن واپس پہنچے۔
ان کے اس دورہ کے گیارہ سال بعد 2008 میں مجھے پاکستان ٹائمز اور پاکستان آبزرور کے ذریعہ علم ہوا کہ مولانااجمل قادری کی قیادت میں پاکستان سے 174 رکنی وفد جس میں مذہبی علماء، تاجر اور پاکستانی حکومت کے اعلیٰ عہدیداران شامل تھے براستہ دبئی و اُردن اسرائیل پہنچاہے اور یہ کہ علاوہ دیگر سرگرمیوں کے،اراکین وفد نے اسرائیلی وزیراعظم ایرئل شیرون،وزیرخارجہ سِلوَن شیلوم اور فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کی۔ پاکستان ٹائمز کے مطابق یہ قادری کا تیسرادورہ اسرائیل تھا۔
اِیلی اَوِیدارلکھتے ہیں کہ مجھے فخرہے کہ مجھے مسحورکن شخصیت کے حامل مولانااجمل قادری کے اولین دورہ اسرائیل میں ان کے ذاتی مہماندارہونے کا شرف حاصل ہوا۔ہم نے کئی کئی گھنٹے لگاتار آپس میں ڈھیر ساری باتیں کیں۔
مو لانا نے اسرائیلی سوسائٹی ،مذہب،ریاست،فلاسفی اور کلچر سے تفصیلی واقفیت حاصل کرنے کے لئے بے شمار سوالات کئے اور گہری دلچسپی کا ظہارکیا۔
دورہ کے آخری دن جب ہم ائرپورٹ کے لئے روانہ ہونے لگے تو قادری نے کچھ سوچ کرایک دم اپناسوٹ کیس کھولا اور اپنے کپڑوں میں سے ایک جوڑا،جو میڈ اِن پاکستان تھا،نکال کریہ کہتے ہوئے مجھے دیا کہ میرے پاس تمہیں دینے کے لئے کوئی تحفہ نہیں تم یہ جوڑا میری طرف سے شکریہ کی ایک علامت سمجھ کر رکھ لو کیونکہ جس طرح سے تم نے میرا خیال رکھاہے ، میں تمہیں اپنا سگا بھائی سمجھتاہوں !۔
میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور چونکہ اتفاقاًہماری جسامت ایک جیسی تھی اگلے کئی برس ثقافتی تقاریب میں میں نے ان کا یہ جوڑا پہن کر شرکت کی۔
آپ کے اس کامیاب دورہ کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ پاکستانی اور یہودی علماء کے مابین ایک رشتہ استوار ہو گیا بلکہ دنیائے اسلام کے کچھ دیگرغیرمتعصب اور وسیع القلب مسلم رہنماؤں کی طرح قادری کی شخصیت اورانکے متعدد ارشادات بھی ہمارے لئے مذہبی ہم آہنگی،برداشت اورمکالمہ کی ترویج کیلئے نفع رساں ثابت ہوئے ۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بین المذاہب رابطے اور ڈائلاگ کے ذریعے سے رویئے بدلے جا سکتے ہیں۔
خلاصۃًبحوالہ:۔
The Abyss: Bridging The divide Between Israel and the Arab World.
By Eli Avidar. انگلش ایڈیشن 2015 صفحات 176 تا 179
آکسفورڈ یونیورسٹی کے ڈگری یافتہ مولانامیاں محمد اجمل قادری صاحب جوبرصغیر کی مشہورتاریخی شخصیت مولاناعبیداللہ سندھی کے پڑپوتے ہیں ،(متحدہ ) جمیعۃ العلمأاسلام پاکستان کے آخری صدر تھے۔ جمیعت کی شیرازہ بندی کے بعدکچھ عرصہ مولاناسمیع الحق گروپ کے ممبر رہے بعد میں ایک نئی جمیعۃ العلما ء اسلام (ق)کی داغ بیل ڈالی جس کے آپ موجودہ سربراہ ہیں۔
آپ نے اپنے دورہ اسرائیل سنہ 2005 کے بارہ میں کو یتی نیوزایجنسی ’’وکا لۃ الانباء الکویتیہ‘‘ کوانٹرویودیتے ہوئے بتایا تھا کہ اس دورہ پر ان کے ساتھ ریٹائرڈ جنرلز،بیوروکریٹس،بینکرز،صنعتکار،تاجر اور مذہبی عمائدین بھی براستہ قاہرہ پاکستان سے تل ابیب پہنچے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم اور فلسطینی صدر سے ملاقات اور مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھانے کی سعادت حاصل کرنے کے علاوہ انہوں نے ایک چرچ میں منعقدہ جلسہ میں بھی شرکت کی جس کاانتظام مقامی مسلمان اور یہودی تنظیموں نے مل کر کیا تھا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا بھر میں مذہب کے نام پرہونے والی دہشت گردی اور خون خرابہ کوروکنے اورامن عالم کے دائمی قیام و استحکام کے لئے اس قسم کی بین المذاہب دوستانہ مساعی جاری وساری رہے۔یاد رہے کہ ذوالفقار علی بھٹونے لاہور میں منعقد ہونے والی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مبینہ طورپرکہا تھا کہ ہم صیہونیت کو اس کے جارحانہ توسیعی جنگی عزائم کی وجہ سے ناپسند کرتے ہیں لیکن یہود کو بحیثیت یہوددوست ہی سمجھتے ہیں۔